سوشل میڈیا نعمت ہے یا لعنت


گنجے کو خدا ناخن نہ دے
سوشل میڈیا جہاں ایک نعمت ہے وہیں لعنت بهی ہے
Social media is boon as well bane.
مثال کے طور پر فیس بک کی شکل میں مسٹر زوکربرگ نے دنیا بهر کے عام لوگوں کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا جو روایتی صحافت کے ایڈیٹر حضرات کی کاٹ چھانٹ سے خالی اور تقریباً ہر قسم کی سنسر شپ سے آزاد ایک مینی صحافت ہے . بلا شبہ سوشل میڈیا بنی نوع آدام کے بنیادی حقوق میں سے ایک اہم حق اظہارِ رائے کا ایک معاون ٹول tool ہے. اب یہ اس کے استعمال کرنے والے پر ہے کہ اس ٹول کو وہ کسی تعمیری بامقصد کام کے لئے بروئے کار لائے یا کسی تخریبی کام اور انتشار کے لئے استعمال کرے.
ہندوستان میں ماضی قریب میں اٹلی کے دو مارینز کا ایک قضیہ سامنے آیا تها جس پر سوشل میڈیا پر یہاں کی عوام خاص طور پر سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس نے طوفان برپا کردیا اور اٹلی کے سفارتخانے کو بند کرنے اور ہر شخص اپنی اپنی بے تکی باتیں نہ صرف سوشل میڈیا پر بلکہ الیکٹرانک میڈیا پر ٹی وی ڈیبیٹ میں رکهنے لگا. مجھے حیرت اس وقت ہوئی جب ٹی وی والوں نے ایسے لوگوں کی ویڈیو کلپ اور بائٹس نشر کرکے ایک طرح ان کی حوصلہ افزائی کی. کیا یہ ٹی آر پی بڑهانے کے لیے تها یا واقعی ٹی وی اینکرز بهی اس سے ناواقف ہیں کہ دو ملکوں کے درمیان تعلقات اصول و ضوابط کے مطابق قائم ہوتے ہیں جسے ویینا کنونشن کہتے ہیں. جس زمین پر سفارتخانہ واقع ہوتا ہے وہ اس ملک کی زمین مانی جاتی ہے جس کا وہ سفارتخانہ ہے اس میں آپ کے ملک کی پولیس بهی داخل نہیں ہو سکتی. ویینا کنونشن کے تحت ہر سفارت کار کو diplomatic immunity حاصل ہوتی ہے جس کے تحت وہ کئی قسم کے مقدمات وغیرہ سے مستثنیٰ ہوتے ہیں.

حال ہی میں ترکی کی کرنسی کی قیمت میں بهاری گراوٹ پر سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس نے ترکی کے خلاف امریکہ کی پالیسی پر رائے زنی کی اور امریکی ڈالر سے قطع تعلق کا مشورہ دیا… میں سمجھتا ہوں کہ مشورہ دینے والوں کی اکثریت گرچہ بزعم خود ماہر اقتصادیات و مالیات ہو ، مگر شاید ہی ان کو ورلڈ بینک کا نظام یا کرنسی کی قیمت برقرار رکھنے یا گرنے کے سلسلے میں انٹرنیشنل مونیٹری فنڈ IMF کا نظامِ عمل سے واقفیت ہوگی.

پاکستان کے نئے وزیراعظم عمران خان دنیا کے بیشتر ممالک کی طرح اپنی ترجیحات میں ملک کی بدتر اقتصادی حالت کو سنوارنے کو نمبر ایک پر رکها اور تیسری دنیا کے بیشتر حکام کی طرح اپنے ملک کے ماہرین اقتصادیات جو اپنی تعلیم اور تجربے کی بنا پر دنیا بهر میں اپنا سکہ منوا چکے ہیں متعدد ممالک کے ایڈوائزری بورڈ کے رکن یا ورلڈ بینک ، IMF یا یورپ و امریکہ کے دیگر معتبر اداروں میں اپنی خدمات دے رہے ہیں ان میں سے بعض کو اپنے ملک میں اپنی خدمات دینے کے لئے راضی کیا بالفاظ دیگر حق نمک ادا کرنے پر مائل کیا بلا شبہ یہ ایک قابل ستائش عمل ہے مگر افسوس وزیراعظم اپنی پہلی بالون ٹیسٹ پاس کرنے میں ناکام رہے. ریاست کے امور میں مذہبی اور غیر متعلق افراد اور تنظیموں کی بے جا دخل اندازی کے سامنے جھکنا آگے کی راہ کو خاردار بنا سکتا ہے. عاطف میاں کو اقتصادی مشاورتی کونسل کی رکنیت سے برطرفی یا ان کا استعفیٰ محض اس لئے کہ وہ احمدی یا قادیانی ہے مجھ جیسے غیر جانبدار شخص کی سمجھ سے باہر ہے. اکیسویں صدی میں جہاں دنیا کے اکثر ممالک نے سالہا سال کے تجربات کی روشنی میں جمہوری نظام کو اپنایا ہے اور ہر مہذب و متمدن ملک نے اقوام متحدہ کے چارٹر کی روشنی میں اپنا اپنا دستور بنایا ہے جس میں فرد کی آزادی کو اولیت حاصل ہے. اسی آزادی کے تحت ہر شخص اپنی پسند کا مذہب اختیار کرنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے آزاد ہے. پاکستان میں کسی غیر مسلم کا اعلیٰ عہدے پر فائز ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے … عدالت عظمیٰ کے سربراہ کے عہدہ پر بهی غالباً غیر مسلم فائز ہو چکے ہیں تو کسی ایک ماہر اقتصادیات قادیانی کو اقتصادی مشاورتی کونسل کے رکن بنانے پر اتنا واویلا کیوں؟ در اصل یہ سب مذہبی تعصب اور مسلکی منافرت کا نتیجہ ہے. جو ملک شدید اقتصادی بحران سے گزر رہا ہو اس کے حکمران کو مختلف جماعتوں کے دباؤ میں آنے یا ان کی خوشنودی حاصل کرنے سے زیادہ اہم ملک کے مفاد میں لئے گئے فیصلوں پر سختی سے کاربند ہونا ہے.
چند روز قبل ایک ویڈیو کلپ دیکها جس میں ایک پاکستانی مولانا کو یہ کہتے سنا کہ مدارس میں کسی قیمت پر انگریزی اور عصری تعلیم نہیں ہونے دیں گے. یہ سن کر واقعی صدمہ ہوا کہ اس دور میں کوئی شخص ایسا فیصلہ کیسے کر سکتا ہے. حالانکہ جس مکتب فکر کی نمائندگی یہ مولانا کرتے ہیں اس مکتب فکر کے بانی مولانا محمد قاسم نانوتوی
رحمہ اللہ نے کہا تها کہ ‘ چونکہ اس وقت 1866 کے پر آشوب دور میں دینی تعلیم اور دینی مدارس پر آفت آئی ہوئی ہے اس لئے نصاب میں انگریزی وغیرہ شامل نہیں کئے گئے ہیں. یہاں دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد یہاں کے طلباء سرکاری مدارس/اسکول و کالج / میں جا کر وہاں کے موضوعات میں خوب مہارت حاصل کریں. بانی رحمہ اللہ کی اتنی صریح تحریر کے بعد بهی اگر کوئی انگریزی تعلیم اور عصری علم و ہنر حاصل کرنے کو حرام کہے تو یہ اس کے ذہن کی اپج ہے دین اسلام یا کسی فتویٰ سے اس طرح کی باتوں کا کوئی تعلق نہیں ہے. یہ صرف اور صرف اپنی برتری قائم رکهنے اور طلباء کو جاہل رکھ کر ان کے دل و دماغ کو غلام بنائے رکهنے کا حربہ ہے. ایسے طلباء ہی دین کو پس پشت ڈال کر اپنے مسلک کو بر حق اور دوسرے کو گمراہ کافر مرتد واجب القتل گردانتے ہیں. دین اسلام میں تسامح ہے .. تشدد نہیں ہے لیکن یہ طبقہ اسلام کی ایسی تصویر ہیش کرتا ہے کہ غیر تو غیر اپنے بهی دین بیزاری کی طرف مائل ہو رہے ہیں. ملکی نظام میں ان کی دخل اندازی بہت خطرناک ثابت ہو سکتی ہے. یہ وہ دین والے نہیں ہیں جن کے بارے میں علامہ اقبال رح نے کہا تها : جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی…


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).