پاک امریکہ تعلقات کی پرانی، پیچیدہ اور بوسیدہ حکایت اور نئے امکانات کی پوشیدہ روایت


ہمیں اعتراف ہے کہ ہماری معیشت اور داخلی حالات اپنے ڈیڑھ ہوشیار خاکی کرتا دھرتاؤں کے بے رحمانہ کرم ،اور اس کا فائدہ اٹھا کے دشمنوں کےظالمانہ ستم ،کی وجہ سے بہت خراب ھیں ۔مگر امریکہ کی تشریفِ دراز کے جو بہت سارے درد اور بخار ہیں ان پر بھی اگر ایک نظر ڈال لیں تو اندازہ ہوگا کہ اک ہم ہی نہیں تنہا محفل میں تیری رسوا اس بین الاقوامی شہر میں ہم سے بھی بڑے بڑےدیوانے اور مستانے پڑے ہوئے ہیں اور قرض کی مے صرف ہم ہی نہیں امریکہ بھی خوب ڈٹ کے پی رہا ہے ۔
اگر چہ امریکہ آج بھی دنیا کی سب سے بڑی معیشت اور فوجی طاقت ہےمگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک آشکار حقیقت ہے کہ اس وقت امریکی معیشت پندرہ سے اٹھارہ ملین یا بلین نہیں بلکہ ٹریلین امریکی ڈالرز کی مقروض ہےاور اس کا بڑا حصہ چینی قرضوں پر مشتمل ہے اورچینی معیشت دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن کر اس کی نیندیں حرام کیے ہوئے ہے ۔ سیاسی ، سفارتی اسٹریٹجک اعتبار سے بھی چین اپنا دائرہ اثر بڑھارہا ہے اور امریکہ کے واحد سپر پاور ہونے کے تصورکو چیلنج کرتا نظر آرہا ہے ۔ جرمنی، فرانس اور روس کے تیور بھی اب پہلے سے مختلف نظر آرہے ہیں امریکہ ،برطانیہ کے ساتھ فرانس ، روس اور چین اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے مستقل رکن ہیں اور ویٹو پاور رکھتے ہیں اور ان کی رضامندی کے بغیر اقوامِ متحدہ کوئی فیصلہ کرنے کے قابل نہیں ہے ۔

سونے پہ سہاگہ یہ ہے کہ مڈل ایسٹ میں ایران نے امریکہ کا ناک میں دم کیاہوا ہے شام ،عراق ،لبنان اور یمن کے حالات امریکہ سے زیادہ ایران کے قابو میں ہیں بشارالاسد ، حزب اللّہ ،ایران اور روس نےاس کا سارا غرور اورسپر پاوری کا سارا زور خاک میں ملا کر رکھ دیا ہے ۔ساتھ ہی اس کے اتحادی اور شام کی خانہ جنگی کے اہم پروڈیوسرز اور مالی معاون سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی معیشتوں کو بھی کافی دھچکا پہنچایا ہے ۔ان ساری تھکاوٹوں اور سارے نقصانات کے بعد امریکہ جب افغانستان کو دیکھتاہےتو یہاں بھی ناکامی اس کا منہ چڑاتی نظرآتی ہے یوں سمجھیں کہ سرمایہ داری اورعالمی تجارت کا یہ سفید ھاتھی خاصہ بوکھلایا ھواہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی بہکی بہکی ٹوئٹس کا ایک زمانہ مذاق اڑا رہا ہے اور مزے لے رہا ہے ۔ قیاس کیا جا رہا ہےکہ شاید او نٹ پہاڑ کے نیچےآرہا ہے۔

افغان صورتِ حال میں امریکا کافی عرصے سے کوشش کررہا ہے کہ معاملات کو پاکستان سے لے کے بھارت کو سونپ دے کیونکہ ہماری کارکردگی اس کے مطابق اعتبار کھو چکی ھے جس کا برملا اظہار کیا جا چکا ھے اپنی حکمتِ عملی کے لحاظ سے وہ خیال کرتا ھے کہ اپنے نقصانات کا ازالہ بھارتی مارکیٹ کو قابو کرنے سے کر سکتاھے اور خطے میں موجودگی برقرار رکھنے اور تجارتی ،سیاسی اور اسٹریٹجک مفادات کی حفاظت کے لیے بھی بھارت کو چین اور روس کے خلاف استعمال کر سکتا ھے ۔
ہمارے ساتھ خطے میں چین ،ایران اور روس بھی ساتھ موجود ھیں جو اس کے بہت مضبوط اور مشکل حریف ھیں ۔امریکہ اچھی طرح یہ بات جانتا ھے کہ افغانستان میں حالات کے ہم اکیلے ذمہ دار نہیں ہیں ۔ روس چین بھارت اور ایران سب افغانستان میں اپنا اپنا کھیل کھیل رہے ہیں اور امریکی ٹوپی کو فٹ بال بنائے ہوئےہیں ۔اس کے باوجود وہ ہمیں نظر انداز کر کے بھارت کو بڑا کردار دینا چاہتا ھےاور ہماری قربانیوں اور خدمات کو نظر انداز کرکے بھارت کے ساتھ سیکیورٹی معاھدے کررہا ہے اور سول نیو کلئیر سپلائرز گروپ میں شمولیت کا لالچ بھی دے رہا ہے ۔ یہ سب کچھ بھارت کے ساتھ مخصامانہ تعلقات کی وجہ سے ہمارے لیے قابلِ قبول نہہیں ہے ۔

یوں تو امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات کا سلسلہ ستر بہتر سال پر محیط ہے اس دوران ایوب خان کے دفاعی معاھدوں کے ساتھ ہم نےمعاشی لحاظ سے اچھا اور کبھی سفارتی لحاظ سے بہت خراب وقت بھی دیکھا ہے ۔ پھر ضیاءالحق کی افغانستان میں اسلامی انقلاب کےخوابوں کی الٹی ھوتی تعبیریں اور تدبیریں بھی دیکھی ہیں جس کی وجہ شاید ایران کا اسلامی انقلاب تھا اوراسٹریٹیجک گہرائی کا دھوکا تھا ۔جس نے ہمیں تباہی کے اندھے اور گہرے کنویں میں منہ کے بل ایساگرایا کہ ھم آج تک اس گہرائی میں اوندھے پڑے ھوئے ہیں ۔اور آخری معرکہ کارگل فیم کمانڈو پرویز مشرف کا نائن الیون کے بعد نہایت افسوس ناک اور کسی حد شرمناک انداز میں امریکہ کی خدمت اور تابعداری کی صورت میں بھی دیکھنا پڑاہے ۔ ان سارے واقعات اور حالات میں ہم نے بہت سا جنگی سامان ، ہتھیار اور ڈالرز ضرور حاصل کیے تھے ۔
ڈالرز تو خیر سے آدھے سے زیادہ جنرلوں اور ان کے حواریوں کے سوئس بینکوں کے اکاؤنٹس میں چلے گئےلیکن ملک اور قوم کو اس خدمت اور وفاداری کا صلہ شدید معاشی دشواری ،انسانی جانوں کا ضیاع ، پاکستانی معاشرے میں بہت ساری خرابیوں ، سفارتی مشکلات اور بین الاقوامی معاشرے میں بہت خراب امیج کی صورت میں ملا ہے ۔

امریکی شکایات کا زیادہ تر موضوع طالبان سے متعلق ھے جب کہ حقیقت یہ ھے کہ ھمارے مقتدر حلقے طالبان پر اپنا اثر و رسوخ کھو چکے ھیں ۔ امریکا کے ساتھ اتنے نشیب و فراز سے گزرنے کے بعد اور اس امریکی رویے کی وجہ سے ھمارے خارجہ پالیسی ساز حلقے اب شاید زیادہ بہتر سفارت کاری کا مظاہرہ کرنے کے خواہاں نظر آتے ھیں ۔
جو شاید شہید بھٹو کی اس خارجہ پالیسی کی مانند نظر آتی ھے جس سےاس وقت امریکہ شدید ناراض تھا اور نتیجہ فوج اور جماعتِ اسلامی کی ملی بھگت سے بھٹو کی معزولی اور پھر ان کا عدالتی قتل تھا ۔
وہ خارجہ پالیسی پاکستان کی تاریخ کی شاید سب سے بہتر پالیسی تھی جو سویلین ھاتھوں میں بھی تھی اور فوج اور امریکی دباؤ سے بھی آزاد اور خود مختار تھی ۔ اس زمانے میں مشرقی پاکستان ٹوٹنے کی وجہ سے پاکستان آرمی خود دباؤ میں تھی اس لیے بھٹو شہید کو موقع مل گیا تھا ۔ اس وقت ساری اسلامی دنیا بشمول ایران اور سعودی عرب سے ھمارے بہترین اور مثالی تعلقات تھے ۔ چین تو تھا ہی روس سے بھی ہمیں اسٹیل ملز مل گیاتھا اور فرانس اور کینیڈا سے بھی ایٹمی پروسیسنگ پلانٹ مل گئے تھے ۔
نئے منظر نامے کی سب سے پہلی مثال سی پیک معاھدہ اور کوادر کی بندرگاہ کی پیش رفت ہے۔ یہ ہماری تاریخ کا ایٹمی صلاحیت کے بعد سب سے شاندار منصوبہ ھے جو امریکا اور بھارت کی آج کل سب سے بڑی پریشانی بنا ھواہے ۔ایران سے بھی تعلقات میں بہتری آئی ھے اور آرمی چیف کا دورۂ ایران ایک نئی جہت کے طور پر سامنے آیا ہے ۔ایک اور اہم قدم جو اس سمت میں اٹھایا گیا ہے وہ روس سے تعلقات کو بہتر بنانا ہے۔معاملات ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں مگر بہتری کے امکانات بہت روشن ہیں ۔

اگرچہ ہم فوج کے خارجہ پالیسی میں عمل دخل یا کنٹرول کے بالکل حامی نہیں لیکن سیکیورٹی معاملات پر اس کی دسترس کی وجہ سے خارجہ پالیسی کو وضع کرنے کے لیے اس کی شمولیت اور مشوروں کو ضرور اہم سمجھتے ہیں ۔خارجہ امور پر سویلین بالا دستی کی خواہش اور اس پر اصرار کے باوجود ،آج کل کے مخصوص حالات میں ،اگر نئی حکومت کےساتھ مل کر خارجہ پالیسی کے نئے امکانات پر کام کرکے ،معیشت اور داخلی حالات میں بہتری لائی جاسکتی ھے ( اپنےخاص اور قربت کے پس منظر کے باعث نئی حکومت سے یہ توقع رکھی جاسکتی ھے ) تو نہ صرف اس سے فوج کے وقار میں اضافہ ھو گا بلکہ نئی حکومت پر عوامی حلقوں کا اعتماد بھی بحال ھوگا ۔اداروں کے ٹکراؤ کے نقصانات ھم پہلے ہی کافی اٹھا چکے ہیں اب مزید اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔سب کو قوم اور ملک کے بہترین مفاد کی خاطر مل کر چلنا پڑے گا اور امریکہ بھارت اور افغانستان سے درپیش مشکلات سے نمٹنا پڑےگا۔ دوڑیئے حضور زمانہ قیامت کی چالیں چل رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).