12 اکتوبر 1999 کو بیگم کلثوم نواز شریف نے کیا دیکھا؟


ہم اپنے ہی گھر میں قید ہو کر رہ گئے تھے۔ اپنا گھر جہاں سکون اور عافیت کا احساس ملتا ہے، ہمارے لئے زندان میں تبدیل ہوچکا تھا۔ ایک ایسی قید جس کی کوئی مدت مقرر نہیں تھی، مجھے اپنے سے زیادہ اپنی والدہ کی فکر لاحق تھی جو سخت علیل تھیں۔ میرے والد کی وفات کو ایک ماہ کا عرصہ نہیں ہوا تھا۔ ان کی وفات اور بیماری نے میری والدہ کو پہلے ہی نڈھال کر رکھا تھا۔ اوپر سے اس قیامت صغریٰ سے دوچار ہونا پڑگیا اور اس صدمے سے ان کی طبیعت اور زیادہ بگڑ گئی۔

میری علیل والدہ اور چھوٹی بیٹی اسماء کے علاوہ میری بڑی بہن بھی میرے ساتھ محبوس ہوکررہ گئیں۔

ہم مختلف ٹی وی سٹیشن لگا کر باہر کا حال معلوم کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا اور میری والدہ کی طبیعت تیزی سے بگڑرہی تھی۔ ان کی تشویشناک حالت کے پیش نظر میں نے فیصلہ کیا کہ والدہ کو صبح ہوتے ہی بڑی بہن کے گھر شفٹ کوردوں گی جو ڈاکٹر ہیں اور ان کے شوہر بھی ڈاکٹر ہیں۔چنانچہ 13 اکتوبر 1999ء کی صبح میں عقبی رہائش گاہ کے حصے سے باہر آئی اور فوجیوں سے کہا کہ اپنے آفیسر کو بلاؤ جس پر وہ ایک خودسر میجر کو بلا کر لائے، میں نے اس سر پھرے میجر کو اپنے گھر کے تمام حالات سے آگاہ کیا اور کہا کہ اس وقت ہمارے پاس کوئی مرد نہیں ہے اور میری والدہ سخت علیل ہیں اس لئے میری والدہ اور میری ہمشیرہ کو آپ ان کے اپنے گھر جانے دیں لیکن اس نے ڈھٹائی کے ساتھ انکار کردیا، اس نے بڑی رعونت سے کہا ’’میں انہیں نہیں جانے دوں گا۔‘‘اس کے رویہ سے ظاہر ہوگیا تھا کہ اس سے مزید کوئی بات کرنا بے کار ہے۔ چنانچہ اس لمحے میں نے ایک فیصلہ کیا، جسے شاید ماں کی محبت سے مغلوب ہوکر جذباتی فیصلے کا نام دیا جاسکتا ہے لیکن میرے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ میں نے اپنے ڈرائیور سے کہا کہ گاڑی نکالو اور پھر میجر سے کہا:

’’نہ صرف یہ (امی اور بڑی بہن) جائیں گی، بلکہ میں بھی جاؤں گی۔ میں اپنی بیٹی کے ساتھ اکیلی نہیں رہ سکتی، میں اپنے ساس اور سسر (میاں محمد شریف صاحب) کے پاس رائیونڈ جاؤں گی کیونکہ وہ وہاں اکیلے ہیں۔‘‘

میجر نے کہا’’ آپ کو یہاں سے جانے کی اجازت نہیں ہے؟‘‘

میں نے میجر سے کہا’’ تم روک سکتے ہو تو روک لو، گولیاں چلانا چاہتے ہو تو شوق پورا کرلو‘‘ مجھے یقین تھا کہ ایک طرف تو میجر حکم کا پابند ہے ،وہ بھی کسی ماں کا بیٹا ہے، اس کے گھر میں بھی بہنیں ہیں اور اس کی بھی تربیت کسی اچھی گود نے کی ہوگی۔ حالات جیسے ہی کیوں نہ ہوں، یہ میجر آخر مسلمان ہے اور اس کے دل میں ہمارے لئے کچھ رحم ضرور ہوگا اور دوسری طرف میں نے یہ ار ادہ کرلیا تھا کہ اگر یزید کے دربار میں وہ جنت کی مالک پاک ہستیاں بے آسرا ہوکر آواز حق بلند کرسکتی ہیں تو آج کیوں نہ ہم ان کی سنت کو زندہ کرلیں۔ جو بھی ہو اس کا خندہ پیشانی سے سامنا کرنا ہے۔ مجھے یقین تھا کہ ملک میں اس دفعہ جو مارشل لاء لگا ہے یہ تاریخ کا آخری مارشل لاء ہوگا۔

میں نے اپنے اور بیٹی کے کپڑے اور چند ضروری چیزیں گاڑی میں رکھوائیں اور دو ملازموں کے ساتھ ہم سب گاڑی میں بیٹھ گئے۔ جبکہ میری بڑی بہن والدہ کے ساتھ پیچھے اپنی گاڑی میں بیٹھ گئیں۔ پھر میں نے میجر سے کہا ’’میں جا رہی ہوں‘‘ گاڑی چل پڑی اور میجر خاموشی سے دیکھتا رہا۔ اسے گیٹ بند کرانے کی جرأت نہ ہوئی۔ پھر ہم ماڈل ٹاؤن کی رہائش گاہ سے نکل آئے اور بڑی بہن والدہ کو لے کر اپنے گھر چلی گئیں اور میں رائیونڈ فارم پہنچ گئی۔

یہاں پہنچنے پر مجھے احساس ہوا کہ شاید میں کسی میدان جنگ میں آگئی ہوں۔ سامنے دشمن کا علاقہ ہے اور دفاع میں اپنی فوج بیٹھی ہوئی ہے۔ میں نے رائیونڈ پہنچ کر پہلی دفعہ اینٹی ٹینک پرانی جیپوں پر لادے ہوئے دیکھے۔ طیارہ شکن گنز کو گشت کرتے ہوئے دیکھا۔ ایسا لگا کہ لاہور کور کا پورا اسلحہ رائیونڈ فارم پر جمع کردیا گیا ہے۔ میں نے سوچا شاید آگے چل کر گھر کے اندر چند ٹینک بھی نظر آئیں۔ جب گیٹ پر پہنچی تو میرا واسطہ ایک میجر، جس کا نام بابر تھا، سے پڑا۔

میجر بابر نے مجھ سے دریافت کیا: ’’کیا آپ مسز نواز شریف ہیں؟‘‘

میرا اثبات میں جواب ملنے پر اس نے ٹیلی فون پر کسی کو اطلاع دی کہ ’’وہ یہاں پہنچ گئی ہیں‘‘ گھر میں داخل ہوئی تو ایک نہایت رقت آمیز منظر سامنے تھا۔ ہر فرد کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں، جو آنسو رکے ہوئے تھے، طوفان بن کر ابل پڑے، اس کے بعد کئی دن یہاں ایسے ہی گزرگئے نہ کسی کو کھانے کی پروا تھی نہ سونے کی خواہش، بس دن رات اپنے رب کے حضور سجدہ ریز رہتے تھے۔ جب کچھ ہوش آیا تو پتہ چلا کہ تمام ٹیلی فون کاٹ دئیے گئے ہیں، بچوں کو سکول بھی نہیں جانے دیا گیا تھا۔ سخت پابندیاں لگادی گئیں۔ حتیٰ کہ کمروں سے باہر نکلنے پر بھی پابندی لگادی گئی اور کہا گیا کہ دروازوں اور کھڑکیوں کے پردے تک اٹھادئیے جائیں۔ ہمارے گھر کے ایک بڑے کمرے پر فوجیوں نے قبضہ کیا ہوا تھا۔

رائیونڈ فارم کے بارے میں عجیب و غریب کہانیاں مشہور کی گئی ہیں، لیکن یہاں آنے والے ہزاروں افراد جانتے ہیں کہ یہ زرعی فارم ہے جس کے ایک حصے میں چار دیواری کے اندر چند الگ الگ مکانات بنے ہوئے ہیں۔ یہ ہرگز کوئی محل نہیں ہے۔ یہاں فارم میں جو گھر مجھے رہائش کے لئے ملا ہے اس کے مقابلے میں تعمیراتی تزئین و آرائش کے حوالے سے میرا ماڈل ٹاؤن والا گھر کہیں زیادہ خوبصورت ہے۔ ان دنوں ہم سب فارم کے ایک ہی مکان میں تھے اور ساتھ والے مکان کی چھت سے دور بینوں کے ذریعہ مسلسل دن رات ہماری نگرانی کی جاتی تھی اور بار بار لاؤڈ سپیکروں کے ذریعہ یہ پیغام دیا جاتا کہ دروازوں کے پردے ہٹا دئیے جائیں۔

لیکن میں نے ان پر واضح کردیا تھا کہ یہ ہمارے بیڈرومز ہیں اور یہاں کے پردے ہرگز نہیں ہٹائے جائیں گے۔ کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ جب وہ ز یادہ تنگ کرتے تو میں غصہ سے باہر نکل آتی اور وہ لوگ بھاگ جایا کرتے تھے۔ پھر یہی فوجی دوسرے گھروں کی چابیوں کا مطالبہ کرنے لگے، لیکن میں نے انہیں صاف صاف کہہ دیا کہ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔ پھر انہوں نے بیچ میں ایک خالی گھر میں جو مہمان خانے کے طور پر استعمال ہوتا تھا، قبضہ کرکے اپنا سازوسامان رکھ لیا۔ یہ محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً ’’چپے چپے‘‘ پر یعنی ہر قدم کے فاصلے پر جدید قسم کی گنیں لئے فوجی تعینات تھے۔ گھر کی چار دیواری کے اندر بھی جدید ترین طیارہ شکن اسلحہ کی نمائش دکھائی دے رہی تھی۔

ہمارے گھر کے اندر ایک بڑا سا برآمدہ ہے جہاں باجماعت نماز ہوتی ہے۔ ایک دفعہ اذان کے بعد جماعت کھڑی ہوئی تو ایک فوجی جلدی جلدی وضو کرکے جماعت میں شامل ہو گیا۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو میجر بابر نے اس کی سخت تذلیل کی کہ تم ڈیوٹی چھوڑ کر نماز کیلئے کیوں گئے۔ میری دعا ہے اللہ تعالیٰ ایسے فوجی افسروں کو نیک ہدایت دے۔ (آمین)

ایسا ہی ایک اور تکلیف دہ واقعہ ہے۔ جو فوجی ہمارے گھر کے دروازے کے باہر ڈیوٹی دیا کرتے تھے، ان کا یہ معمول تھا کہ دن رات اونچی آواز میں پنجابی گانے لگائے رکھے تھے جو ہمیں پریشان کرنے کے لئے بھی تھا اور شاید اس پروپیگنڈا کا حصہ بھی کہ یہاں ہیریں گائی جاتی ہیں اور بڑے ڈھول ڈھمکے ہوتے ہیں جبکہ اس گھرانے میں ان چیزوں سے پرہیز کیا جاتا رہا ہے بلکہ یہاں تو شادیوں پر بھی اس قسم کی روایتی بیہودگیاں نہیں ہوتیں۔ اور جب کبھی ان فوجیوں سے گانوں کی ریکارڈنگ بند کرنے کے لئے کہا جاتا تو وہ ہمیں پریشان کرنے کے لئے اس کی آواز اور زیادہ تیز کردیتے۔ شاید وہ ہمارے صبر کا امتحان لے رہے تھے یا شاید وہ ہمیں اعصابی تناؤ کا شکار کرنا چاہتے تھے۔

ذہنی کرب اور اذیت کے یہ وہ لمحات تھے جب بے بسی اور بیچارگی کا احساس سوہان روح بن کر رہ گیا تھا۔ اس انتہائی پریشانی کے عالم میں ایک ہی سہارا تھا اور وہ آقائے نامدار حضرت محمد مصطفی ﷺ کے صدقہ سے اللہ تعالیٰ بزرگ و برتر کی رحمت ہے اور یہ اسی کا احسان اور فضل ہے کہ جس نے مشکل سے مشکل حالات میں کبھی مایو س نہیں ہونے دیا۔ گھر کا ہر فرد اپنا وقت ذکر اور استغفار میں گزار تا اور میرے سسر اور ساس کا تو یہ عالم تھا کہ ہر لمحہ جائے نماز پر ہی گزرتا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2