12 اکتوبر 1999 کو بیگم کلثوم نواز شریف نے کیا دیکھا؟


ایک عجیب سی بے کلی، انجانے اضطراب اور سمجھ میں نہ آنے والی بے سکونی کے باعث پریشان کن اندیشوں اور خدشات نے دل و دماغ کو گھیر رکھا تھا اور شاید آنے والے عجیب لمحات نے اپنے سیاہ پردوں کو پھیلانا شروع کردیا تھا۔ 11 اکتوبر کی صبح 8 بجے میاں نواز شریف اسلام آباد جانے کے لئے گھر سے نکلے تو جانے کیوں میں انہیں خالی خالی نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ یوں گھر سے جانا تو ان کا معمول تھا۔ میں بظاہر ان کو رخصت کرنے کے لئے دروازے پر کھڑی تھی لیکن میرے دل و دماغ پر وسوسوں کا قبضہ تھا، میں دیکھ رہی تھی کہ میاں نواز شریف قرآن پاک کے نسخے کے نیچے سے گزرکرجارہے ہیں جو میں نے دروازے کے اوپر اس لئے رکھا ہوا تھا کہ گھر سے نکلنے والا ہر فرد کلام اللہ کے سائے میں سے گزرکرجائے اور آج یہ پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ اس اچانک خیال نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔

ہاں یہ کیسا عجیب خیال تھا کہ جب کوئی انسان اپنے گھر سے نکلتا ہے تو اسے پتہ نہیں ہوتا کہ وہ پھر دوبارہ کب اور کتنی مدت کے بعد ملے گا؟ اس خیال نے میری روح تک کولرزاکے رکھ دیا۔ میں نے زور سے سرجھٹک کر اس پریشان کن خیال سے دامن چھڑایا، اسی اثناء میں میاں نواز شریف خدا حافظ کہہ کر روانہ ہوچکے تھے۔ مجھے یہ خیال کیوں آیا؟ اس وقت اس کی کوئی توجیہہ نہ کرسکی تھی اور اب سوچتی ہوں شاید میرے رب نے آنے والے جانگسل لمحات سے مجھے خبردار کردیا تھا اور اگلے ہی روز یہ تمام وسوسے، اندیشے اور خدشات ایک بھیانک حقیقت بن کر سامنے آگئے۔

12 اکتوبر 1999ء کی شام تک وقت کے بے کیف لمحات ایک ایک کرکے گزرتے رہے، ٹیلی ویژن پر شام کے وقت خبریں سن رہی تھی کہ اچانک نیوز ریڈر کی تصویر غائب ہوگئی اور مجھے احساس ہوا کہ شاید کوئی گڑبڑ ہے۔ میں نے فوراً اسلام آباد وزیراعظم ہاؤس فون کیا، آپریٹر نے میری آواز پہچان کرکہا اچھا ابھی ملاتا ہوں لیکن کچھ دیر بعد نواز شریف صاحب نے خود مجھے فون کیا اور کہا ’’گھبرانے کی کوئی بات نہیں، تاہم اصل صورتحال یہ ہے کہ یہاں (وزیراعظم ہاؤس میں) آرمی آگئی ہے اور اس نے Take Over(قبضہ) کرلیا ہے‘‘

میں نے بے تاب ہوکر پوچھا’’ آپ اس وقت کہاں اور کس حال میں ہیں؟‘‘

انہوں نے جواب دیا’’ ابھی تو میں یہیں (وزیراعظم ہاؤس میں) ہوں اور وہ لوگ (آرمی آفیسرز) چاہتے ہیں کہ میں استعفیٰ دے دوں لیکن میں ایسا ہرگز نہیں کروں گا‘‘

میرا ان سے دوسرا سوال یہ تھا ’’ شہباز بھائی اور بیٹا حسین کہاں ہیں؟ ‘‘میاں صاحب نے جواب دیا کہ وہ دونوں میرے پاس ہی ہیں۔

پھر حسین نے مجھ سے بات کی۔ میرا بیٹا حسین مجھے سنگینوں کے سائے تلے بیٹھ کر حوصلہ دے رہا تھا ’’امی! کوئی بات نہیں ایسا وقت بھی آ جاتا ہے۔ الحمداللہ! ہم لوگوں نے کوئی ایسا غلط کام نہیں کیا جس پر آپ کو یا ہمیں کو ئی پشیمانی یا ندامت ہو لہٰذا آپ حوصلہ بلند رکھیں۔‘‘

حسین نے مزید بتایا کہ یہاں پرائم منسٹر ہاؤس میں آرمی آفیسرز بیٹھے ہوئے ہیں اور ابو سے کچھ بات کر رہے ہیں۔ ان کے علاوہ بیس پچیس SSG کے کمانڈو جو چراٹ سے لائے گئے ہیں، اپنے ہاتھوں میں جدید قسم کی گنیں اٹھائے ہوئے ہیں اور یہ گنیں مجھے کلاشنکوف سے ملتی جلتی لگتی ہیں اور یہ لوگ گنز کو کاک کر کے اور سیفٹی کیچ کو فائرنگ پوزیشن میں لگا کر کسی سینئر بندے کے حکم کے منتظر، ہمیں ٹارگٹ بنا کر کھڑے ہیں اور ہم تین نہتے افراد ابو، چچا شہباز اور میں ان کی گولیوں کی زد میں ہیں۔ اس دوران ابو نے ان فوجیوں سے پوچھا’’ کیا تم ہمیں مارنا چاہتے ہو؟‘‘ لیکن وہ خاموشی سے فائرنگ کی پوزیشن میں کھڑے رہے۔ پھر ابو نے فوجی افسروں سے کہا کہ ان اسلحہ برداروں کو باہر بھیجو تو میں تم سے بات کروں گا جس پر ان فوجیوں کو کمرے کے دروازے کے باہر کھڑا کردیا گیا، لیکن جنرل محمود اندر ہی بیٹھے رہے اور مسلسل بضد رہے کہ آپ (نواز شریف) استعفیٰ دیں۔ پھر حسین نے اچانک پوچھا کہ وہاں (ماڈل ٹاؤن رہائش گاہ) تو آرمی نہیں آئی، جس پر میں نے کہا ’’ابھی تک تو کوئی نظر نہیں آیا‘‘ اور پھر حسین نے ٹیلی فون چھین لیا گیا۔

حسین سے ہونے والی اس گفتگو کے بعد مانسہرہ سے کیپٹن صفدر کا فون آیا کہ میں تقریباً عصر کی نماز کے بعد سے مسلسل پرائم منسٹر ہاؤس بات کرنے کی کوشش کررہا ہوں مگر وہاں سے کوئی ٹیلی فون نہیں اٹھا رہا۔ صفدر نے مجھے بتایا کہ اس وقت میرے پاس کینسر کا ایک مریض لوگ چار پائی پر اٹھا کر لائے ہوئے ہیں اور یہ راولپنڈی میں پرائم منسٹر کے خصوصی فنڈ سے اس کا علاج کروانا چاہتے ہیں مگر میرا رابطہ وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد سے نہیں ہورہا۔ جب میں نے صفدر کو پوری صورتحال سے آگاہ کیا کہ وزیراعظم نواز شریف نے چیف آف آرمی سٹاف کو ریٹائرڈ کردیا ہے جس کے ری ایکشن میں فوج نے وزیراعظم ہاؤس کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے تو صفدر نے بتایا کہ ٹیلی فون کا رابطہ تو تقریباً چار بجے سے کٹا ہوا ہے۔

ابھی ہماری بات ہو ہی رہی تھی کہ ماڈل ٹاؤن کے ٹیلی فون بھی کٹ گئے۔ ہماری رہائش گاہ پر ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ یوں لگا کہ جیسے مسلح افراد نے طے شدہ پروگرام کے مطابق ہمارے اوپر حملہ کردیا ہے۔ تھوڑی دیر بعد معلوم ہوا کہ رہائش گاہ کے پہلے حصے میں فوجی دندناتے ہوئے داخل ہوئے۔ انہوں نے بالکل وحشیانہ انداز میں بڑی بدتمیزی کے ساتھ ٹھڈے مار مار کر دروازے کھولے، ملازمین کو بری طرح زدوکوب کیا اور مار مار کر انہیں گھر سے باہر نکال دیا۔ حملہ آور اس فوجی دستے کو گھر کے ہر فرد کے کمرے کا پتہ تھا اور یہ اپنی گنز کے ساتھ ہر کمرے کے سامنے کھڑے ہوگئے اور باقاعدہ گھر کے ہر فرد کا نام پکار کر پوچھتے رہے کہ فلاں کہاں ہے؟ میں حیران تھی کہ جن لوگوں نے کبھی ماڈل ٹاؤن والے گھر کو دیکھا بھی نہیں تھا جب وہ حملہ آور ہوئے تو وہ گھر کے محل وقوع سے کتنے آشنا تھے۔

جس دستے نے ہمارے گھر پر حملہ کیا اس کے جوان اس قدر بھوک سے نڈھال ہورہے تھے کہ انہوں نے سب سے پہلے گھر کے تمام فریج کھولے، جو کچھ ملا کھا لیا، بچوں کا دودھ تک پی لیا اور بعض لوگوں نے کچھ انڈے بھی توڑ کر پی لئے۔ جب ہم نے کہا کہ یہ کیا تماشا ہے تو ایک سادہ دل فوجی نے کہا’’ ہمیں اس چیز کا افسوس ہے کہ ہم آپ کے گھر کی چیزیں کھا گئے ہیں‘‘ مگر اس نے کہا ’’باجی! ہم صبح ناشتے کے بعد پریڈ گراؤنڈ میں سٹینڈ ٹو تھے اور وہیں سے ہم یہاں تک آگئے۔ ایمرجنسی کی صورت میں ہم دوپہر کا کھانا نہیں کھاسکے‘‘ جو ملازم بچے رہائش گاہ کے پچھلے حصے میں ہمارے ساتھ موجود تھے، انہیں میں نے اپنے ساتھ ہی روک لیا اور دروازوں کو کنڈیاں لگوا دیں جس پر فوجیوں نے رہائش گاہ کے اس حصے کو چاروں طرف سے گھیر لیا اور ان میں سے ایک آفیسر نے بلند آواز میں حکم جاری کیا:

’’کوئی شخص اندر سے باہر نہیں نکلے گا۔‘‘

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2