تصادم یا مصالحت: فیصلہ عمران خان کے ہاتھ میں ہے


تیزی سے تصادم کی طرف بڑھتی ہوئی سیاست میں خوشی کی یہ خبر موصول ہوئی ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ساتھیوں سے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کے ساتھ رابطے بحال رکھے جائیں۔   اس مختصر خبر میں زیادہ تفصیل تو فراہم نہیں کی گئی لیکن بین السطور یہ ضرور درج ہے کہ تیزی سے اسلام آباد کی طرف بڑھنے والی سیاسی تپش کی حدت اب عمران خان کو بھی محسوس ہونے لگی ہے۔

اس خبر کے دو اہم پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ ملک اس وقت سیاسی تصادم کا متحمل نہیں ہوسکتا، اس لئے اس سے درگزر کا کوئی بھی اقدام قابل تعریف اور ضروری ہوگا۔ دوسرے وزیر اعظم عمران خان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اپوزیشن کی اہمیت اور ضرورت تسلیم کرنے سے مسلسل انکار کیا ہے۔ اس کے برعکس وہ اپوزیشن کی سیاسی کاوشوں کو لوٹ مار بچانے کی کوششیں قرار دیتے رہے ہیں۔ منتخب شدہ ارکان اسمبلی کے بارے میں بھی ان کا طرز عمل سیاسی نخوت اور حقارت سے لبریز رہا ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے الیکشن کمیشن کے ارکان کی نامزدگی جیسی آئینی ذمہ داری نبھانے کے لئے بھی اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سے ملاقات کرنے سے انکار کردیا تھا۔ مولانا فضل الرحمان کو تو وہ ویسے بھی غیر منتخب اور مفاد پرست سیاست دان سمجھتے ہیں۔ اس لئے ان کے بارے میں عمران خان نے لاتعلقی کا رویہ ظاہر کیا ہے۔

اس ماحول اور پس منظر میں وزیر اعظم کی طرف سے مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ اور دھرنا سے تصادم کی بجائے سیاسی مواصلت کے ذریعے نبرد آزما ہونے کی خبر ان معنوں میں خوشگوار ہے کہ ایک تو اس پر عمل درآمد سے ملک میں پیش آنے والا ایک بڑا سیاسی بحران ٹالا جاسکے گا ۔ دوسرے عمران خان نے اقتدار سنبھالنے کے سوا سال بعد ہی سہی ، اگر یہ سبق سیکھ لیا ہے کہ سیاسی معاملات سیاسی رویہ اور مذاکرات سے ہی طے ہوسکتے ہیں تو یہ خوش آئیند ہے۔ اس مقصد کے لئے دھمکیاں دینا یا زور زبردستی کرنا سود مند نہیں ہوسکتا۔ مولانا فضل الرحمان کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے سیاست کے اتنے زیر و بم دیکھے ہیں کہ انہیں حکومت کے ساتھ سیاسی بات چیت کرنے اور کسی نتیجے پر پہنچنے میں دقت نہیں ہوگی لیکن اگر حکومت کے نمائیندوں نے اس مواصلت کو دھمکیاں دینے کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کی اور مولانا کو سنجیدہ سیاسی مفاہمت کا کوئی ٹھوس منصوبہ پیش نہ کیا تو معاملات بگڑنے میں بھی دیر نہیں لگے گی۔

پہلے تو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عمران خان اپوزیشن کو مسترد کرنے سے ، اب اس کے ساتھ مصالحت کی طرف کیوں آمادہ ہورہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ یہ تبدیلی قلب کس قدر سنجیدہ ہے اور حکومت کتنی سرعت سے صورت حال کی سنگینی، معاملات کی گہرائی اور بحران کی شدت کو سمجھنے پر تیار ہوتی ہے۔ اگر عمران خان کی یہ ہدایت محض یہ تاثر قائم کرنے اور میڈیا میں مصالحت کرنے کا ڈھونگ رچانے تک ہی محدود رہے گی تو اس سے معاملات مزید سنگین ہو سکتے ہیں۔ اس لئے عمران خان اور ان کی سیاسی جماعت کو فوری طور سے یہ واضح کرنا ہوگا کہ وہ اس ماہ کے آخر سے شروع ہونے والے آزادی مارچ کو روکنے کے لئے کیا اقدام کرنے پر آمادہ ہیں۔

مولانا فضل الرحمان نے اگرچہ تن تنہا اپنی جماعت جمیعت علمائے اسلام کے پلیٹ فارم سے احتجاج شروع کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن گزشتہ ہفتہ عشرہ کے دوران ان کے اس اعلان کو جو پذیرائی ملی ہے اور جس طرح حکومتی حلقوں اور مبصرین نے اس کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے، اس سے مولانا اپنے احتجاج کا ایک مقصد اس کے آغاز سے پہلے ہی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ ملک کا بچہ بچہ اس احتجاج کی نوعیت، ضرورت اور وقت کے بارے میں آگاہ ہوگیا ہے۔ مولانا کے اعلان سے اختلاف کی گنجائش موجود رہنے کے باوجود ، یہ تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی تحریک کی کامیابی کے لئے اس کے بارے میں معلومات کی فراہمی سب سے اہم جزو ہوتا ہے۔ مولانا یہ مقصد احتجاج شروع ہونے سے دو ہفتے پہلے ہی بخوبی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ عمران خان کی تازہ ترین ہدایت اس کا واضح اور ناقابل تردید ثبوت فراہم کرتی ہے۔

مولانا کے احتجاج کی مقبولیت اس لحاظ سے بھی اہم سمجھی جائے گی کہ حکومت نے اس وقت ملکی میڈیا پر غیر معمولی کنٹرول حاصل کیا ہؤا ہے۔ 2014 میں عمران خان کے دھرنا کی مقبولیت کی ایک بنیادی وجہ اس وقت میڈیا کی طرف سے اس کی مسلسل اور بلا ناغہ تشہیر بھی تھی۔ مولانا فضل الرحمان کو یہ سہولت حاصل نہیں ہے۔ اس بات کا امکان بھی نہ ہونے کے برابر ہے کہ مولانا اگر حسب پروگرام اسلام آباد کے ڈی گراؤنڈ میں دھرنا دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس دھرنے کو بھی 2014 میں تحریک انصاف اور علامہ طاہرالقادری کی پاکستان عوامی تحریک کے دھرنے کی طرح شہرت اور میڈیا کوریج ملے گی۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے سرگرم گروہ پوری قوت سے مولانا فضل الرحمان کے احتجاج کو سیاسی حرص اور اپنے سیاسی دوستوں کی بدعنوانی کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔ دھرنا شروع ہونے کی صورت میں اس منفی میڈیامہم جوئی میں شدت پیدا ہونا لازمی ہوگا۔ اس کے باوجود اگر دھرنے سے پہلے ہی مولانا کے احتجاج کی گونج کابینہ کے اجلاس تک پہنچ چکی ہے اور وزیروں مشیروں کے بدحواسی سے بھرپور اشتعال انگیز بیانات کا آغاز ہوگیا تھا تو اسے اس احتجاج کی ابتدائی کامیابی ہی سمجھا جائے گا۔

 نواز شریف کی طرف سے مولانا فضل الرحمان کے احتجاج یا آزادی مارچ کی دوٹوک حمایت کے اعلان نے بھی حکومت اور عمران خان کی پریشانی میں اضافہ کیا ہوگا۔ اس کے علاوہ نواز شریف کو قید کے دوران عجلت میں ریمانڈ پر نیب کے حوالے کرنے سے بھی یہی تاثر قوی ہوگا کہ حکومت پر بہت دباؤ ہے اور نواز شریف کو نیب کی تحویل میں منتقل کرنے کا مقصد یہی ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں سے رابطہ نہ کرسکیں اور مولانا کے آزادی مارچ کو سیاسی امداد فراہم نہ کرپائیں۔ تاہم رائے عامہ پر اس اقدام کا منفی اثر مرتب ہؤا ہے جسے حکومت بھی بخوبی محسوس کررہی ہوگی۔ اب یہ خبریں اہمیت نہیں رکھتیں کہ مسلم لیگ (ن) میں مولانا کے احتجاج کا ساتھ دینے پر اختلاف ہے اور شہباز شریف اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ نواز شریف کے واضح اعلان کے بعد شہباز شریف بھی اس احتجاج میں شامل ہونے پر مجبور ہوں گے۔

اسی طرح پیپلز پارٹی کے بارے میں یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ وہ اس احتجاج کی مخالف ہے اور مولانا فضل الرحمان کا دل سے ساتھ دینے پر آمادہ نہیں ہے۔ تاہم مولانا فضل الرحمان کی طرف سے احتجاج کا آغاز سکھر سے شروع کرنے اور سندھ حکومت کی طرف سے پوری طرح اس احتجاج کو ’سہولت‘ فراہم کرنے کے اعلان سے اس تاثر کو بڑی حد تک ٹھیس پہنچی ہے۔ یہ تصویر واضح ہوئی ہے کہ ملک کی تمام اہم سیاسی قوتیں اس وقت مولانا کی پشت پر ہیں۔ جو عناصر گومگو کا شکار تھے وہ گزشتہ روز نواز شریف کے دوٹوک بیان کے بعد اپنی پوزیشن پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہوں گے۔ گزشتہ چند دنوں سے حکومتی حلقے دراصل اسی بنیاد پر مولانا فضل الرحمان کے مارچ کا خاکہ اڑانے کی کوشش کرتے رہے تھے کہ ان کی حلیف سیاسی جماعتیں بھی ان کے ساتھ نہیں ہیں۔ اب یہ تاثر باطل ہورہا ہے۔ اس لئے حکومت کی پریشانی میں اضافہ قابل فہم ہے۔

ان زمینی سیاسی حقائق کے علاوہ درپردہ ہونے والی مشاورت کے بارے میں سامنے آنے والی خبروں نے بھی مولانا کے حوصلہ کو بڑھاوا دیا ہے جبکہ حکومت اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کررہی ہے۔ ایک تو یہ واضح ہورہا ہے کہ ملک میں سیاسی احتجاج کی صورت میں فوج شاید براہ راست مظاہرین کا سامنا کرنے پر آمادہ نہ ہو۔ فیض آباد دھرنے کے موقع پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے عوام کے ساتھ یک جہتی کی بنیاد پر حکومت کو مشورہ دیا تھا کہ فوج نہتے مظاہرین کے خلاف کارروائی نہیں کرسکتی اس لئے حکومت کوئی سیاسی راستہ تلاش کرے۔ اگرچہ موجودہ حکومت کو ایک پیج والی حکومت کی شہرت حاصل ہے لیکن قیاس غالب ہے کہ سیاسی مظاہرین کے حوالے سے جنرل باجوہ کے مؤقف میں تبدیلی نہیں آئی ہوگی۔

مولانا فضل الرحمان کی سعودی سفیر سے ملاقات اور یہ خبر کہ سعودی سفیر اس حوالے سے براہ راست سعودی حکام سے رابطے میں ہیں اور ریاض سے ہدایت لیتے ہیں اور اچانک وزیر اعظم کے دورہ سعودی عرب کی خبر نے بھی احتجاج کی اہمیت کو اجاگر اور حکومت کی کمزور پوزیشن کو کمزور کیا ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ہی یہ کہنے میں تامل نہیں ہونا چاہئے کہ سیاسی پوزیشن تبدیل کرنا ، میدان جنگ میں پسپائی نہیں ہوتی۔ قومی معاملات طے کرتے ہوئے حکومت اور سیاسی جماعتیں درمیانی راستہ تلاش کرتی ہیں اور اسے قابل قبول جمہوری طریقہ ہی مانا جاتا ہے۔

اس وقت فیصلہ کا اختیار بے شک وزیر اعظم عمران خان کے ہاتھ میں ہے۔ اگر وہ سیاسی مصالحت کا راستہ اختیار کرتے ہیں تو خود اپنی حکومت کو بھی کسی پریشان کن صورت حال سے بچا سکتے ہیں اور ملک کو بھی تصادم کے مضر اثرات سے محفوظ رکھ کر بڑا لیڈر ہونے کا ثبوت دے سکتے ہیں۔ البتہ اگر اس اعلان کو سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا گیا اور مولانا کی سیاسی پوزیشن کمزور کرنے کے لئے ریشہ دوانیوں کا سلسلہ جاری رہا تو حالات حکومت اور عمران خان کے ہاتھ سے نکل بھی سکتے ہیں۔

مولانا فضل الرحمان عمران خان کے استعفے اور نئے انتخابات کا مطالبہ لے کر اسلام آباد جارہے ہیں۔ حکومت اگر اپوزیشن کے ساتھ سیاسی تصادم سے گریز کا وعدہ کرسکے اور سرکاری اداروں کو سیاسی انتقام کے لئے استعمال کرنے کا طریقہ ترک کردیا جائے تو مصالحت کی بنیاد فراہم ہوسکتی ہے۔ ایسے میں مولانا کو بھی فوری انتخاب کی بجائے کچھ مدت کے بعد مڈ ٹرم انتخاب پر آمادہ کرنا مشکل نہیں ہوگا۔ سیاسی بداعتمادی، الزام تراشی اور تصادم کی موجودہ صورت حال میں شفاف انتخابات اور کسی قابل بھروسہ حکومت کا قیام ہی ملک اور اس کے عوام کے بہترین مفاد میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali