کیا امریکی سفید فام مرد ڈاکٹروں کو خواتین ڈاکٹروں سے زیادہ تنخواہ ملنی چاہئیے؟


برابری کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سب انسان ایک ہی قد، ایک ہی رنگ اور ایک ہی جسمانی یا ذہنی طاقت رکھتے ہوں۔ برابری کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک مرد، عورت یا بچہ ایک ایک بالٹی میں درختوں میں‌ سے سیب توڑ کر بھریں تو اس بھری ہوئی بالٹی کے لیے ان سب کو برابر معاوضہ دیا جائے۔ اور بس!

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں دنیا کو سفید فام آدمی آقا چلا رہے ہیں۔ وہ ہر جگہ ترجیح پاتے ہیں۔ صرف امریکہ ہی کیا، ساری دنیا میں‌ جہاں بھی مختلف نسلوں‌ کے افراد کام کرتے ہیں، وہاں سفید فام آدمیوں‌ کو دیگر افراد کے مقابلے میں‌ زیادہ تنخواہ ملتی ہے۔ میری ایک دوست جو دبئی میں‌ سپروائزر تھی اس نے بتایا کہ ایک ہی طرح‌ کی نوکری کے لیے دبئی میں‌ اگر ایک سفید فام آدمی دس ڈالر فی گھنٹہ کماتا ہے تو ایک پاکستانی، ہندوستانی یا بنگالی کو دو ڈالر فی گھنٹہ ملتے ہیں۔ ہمارے غریب اور ان پڑھ عوام کشتیوں‌ میں‌ بیٹھ کر خود کو غیر قانونی طور پر دوسرے ملکوں‌ میں‌ اسمگل کرانے پر مجبور ہیں۔ ان کو دو ڈالر فی گھنٹہ ہی اتنا زیادہ لگتا ہے کہ وہ دنیا کے لیول پر مقابلے کی ہمت کرنے کے بارے میں‌ سوچ بھی نہیں سکتے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ سفید فام آدمی نے خود کو یقین دلایا ہوا ہے کہ وہ سب سے برتر ہے، باقی دنیا کے انسان بھی یہی سمجھتے ہیں کہ سفید فام آدمی ان سے بہتر ہے۔

سفید فام ہونا خوبصورتی کا معیار سمجھا جاتا ہے۔ آج بھی گہرے رنگ کا ہونا ہندوستان میں‌ کم نسل اور بدصورت ہونے کی علامت ہے۔ حالانکہ کالا، گورا، کتھئی یا پیلا یا سرخ ہونا سب نارمل جلد کے رنگ ہیں۔

جیسا کہ ہم جانتے ہیں‌ امریکہ میں‌ جینڈر پے گیپ پایا جاتا ہے۔ یعنی کہ خواتین کو برابر کے کام کا معاوضہ ایک سفید فام آدمی کے مقابلے میں‌ کم ملتا ہے۔ ایک کالی خاتون برابر کا کام کرنے کے باوجود ایک سفید فام آدمی کے مقابلے میں 40 فیصد کم تنخواہ حاصل کرتی ہے۔ ایشیائی خواتین میں‌ حالات اس سے کچھ بہتر ہیں اور ان کو 10 فیصد کم تنخواہ ملتی ہے۔ 2017 میں‌ ہونے والی ایک اسٹڈی سے یہ معلوم ہوا کہ خواتین ڈاکٹرز کو مرد ڈاکٹرز کے مقابلے میں‌ 27 فیصد کم تنخواہ ملتی ہے۔ حالانکہ 2016 میں‌ ہارورڈ یونیورسٹی میں‌ ہونے والی ایک ریسرچ میں‌ یہ معلوم ہوا کہ اگر ڈاکٹر خواتین ہوں تو ان کے مریضوں‌ میں موت کی شرح‌ کم ہوتی ہے۔

Dr. Gary Tigges

حال ہی میں‌ ڈیلاس میڈیکل جرنل میں‌ چھپنے والے ایک انٹرویو نے سارے ملک میں‌ کھلبلی مچادی۔ ڈیلاس ٹیکساس کے ایک ڈاکٹر گیری ٹائگس نے یہ بیان دیا کہ “ہاں تنخواہ میں فرق ہے۔ خواتین ڈاکٹرز برابر کی محنت سے کام نہیں‌ کرتیں اور اتنے مریض نہیں دیکھتیں جتنے کہ ایک مرد ڈاکٹر دیکھتا ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ یا تو وہ ایسا ہی چنتی ہیں، یا وہ جلدی نہیں‌ کرنا چاہتیں یا پھر وہ طویل گھنٹے کام نہیں کرنا چاہتیں۔ زیادہ تر ان کی ترجیحات کچھ اور ہی ہوتی ہیں، جیسے کہ خاندان یا سماج، جو بھی۔ تو جینڈر پے گیپ کے بارے میں‌ کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں‌ جب تک خواتین ڈاکٹرز بھی اتنا ہی کام کرنا شروع نہ کریں‌ جتنا کہ مرد ڈاکٹر کرتے ہیں۔ اگر نہیں‌ تو ان کو کم ہی تنخواہ ملنی چاہئیے۔ یہی انصاف ہے۔ “

https://www.dallasnews.com/news/plano/2018/09/01/female-physicians-not-work-hard-plano-doctor-tells-dallas-medical-journal

اوکلاہوما یونیورسٹی کی پیڈیاٹرک پروفیسر ڈاکٹر فائزہ بھٹی نے یہ قول اپنی ٹؤئٹر فیڈ پر شیئر کیا اور کہا کہ،

This is Dr. Gary Tigges. Internal Medicine in Plano Texas. He is a sexist misogynist and a disgrace to our profession. These are his views recently published in the Dallas Medical Journal. Let’s make him famous.@GaryTigges

یہ ٹوئیٹ کوئی چودہ ہزار مرتبہ شیئر کی گئی اور ڈاکٹر ٹائگس کو ان کی نوکری سے نکال دیا گیا۔ اگر سڑک پر کوئی عام آدمی ایسی بات کرے تو ہم سمجھ سکتے ہیں کہ ان کو دنیا کا زیادہ پتا نہیں‌ ہے لیکن ڈاکٹر ٹائگس کو ایک ڈاکٹر ہونے اور ایک آرگنائزیشن کے لیڈر ہونے کی حیثیت سے ریسرچ، حقیقت اور تازہ حالات کی خبر عام انسانوں سے زیادہ ہونی چاہئیے تھی۔ وہ اس طرح بغیر ڈیٹا کے بیانات نہیں‌ دے سکتے۔

جب میں‌ نے نارمن میں‌ اینڈوکرائن کی پریکٹس شروع کی تو ایک دن میں‌ کلینک میں‌ تھی اور ہسپتال سے فون آیا کہ اوبی وارڈ میں‌ ایک مریضہ دیکھ لیں۔ بارہ بجے سے ایک بجے تک ہماری لنچ بریک ہوتی ہے۔ میں‌ نے سوچا کہ جلدی سے جاکر اس مریضہ کو دیکھ لوں‌ تاکہ دن کے آخر میں‌ ہسپتال نہ جانا پڑے۔ جب میں‌ وہاں پہنچی تو کاؤنٹر کے پیچھے چارٹ تلاش کرنے لگی۔ ایک بوڑھی سفید فام نرس نے مجھے دیکھا تو مجھ سے کہا کہ آپ کاؤنٹر کے پیچھے نہیں‌ آسکتیں‌ کیونکہ یہ یہاں کام کرنے والوں کا علاقہ ہے۔ میرا آئی ڈی بیچ کالر کے پیچھے چھپ گیا تھا۔ وہ میں‌ نے ان کو دکھا کر کہا کہ میں یہاں ڈاکٹر ہوں‌ اور مریض‌ دیکھنے آئی ہوں۔ وہ فورا” سے معذرت خواہ ہوئیں اور ان کا رویہ بالکل تبدیل ہوگیا۔ انہوں‌ نے کہا کہ اگر آپ اپنا بیگ یہاں‌ چھوڑنا چاہیں تو اس کونے میں‌ رکھ سکتی ہیں۔ ان کا زیادہ قصور نہیں‌ تھا۔ امریکہ میں‌ پہلے اتنی خواتین ڈاکٹرز ہوتی بھی نہیں‌ تھیں۔ بوڑھی نرسوں‌ کا ساری زندگی سفید فام ڈاکٹروں‌ اور سرجنوں‌ کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ ہے۔ کچھ نے مجھے خود بتایا کہ ہمارے زمانے میں‌ لڑکے بڑے ہوکر ڈاکٹر بنتے تھے اور لڑکیاں‌ بڑی ہوکر نرسیں۔

جب میں‌ پچھلے مہینے سیاٹل واشنگٹن میں‌ انٹرنل میڈیسن بورڈ رویو‌میں‌ گئی تو میرے برابر میں‌ ایک پچھتر سالہ لیڈی ڈاکٹر بیٹھتی تھیں۔ انہوں‌ نے مجھے بتایا کہ جب وہ ڈاکٹر بنیں‌ تو لباس بدلنے کے صرف دو کمرے ہوتے تھے، ایک ڈاکٹروں کا اور دوسرا نرسوں‌ کا۔ وہ جب ڈاکٹرز کے کمرے میں جانے لگیں‌ تو کسی نے ان سے کہا کہ آپ نرسوں‌ کے کمرے میں‌ جائیں کیونکہ اس زمانے میں‌ ڈاکٹر ہونے کا مطلب مرد ہونا ہوتا تھا۔

Dr. Elizabeth Blackwell

الزبتھ بلیک ویل پہلی امریکی خاتون تھیں‌ جنہوں‌ نے 1849 میں‌ میڈیکل ڈاکٹر کی ڈگری حاصل کی۔ جب 1907 میں‌ ان کی وفات ہوئی تو امریکہ میں‌ 7000 خواتین میڈیکل پریکٹس شروع کرچکی تھیں۔ اس وقت سے آج تک خواتین نے سب شعبوں‌ میں‌ پیر جمائے ہیں۔ امریکن میڈیکل اسوسی ایشن کے اعداد وشمار کے مطابق تاریخ میں‌ یہ پہلا موقع ہے کہ نصف سے زائد میڈیکل اسٹوڈنٹس آج خواتین ہیں۔

لوگوں کے زہن میں‌ یہ غلط تصورات بیٹھے ہوئے ہیں کہ دنیا میں‌ خواتین زیادہ ہیں اور وہ یقیناً کم کام کریں‌ گی کیوںکہ ان پر اپنے بچوں‌ اور گھر کی ذمہ داری ہے لیکن ایسا نہیں‌ ہے۔ آپ اپنے گرد نظر گھما کر دیکھ سکتے ہیں کہ دنیا میں‌ سے 100 ملین خواتین غائب ہیں۔ زیادہ تر افریقہ اور جنوبی ایشیا میں۔ پیدائش کے وقت تو تعداد برابر ہوتی ہے لیکن بدسلوکی کی وجہ سے بچیاں مرجاتی ہیں۔ خواتین بہتر ڈرائیور ہیں، بہتر کسان ہیں اور اگر قرضہ لیں تو واپس بھی کریں‌ گی۔ وہ دنیا کا بوجھ اپنے کاندھوں‌ پر اٹھائے ہوئے ہیں۔ سب سے پہلے خواتین کو اپنے ذہن میں‌ سے یہ بات نکال دینی ہوگی کہ وہ کسی بھی لحاظ سے کم ہیں۔ آپ لوگ دوسرے لوگوں‌ کے خیالات اور ان خیالات کو اپنے خیالات بنانے سے بڑھ کر حقیقت اور نمبروں‌ پر توجہ دیں۔

https://www.newsweek.com/texas-doctor-gender-pay-gap-sexist-comments-journal-1108793


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).