ایک مختصر دن کے طویل منظر


میں نے زندگی کے اتار چڑھاؤ کی تمام بہاریں دیکھی ہیں۔ اللہ نے خوشیاں دی تو سنبھالی نہ گئیں تو دوسری طرف دکھوں کا ایک سمندر بھی برداشت کیا۔ میری ہستی نے باپ اور بھائی کے جنازوں کو اٹھتے ہوئے دیکھا۔ مگر دل اس قدر افسردہ اور خون کے آنسو نہیں رویا یوں سمجھے کہ کل یکے بعد دیگرے واقعات کو ایک ساتھ دیکھنے کا موقع ملا تو خون کے آنسو بھی خشک ہوگئے۔ میں نے آج تک ایک ہی دن میں اس قدر رونما ہوئے واقعات کو نہیں دیکھا۔ کل حسب عادت یونیورسٹی جانے کے لئے 9 بجے گھر سے نکلی اور بس میں سوار ہوئی مسافر چڑھتے اور اترتے گئے بس میں چلنے والی قوالیوں نے ایک سحر باندھ دیا۔ میں اسی میں غرق تھی کہ اچانک میری نظر سڑک پر بیٹھی اس لڑکی پر پڑی جو گردن جھکائے دنیا و جہاں سے بے خبر تھی وہ نصیر آباد کی سڑک کے بیچوں بیچ فٹ پاتھ پر بیٹھی تھی اور ٹریفک کا ہجوم،لوگوں کی چلنے کی آہٹ،گاڑیوں کا دھواں،سب سے بڑھ کر وہ ایک زندہ لاش کی مانند تھی اسے یہ تک نہیں پتہ تھا کہ اس کے کپڑے کدھر جا رہے ہیں۔ اس کی عمر 18 سے 20 سال تھی،چہرہ جھکا ہوا ہونے کے باوجوداس کی گوری رنگت کو ظاہر کر رہا تھا بال کلر میں رنگے ہوئے تھے اور گولڈن کلر صاف واضح ہورہا تھا۔

وہ ہیروئن کے نشے میں دھت تھی۔ میں نے ہیروئن کے نشے میں دھت بہت سے نوجوان دیکھے ہیں جوکہ جامع کلاتھ کے کمرشل ایریا کے پاس عالم شاہ بابا کی مزار کے قریب ہی پڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کوئی نشے کی حالت میں کھڑے کا کھڑا رہے گا گھنٹوں، تو کوئی سر جھکائے سجدے کی حالت میں ساکن جسم کے ساتھ دکھائی دے گا،کسی کو اتنا ہوش تک نہیں ہوتا کہ وہ کچرے میں پڑا ہوا ہے اور مکھیاں اس کے گر د چکر لگا رہی ہیں اور وہ اس بدبو دار کچرے کو نرم بستر سمجھ کر سو رہا ہوتا ہے۔ بات ہو رہی تھی اس لڑکی کی اسے اس حالت میں دیکھ کر میری روح تک کانپ گئی وہ کس گھر کی عزت ہوگی،کس کے گھر کا چراغ ہوگی،کس ماں باپ کی بیٹی ہوگی،کس بھائی کی بہن ہوگی یا پھر یتیم۔۔۔۔

بس میں سوار تمام لوگوں نے استغفار کہا اور میری آنکھوں سے گرنے والے آنسوؤ ں کو میں نے اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے رومال نما کپڑے سے اس دنیا سے ایسے چھپایا جسے وہ میری کوئی اپنی ہو اور اس کے لئے دل سے خون کے آنسوں جاری ہوگئے ہو۔ اسی وقت میرے دل سے ایک بد دعا اس وقت کے حکمراں ضیاء الحق کے لئے نکلی کہ جس نے اس غلیظ وبا کو افغان روس وار میں پاکستان میں داخل کیا آج اس انسان کی اس حرکت کا خمیازہ میری نسل کے میری قوم کے نوجوان ہی نہیں بجے،بوڑھے،جوان مرد و عورت سب ہی بھگت رہے ہیں ہمارے ملک کے ہونہار،نونہال اور مستقبل کے چمکتے ستارے اس نشے میں لگ کر اپنی دنیا برباد کر رہے ہیں۔ اس نشے کو پروموٹ کرنے والو تمھاری نسلیں بھی اس میں مبتلا ہوں گی جب معلوم ہوگا کہ قبر کا حال مردہ جانے۔۔۔۔

میں جانتی ہوں کہ میری آرمی عنقریب کشمیر کو فتح کرے گی اور پاک فوج کا جرنیل 40 سال دہلی پر حکومت کرے گا پھر شام کی طرف روانہ ہو جائے گا مگر۔۔۔۔ میں کس طرح آرمی کے چند جرنیلوں کی کبیرہ صغیرہ گناہوں کو بھول جاؤں جن کی عیاشیوں کا خمیازہ یہ قوم نشے کی صورت میں بھگت رہی ہے۔ ابھی میں ان ہی باتوں میں الجھی ہوئی تھی کہ ایک 70 سے 75 سال کا بھکاری بابا جو کہ ایک ہاتھ سے اور ایک پاؤں سے معذور تھا بس میں اپنے لاغر جسم کے بوجھ کو گھسٹتے ہوئے چڑھا وہ نورانی چہرہ ہاتھ پھیلائے ہوئے سب کی مدد کا طلب گار تھا حسب توفیق ہر ایک نے ان کی مدد کی۔ جب بس لیاقت آبا(لالوکھیت) پر رکی تووہ ضعیف بس سے سہارا لے کر بیٹھ کر ہی اترا اور لڑکھڑاتے جسم کو گھسٹتے آگے کی جانب بڑھ گیا یہ منظر دیکھ کر دماغ سُن سا ہوگیا۔ اب ایک اور منظر میری آنکھوں کا منتظر تھا تین ہٹی نوری شاہ بابا کی مزار کے پاس سے ایک اپاہج نوجوان چلتی ٹریفک میں روڈ کراس کرتے دکھا۔ لوگوں نے گاڑیوں کی رفتار کم کردی مگر پھر ٹریفک پولیس کے ایک اہلکار نے گاڑیوں کو رکوا کر اسے سہارا دیا اور سڑک پار کروائی۔ یہ منظر میرے دل پر جاکر اس قدر ہٹ ہوا کہ جسے پہلی بار کوئی آپ کی آنکھوں کو اچھا لگتا ہے اور دل میں پیوست ہوجاتا ہے،دل نے خوشی کی ایک انگڑائی لی اور مجھ سے محو گفتگو ہوا کہ اس ہمدرد اور انسان دوست پولیس اہلکار کو سلام پیش کرو مگر بس کی رفتار اور ڈرائیور کی جلد بازی نے میرے ارادے کو ملیا میٹ کر دیا۔ خیر مجھے سکون کے اور فخر کے کچھ تو لمحے میسر آئے۔

اب بس نمائش پر پہنچ چکی تھی یہاں پھر سے ایک واقعے نے اداس کر دیا گرین لائن منصوبے کے حوالے سے کھدنے والے گہرے کھائی نما کھڈے کے ایک کنارے ایک ہیروئن میں مبتلا فیملی مجھے نظر آئی یہ خاندان اکثر دکھائی دیتا ہے مگر 7ڈے کے پاس،مگرآج یہ لوگ یہاں منتقل ہو چکے تھے جانے اب کہاں جائیں گے اس کے بعد۔ ان کے ساتھ ہی بنجاروں کی ایک فیملی بھی وہی رہائش پذیر ہے جوکہ اس بات سے باخبر ہونے کے باوجود کہ ایک تو ٹریفک کے بیچ کھدے ہوئے گھڑے کے درمیان رہ رہے ہیں خدا نخواستہ کسی حادثہ کا شکار نہ ہوجائیں پاس ہی ان کے بچے کھیل کود میں مگن تھے۔ اب میری منزل آچکی تھی میں نے سفر بس کو الوداع کہا اور سول اسپتال کا داخلی راستہ یونیورسٹی پہنچنے کے لئے اختیار کیا۔
اپنی مستی میں مگن اور پچھلے خیالات کے حصار میں گم آگے بڑھتی جارہی تھی کہ میری نظر ایک کرولا کار پر پڑی جس میں سے ایک 20 سے 22 سال کی لڑکی بغیر دوپٹے کے نمودار ہوئی مجھے اسے دیکھ کر بے حد غصے آیا کہ دوپٹہ تک نہیں ان امیروں کے پاس۔ اس کے ساتھ ایک اور خاتون کار کے دوسری طرف سے اتری اس عورت نے اس لڑکی کو دوپٹہ پہنایا مجھے یہ بات بے حد عجیب لگی دل نہیں مانا آگے بڑھ کر پوچھ ہی لیا کہ آخر ماجرا کیا ہے۔ تووہ عورت میرے اس سوال پر کہ آنٹی یہ لڑکی آپ کی کون ہے اسے کیا ہوا ہے؟ آبدیدہ ہو گئی کہنے لگی میری بیٹی ہے بچپن سے بیمار رہی ہے اور اب ڈائیلسز کے آخری اسٹیج پرہے اور ساتھ ساتھ دیگر بیماریاں بھی لاحق ہیں۔ میں نے دل میں سوچا وہ زندگی کو جینے کے لئے اس لڑکی نے قدم بڑھایا ہی تھا کہ زندگی نے اسے کہا بس اب میری جان چھوڑو اور موت اسے اپنی آغوش میں لینے کے لئے بے چین تھی۔ ان کی باتیں سُن کر ایک جھٹکا سا لگا اور اس لڑکی پر آنکھیں ٹکی کی ٹکی رہ گئی وہ جنت سے اتری ہوئی کوئی پری لگ رہی تھی یا پھر ایسے سمجھ لی جئے کہ خون کی کمی کی وجہ سے وہ سفید ہو رہی تھی اورگوری لگ رہی تھی اس کی ماں نے کہا بیٹا دعا کرنا ہماری بیٹی ٹھیک ہو جائے میں صرف اتنا کہ سکی! انشاء اللہ ساتھ ہی اپنے گناہوں کی توبہ کی استغفار کہا اور بوجھل قدموں سے یونیورسٹی کی طرف بڑھی جوکہ اب چند قدموں کے فاصلے پر تھی۔

قدموں کی تیزی اب دھیمی ہو چکی تھی سوچ رہی تھی کہ آخر یہ کیا ہو رہا ہے سرمایہ دارانہ نظام نے ہمیں کس قدر اپاہج، بے بس، بے حس، لاغر اور ملٹی نیشنل کمپنیوں نے ہمیں طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا کر دیا ہے کہ ایک گولی کھانے پر دس بیماریاں ہماری جنم جنم کی ساتھی بن رہی ہیں،کس ہوشیاری سے ایک بیماروں کو ختم کرنے کی آڑ میں ان کمپنیوں کی دوسری دوائیاں فروخت ہو رہی ہیں اور ایک بیماری کو ختم کرکے مزید دوسری بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ یہ نظام ہی ان بیماریوں کی جڑ ہے اب یونیورسٹی گیٹ پر گارڈ کو انٹری کارڈ دکھایا اندر داخل ہوئی بیگ چیک کرنے والی آنٹی کے پاس بیٹھ کر ان کی باتیں سنی پھر کلاس کی جانب بڑھ دی۔

دو بجے یونی سے گھر کی جانب سفر کا آغاز کیا بس جلد ہی مل گئی اور اتفاق سے سیٹ بھی۔ اتنے میں ایک بزرگ خاتون بس میں سوار ہوئیں ان کو سیٹ دینے کے لئے میری برابر والی نقاب پوش عورت اٹھ گئی اور آگے ڈرائیور کی طرف سیٹ پر جا بیٹھی۔ اتنے میں کراچی ایکسرے (نمائش) سے ایک اور خاتون مسافر چڑھی کنڈیکٹر نے ان سے کرائے کا مطالبہ ان کے کندھے پر ہاتھ لگا کر کیا بس پھر کیا تھا جسے ہی کنڈیکٹر نے ہاتھ لگایا وہ عورت جسے انگاروں سے اتر کر اس پر برس پڑی کہ کرایہ چاہے تو منہ سے کہو ہاتھ لگا کر کیوں مانگتے ہو، گونگے ہو کیا اور اسی غصے میں بولتی ہوئی بس سے اتر گئی میرے برابر میں بیٹھی خاتون اماں نے کہا وہ ٹھیک ہی تو کہہ رہی تھی کیوں تم نے ہاتھ لگا کر کرایہ مانگا؟ اتنے میں جس عورت نے یہ میری برابر والی اماں جی کو سیٹ دی تھی بول پڑی کہ واہ! ڈاکٹر کے پاس جاکر تو ہاتھ لگوا لیتی ہو جب کچھ نہیں ہوتا انتے میں پیچھے بیٹھے آدمی نے کہا کہ ہاں یہ تو ٹھیک کہا پھر ڈاکٹروں کے پاس کیوں جاتی ہیں؟یہ سن کر ایک عورت نے کہاکہ ڈاکٹر اللہ کی طرف سے وسیلہ بنایا گیا ہے مجبوری کے تحت عورتیں جاتی ہیں۔ کنڈیکٹر کو کیا ضرورت تھی ہاتھ لگا کر پیسے مانگنے کی اور یہ جو عورتیں کنڈیکٹر کی حمایتی بن رہی ہیں یہ بھی اس کی طرح ہی ہوگی۔

جو عورت اتر گئی وہ اپنی جگہ ٹھیک تھی۔ بس یہی سب میں سن رہی تھی اور مجھے ایک طرف فخر تھا کہ میری قوم کے بھلے چند ہی لوگ سہی مگرمیری سوچ سے مسابقت رکھتے ہیں اور یہ لوگ وہ ہیں جو کنڈیکٹر کے خلاف تھے مگر اکثریت اس اترنے والی خاتون کو بُرا بھلا کہہ رہی تھی۔ میں انہی سوچوں میں مگن تھی کہ مجھے یاد آیاکہ میں نے جو پچھلے دنوں آرمی مخالف پوسٹس کیں جس کی وجہ سے مجھے کافی لوگوں نے بلاک کر دیا،غلط کہا،وطن دشمن،غدار،انڈین ایجنٹ کہا مگر ان لوگوں کی اکثریت میں سے کچھ لوگ اقلیت میں ایسے بھی تھی جن لوگوں کی رائے میں میں ٹھیک تھی اور جو لوگ مخالف تھے۔ آج اس لڑائی سے مجھے ان کا سمجھ آگیا اور ساتھ ہی یہ بات بھی سمجھ گئی کہ چاہے مخالف 100 ہواور آپ ایک حق پر ہو تو اسے پر ڈتے رہو تاکہ آپ اپنے حصے کا کام کر کے سر خرو ہو جائے گے اور ضمیر بھی آپ کی حق و صداقت کی گواہی دے گا۔ ظلم کے خلاف آواز اٹھاؤ۔ اس آخری واقعے نے مجھے ہمت دی اور میں نے کافی وقت بعد پھر سے قلم اٹھایا اور یہ روداد آپ کے سامنے پیش کی اپنے حصے کا کام جاری رکھیں کیوں کہ زندگی و موت کا رکھوالا رب ہے یہ ظالم،جابر،بے حس،لٹیرے چند عوام،حکمراں،ادارے اور آرمی نہیں۔۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).