تھر کے لوگ اور بھگوان کی ناراضگی


تھر صوبہ سندھ کا وہ خوبصورت حصہ ہے جسے صحرا کی جنت بھی کہا گیا یے۔ تھر کی اکثریت آبادی ہندوؤں پر معید ہے۔ آج کل تھر میں قحط کے باعث حالات سنگین ہو چکے ہیں ہزاروں خاندان فاقہ کشی پر مجبور اور مویشی بھوک سے مرنے لگے ہیں اور تھر سے نقل مکانی تیز ہو گئی ہے۔

تھر کی سات تحصیلوں کے کل 23 سو دیہا ت میں قحط کے باعث حالات انتہائی سنگین ہو چکے ہیں۔ 16 لاکھ انسانی آبادی، مویشی اور چرند پرند بھوک اور بدحالی کا شکار نظر آتے ہیں۔ دیہاتوں میں خوراک اور پانی کی کمی نے تھریوں کی زندگی کو اجرین بنا دیا ہے۔ نگرپارکر، چھاچھرو اور ڈاہلی کے سرحدی علاقوں میں پانی کے کنویں خشک ہو چکے ہیں۔ تھر کو آفت زدہ علاقہ قرار دینے کے باوجود بھی سندھ حکومت کی طرف سے اقدامات نظر نہیں آ رہے ہیں۔

غذائی قلت کی وجہ سے بچوں کی اموات کا سلسلہ جاری ہے اور یہ بات کوئی نئی نہیں ہے۔ آبادی، تعلیم، میڈیا اور آگاہی کے بڑھنے کے بعد تھری لوگوں کو پتہ لگا کہ اگر انسان چاہے تو ان اموات، خشک سالی، غذائی قلت کو روکا جا سکتا ہے۔ ورنہ تو یہ لوگ بھگوان کی ناراضگی سمجھ کر وقت گذارتے تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ سب کچھ ان کی ناراضگی کی وجھ سے ہو رہا ہے۔ اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ان اموات، قحط کا ذمہ دار اپنے آپ کو سمجھتے ہیں کہ یہ سب ان کے گناہوں کی وجہ سے ہو رہا ہے۔

غذائی قلت کا شکار یہ لوگ دن رات ہری مرچ اور پیاز کھا کر گزرا کرتے ہیں۔ جہاں جانور اور انسان ایک ہے تالاب سے پانی پی کر متعدد بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اگر یہ سب دیکھتے ہوئے بھی ہم خاموش رہیں، اور بے حسی اور نا اہلی کا مظاہرہ کریں تو پھر کیسے نہ ہو وہاں موت کا منظر۔ تھری لوگوں کا کیا قصور کہ وہ صدیوں سے اس استحصال کا شکار ہوتے آ رہے ہیں۔ تھر کے سیاست دان، بیوروکریٹس بابو، سب لاٹ صاحب ہیں۔ جہاں پانی ناپید ہو، کھانے کو کچھ نہ ہو، وہاں افسران، ڈاکٹر کیوں آئینگے۔ اگر کبھی نظر بھی آ جائیں تو ان غریبوں کو پوچھنے والا کوئی نہیں۔

ان غریب سادہ لوح لوگوں کے پاس پیسے کہاں سے آئیں کہ یہ اپنے بچوں کے لئے دوائیں خریدیں اور کیسے بڑے شھر جاکر علاج کروائیں۔ کیا صرف میڈیا میں خبر شائع ہوگی کہ تھر میں قحط اور غذائی قلت کی وجہ سے اموات ہو رہی ہیں اور پھر بلاول بھٹو نوٹس لیں گے اور ان غریبوں کی تھوڑی بھت سنی جائے گی۔ اور پھر اگلے قحط کا انتظار ہوگا۔ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہم ہولی منانے اور جلسہ کرنے تو تھر جاتے ہیں۔ مگر ہمیں خلق خدا کو دیکھنے لے لئے قحط کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اور ہم ہمیشہ اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ جب تھر میں قحط شدت اختیار کر جائے تو ہم اس کا نوٹس لیں۔

خدارا بغیر نوٹس بھی اقدامات کریں اور تھری لوگوں کو تھوڑا سا جینے کا حق دیں۔ ورنہ یہ معصوم لوگ ابھی تک اس بھو ک پیاس، غربت و افلاس، قحط اور اموات کا ذمہ دار بھگوان اور اپنے آپ کو سمجھتے ہیں انھیں آپ سے کوئے گلہ نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).