ندیم سرور کی نوحہ خوانی


میں نے تہائی صدی پہلے کراچی میں پہلا محرم کیا اور اسی سال ندیم سرور سے تعارف ہوا۔ تب وہ انجمن گلزار حیدری کے نوجوان نوحہ خواں تھے اور عالمگیر شہرت نہیں رکھتے تھے۔

یہ 1985 کا ذکر ہے۔ ہمیں کراچی منتقل ہوئے چند ماہ ہوئے تھے اور انچولی میں قیام تھا۔ محرم کا پہلا عشرہ ختم ہوا تو شب عزا اور شب بیداریوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ خانیوال میں صرف شب عاشور کو کچھ لوگ امام بارگاہ میں نوحہ خوانی اور سینہ زنی کرتے تھے۔ یہاں ہر ہفتے نہ صرف امام بارگاہوں بلکہ گھروں اور سڑکوں پر بھی شب عزا ہوتی تھی۔ میں نے ایک دوست سے پوچھا کہ شب عزا اور شب بیداری میں کیا فرق ہوتا ہے؟ دوست نے کہا کہ ویسے تو کوئی فرق نہیں۔ لیکن جو پروگرام نصف شب کو ختم ہوجائے اسے شب عزا کہہ دیتے ہیں اور جو فجر تک جاری رہے اسے شب بیداری کا نام دیا جاتا ہے۔

ایک رات ہمارے گھر کے پاس شامیانہ لگا اور مجلس کے بعد کئی ماتمی انجمنیں آئیں۔ ہر ماتمی انجمن کا ایک ٹائٹل نوحہ ہوتا ہے۔ عموماً انجمن کا دستہ سالار فرش عزا پر آتے ہی بلند آواز میں وہ ٹائٹل پڑھنا شروع کرتا ہے۔ لوگ دور سے جان جاتے ہیں کہ کون سا نوحہ خواں کلام سنانے والا ہے۔ نوحہ خوانوں کی اپنی فالوونگ ہوتی ہے اور اب ان کا درجہ سیلری بریٹیز جیسا ہوگیا ہے۔
انجمن گلزار حیدری آئی تو اس کے لڑکوں نے ٹائٹل اٹھایا، ام شب شبِ ماتمِ حسینا، لاچار لاچار لاچار حسینا!

یہ کچھ مختلف قسم کا ٹائٹل تھا جس نے فوری طور پر سب کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ پھر ندیم سرور اسٹیج پر آئے اور انھوں نے دو نوحوں کے بعد کہا، ”اب میں جو نوحہ پڑھوں گا، وہ ہماری انجمن کا پرانا ٹائٹل ہے۔ “ انھوں نے کسی بزرگ کا تذکرہ کرتے ہوئے خود کو ان کا احسان مند قرار دیا لیکن اب مجھے وہ نام یاد نہیں۔

پھر ندیم سرور نے نوحہ سنایا، ”عباس کا پرچم ہے، گلزار حیدری ہے۔ شبیر کا ماتم ہے، گلزار حیدری ہے۔ “
میں یہ نوحہ سن کر چونکا کیونکہ ایک اور انجمن کا ٹائٹل بالکل ایسا ہی تھا۔ علامہ عرفان حیدر عابدی کے بہنوئی ناصر اس کے نوحہ خواں تھے۔ وہ ٹائٹل یہ تھا، ”عباس کا پرچم ہے، تنظیم حسینی ہے۔ شبیر کا ماتم ہے، تنظیم حسینی ہے۔ “

تب تک مجھے انجمنوں اور نوحہ خوانوں کے نام یاد نہیں ہوئے تھے۔ لیکن ندیم سرور اور ان کا ٹائٹل ذہن میں رہ گیا۔
چند ہفتے بعد امی کے کزن اطہر بھائی گھر آئے اور یہ کہہ کر مجھے ساتھ لے گئے کہ ہم ڈرگ روڈ کی شب بیداری میں جارہے ہیں۔ میں نے پہلی بار ڈرگ روڈ کا امام بارگاہ دیکھا۔ وہاں ایک قطعے پر کربلا کا نقشہ کھینچا گیا تھا۔ مصنوعی نہر فرات بنائی گئی تھے، خیمے، حسینی لشکر اور یزیدی افواج کی عکاسی کی گئی تھی۔ شاید اب بھی یہ روایت برقرار ہے۔
مجھے رات کو سردی لگ رہی تھی اور میں بار بار امام بارگاہ کے اندر چلا جاتا تھا کیونکہ وہاں ماتم ہورہا تھا اور ماحول گرم ہوتا تھا۔

آدھی رات کے بعد گلزار حیدری کا شور مچا تو میں اسٹیج کے قریب جاکر کھڑا ہوگیا۔ ندیم سرور نے وہاں وہ نوحہ پڑھا جو بہت مشہور ہوا اور اگلے سال ان کے کیسٹ کا حصہ بنا،
”شیعتی ما ان شربتم ماء عذب فاذکرونی
اؤ سمعتم بغریبٍ او شہیدٍ فاندبونی
اے شیعو! جب پینا پانی، بھول نہ جانا مجھے
ذکر غربت یا شہادت ہو تو رو لینا مجھے۔ “

ندیم سرور بہت تیزی سے شہرت حاصل کرتے گئے اور پہلے انیس پہرسری اور پھر ریحان اعظمی نے انھیں اپنے بہترین نوحے دیے۔
بزرگ شاعر انیس پہرسری رضویہ امام بارگاہ میں ملازم تھے اور میں ایک بار اپنے نوحوں پر اصلاح لینے کے لیے ان کے پاس گیا تھا۔ خدا کا شکر کہ انھوں نے ایسی حوصلہ شکنی کی کہ میں نے شاعری سے توبہ کرلی۔

مجھے یاد ہے کہ ندیم سرور نے انچولی کی مین روڈ پر خان اسنیکس کے سامنے اسٹیشنری کی ایک دکان کھولی تھی۔ وہ خود بھی وہاں بیٹھتے تھے۔ ایک بار میں نے ان سے گفتگو کا بہانہ تلاش کرنے کے لیے وہاں سے کچھ خریداری کی۔ وہ دکان نہیں چلی اور کچھ عرصے بعد بند ہوگئی۔

کئی سال بعد وہ وقت آیا جب ندیم سرور گلزار حیدری سے الگ ہوگئے اور انھوں نے تنہا نوحے پڑھنے شروع کردیے۔ ابتدا میں ان کے چند دوست ماتمی حلقہ بناتے اور ایک خاص انداز میں حسین حسین حسین کہہ کر ماتم اٹھاتے تھے۔ رفتہ رفتہ ندیم سرور سب سے بے نیاز ہوگئے۔ وہ اسٹیج پر آتے تو ماتم کرنے والے خود ہی حلقے بنالیتے۔ میں نوے کے عشرے کے بعد کسی شب بیداری میں نہیں گیا۔ لیکن تب تک ندیم سرور اور حسن صادق دو ایسے نام بن چکے تھے، جن کا نوحہ سننے کے لیے عزادار پوری رات انتظار کرتے تھے۔

مبشر علی زیدی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مبشر علی زیدی

مبشر علی زیدی جدید اردو نثر میں مختصر نویسی کے امام ہیں ۔ کتاب دوستی اور دوست نوازی کے لئے جانے جاتے ہیں۔ تحریر میں سلاست اور لہجے میں شائستگی۔۔۔ مبشر علی زیدی نے نعرے کے عہد میں صحافت کی آبرو بڑھانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔

mubashar-zaidi has 194 posts and counting.See all posts by mubashar-zaidi