حسینیت زندہ باد، مگر کیسے؟


محرم الحرام کا آغاز ہو چکا ہے، چہارسو فضا میں نمی سی چھانے لگی ہے! ہر طرف ماتم حسینؑ کی صدائیں بلند ہوا چاہتی ہیں۔ صدیاں گزر جانے کے باوجود، حسینؑ کے غموں کی یاد آج بھی دلکش، ترو تازہ اور معنویت سے بھرپور نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس قتل ناحق کے خلاف، ہر سال حسینی عزادارن ماتم کے ذریعے اپنے مروجہ طریقوں سے احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ امام عالی مقام کی اس عظیم قربانی کے فلسفے، اصل مقصد اور پیغام کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی جاتی۔

حسینؑ حق کی سربلندی اور باطل کے سامنے ڈٹ جانے کا نام ہے تو پھر کالی قمیض سفید شلوار پہن کر سڑکوں پر اپنا خون بہانے سے کیا حاصل؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ روڈ راستوں پر اپنا خون بہا کر ضائع کردینے کی بجائے وہی خون کسی بلڈ بینک میں ضرورت مند مریضوں کو عطیہ کردیا جائے؟ ایران میں اس معاملے پر مباحث ہو رہے ہیں، فتوے دیے جارہے ہیں، طور طریقے بدل رہے ہیں تو یہاں پر اس موضوع پر کیوں کوئی بات نہیں کی جاتی؟

خود اہل تشیع کے فقہاء کی رائے اس بارے میں منقسم نظر آتی ہے۔ نجف کے آیت اللہ حافظ بشیر کی رائے میں واقعہ کربلا اور مصیبت حسین کی المناکی اس قدر شدید ہے کہ اس کی عزاداری اور پرسہ داری جس طرح سے بھی کی جائے جائز ہے اور عظیم اجر و ثواب رکھتی ہے، لیکن اس کے برعکس ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی رائے علمی، عقلی، شرعی اور منطقی اعتبار سے نہایت مناسب اور واضح نظر آتی ہے اور وہ اس کے متعلق اپنا موقف دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ” تطبیر (خونی ماتم) غلط کاموں میں سے ایک ہے۔ مجھے معلوم ہے کچھ لوگ کہیں گے کہ بہتر ہوتا یہ تطبیر کے بارے میں گفتگو نہ کرتے۔ وہ کہیں گے کہ آپ کو خونی ماتم سے سے کیا مطلب؟ اگر کچھ لوگ ایسا کرتے ہیں تو انہیں کرنے دیں۔ نہیں! ایسے غلط کام پر خاموش نہیں رہا جا سکتا۔ یہ غلط ہے کہ کچھ لوگ ہاتھ میں خنجر پکڑ کر اپنے سر پر مارتے ہیں تاکہ خون بہے۔ وہ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ اسے سوگ و عزا کا عمل کیسے کہا جا سکتا ہے؟ اپنے ہاتھ سر پر مار کر ماتم کرنا بالکل سوگ و عزا ہے۔ آپ نے یہ کئی مرتبہ دیکھا ہے کہ جب لوگ سوگ اور پریشانی میں ہوتے ہیں تو اپنے سر اور سینے پر ماتم کرتے ہیں۔ یہ عزا کا ایک عام طریقہ ہے۔ لیکن آپ نے ایسا کہاں دیکھا ہے کہ ایک شخص جو اپنے کسی عزیز کے سوگ میں ہے وہ اپنے سر پر تلوار مارے اور اسے زخمی کرے؟ یہ عزا کا طریقہ کیسے ہو سکتا ہے؟ خونی ماتم ایک جعلی سنت ہے۔ یہ وہ کام ہے جس کا مذہب سے تعلق نہیں اور بلا شبہ خدا اس کام سے خوش نہیں ہے۔ ماضی میں علماء اسلام یہ بات آزادانہ طور پر نہیں کہتے تھے کہ یہ ایک غلط عمل ہے۔ لیکن آج اسلام کی حاکمیت کے دن ہیں، ہمیں اہل بیت کے عشق میں پہچانا جاتا ہے اور وہ ہمیں امام مہدیؑ، امام حسینؑ اور امام علیؑ کے مقدس ناموں نے قدر و منزلت بخشی ہوئی ہے۔ ہمیں ایسے کام ہرگز نہیں کرنے چاہئیں کہ دنیا کے مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کی نظر میں ہم خرافاتی اور غیر منطقی لوگوں کے طور پر شمار ہونے لگیں۔ میں نے اس بارے میں جتنا سوچا اتنا مجھے احساس ہوا کہ میں اس چیز کو نظر انداز نہیں کر سکتا کہ اپنے عزیز لوگوں کو بتاؤں اور تطبیر سے متعلق آگاہ کروں۔ جو کہ یقیناً ایک غلط اور غیر دینی کام ہے۔ اس پر عمل نہ کریں۔ میں اس کی اجازت نہیں دیتا۔ اگر کوئی ایسا کام کرتا ہے جس سے ظاہر ہو کہ وہ خونی ماتم کرنا چاہتا ہے تو میں اس سے واقعی ناراحت ہوں گا۔ میں پوری سنجیدگی سے اس کا اعلان کر رہا ہوں۔ یہ عمل ایک غلط کام ہے۔ امام حسینؑ اس عمل سے راضی نہیں ہیں۔ مجھے معلوم نہیں ایسی غلط اور عجیب چیزیں ہمارے اسلامی اور انقلابی معاشرے میں کس طرح داخل ہوئیں۔ “

اپنے آپ اور اپنی معصوم اولاد کی ایذا رسانی کے ان طریقوں کا تقاضا نا تو امام نے کیا اور نا ہی رسولؐ نے۔ خون کا ماتم کسی امام سے ثابت نہیں ہے۔ سانحہ کربلا میں بیماری کے باعث مردوں میں، واحد زندہ بچ جانے والے امام زین العابدینؑ، واقعہ کربلا کے بعد بیس سال تک روتے رہے، جب کبھی کھانا پانی سامنے آتا تو اس قدر روتے کہ لوگوں کو لگتا کہ ان کی روح نہ پرواز کر جائے، لیکن اس کے باوجود امام نے کبھی ماتم یا قمہ زنی نہیں کی اور یہی حالت بعد میں آنے والے تمام اماموں کی رہی، گریہ کرتے تھے لیکن خون کبھی نہیں بہایا۔

اپنے آپ کو زنجیروں سے چھلنی کرکے اور اپنے معصوم بچوں کے چھوٹے سے سروں پر تلواروں سے گھاؤ دے کر لہو لہان کرنے سے آپ اقوام عالم کو کیا پیغام دیتے نظر آتے ہیں؟ اکیسویں صدی میں آگ پر چلنے، زنجیر زنی اور خونی ماتم کے لئے آپ کے پاس کیا کوئی عقلی و نقلی دلیل موجود ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے معقول جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ کبھی ٹھنڈے دماغ سے اس بات پر غور کریں۔ اگر آپ حسینؑ سے محبت کرنے کے دعویدار ہیں تو اس کے فلسفہ قربانی کو سمجھنے کی کوشش کریں اور صدیوں پرانی روایات کو بدلنے کی کوششوں میں اپنا کردار ادا کریں۔

محرم الحرام کے موقع پر دنیا کے مختلف ملکوں میں سبیلیں لگانے اور نذر و نیاز کا سلسلہ تو ہمیشہ سے جاری رہتا ہے لیکن پچھلے سال تہران یونیورسٹی کے طلباء نے اسلامی مفاہیم کی ترویج کے لئے ایک الگ اور بہت خوبصورت سا انداز اپنایا اور ہزاروں کی تعداد میں یاحسینؑ ‏ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ہیڈ بینڈ اور گاڑیوں کے سائیڈ شیشوں پر لگانے والے تحفے تیار کرکے تہران کی سڑکوں پر تقسیم کیے۔ حسینؑ سے اس قسم کی عقیدت برصغیر میں کیوں نہیں ملتی؟ ہمارے ہاں عقیدت چاول کھانے، آگ پر چلنے اور خونی ماتم میں ہی کیوں ڈھونڈی جاتی ہے؟

ایران کے مشہور فلسفی ڈاکٹر علی شریعتی نے ایک جگہ لکھا تھا کہ ’پانی سے زیادہ حسین کو لبیک کی ضرورت تھی، افسوس کہ ان کے خیالات کی بجائے، ان کے جسم کے زخموں کو ہمیں دکھایا گیا اور تشنگی کو حسین کا سب سے بڑا درد سمجھا گیا۔ ‘

یاد رکھئے، دنیا میں ہر 2 سیکنڈ میں کسی نہ کسی انسان کو خون کی ضرورت پڑتی ہے اور ایک پنٹ بوتل سے 3 زندگیوں کو بچایا جا سکتا ہے۔ حسینؑ تاریخ کا گمان نہیں بلکہ ایک زندہ جاوید حقیقت ہے، حسینؑ کا مقام نہایت بلند ہے اور حسینؑ کو خراج پیش کرنے کا طریقہ بھی اُتنا ہی شاندار ہونا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).