محترمہ کلثوم نواز کا انتقال اور سماج بے نقاب


ہم نے یہ طے اور یقین کرلیا ہے کہ بس ہمارے مذہبی لوگ ہی انتہا پسند ہوتے ہیں۔ کبھی ہم نے اپنے رویوں کو ایک نقاد کے طور پر دیکھنے کی جرأت ہی نہیں کی کہ ہم سب ہی کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی طرح کی انتہاپسندی کا شکار ہیں۔ ادیب، شاعر، صحافی سے لے کر عام شہری تک حتیٰ کہ وہ موٹرسائیکل سوار بھی جو بغیر کسی باقاعدہ تربیت کے موٹرسائیکل چلا رہا ہے۔ سڑکیں لڑنے بھڑنے کا میدان ہیں، غصیلے کارسوار سے لے کر موٹرسائیکل سوار تک۔ قانون شکنی دہشت گرد ہی نہیں وہ موٹرسائیکل سوار بھی کررہا ہے جو شہروں میں بسنے والے سب سے نچلے طبقے سے تعلق رکھتا ہے۔ کبھی آپ معلوم کریں، لاہور میں اس وقت لاکھوں موٹر سائیکل سوار ہیں، چند ایک ہی کے پاس ڈرائیونگ لائسنس ہے، یعنی انتہاپسندی اور قانون شکنی یا Abuse of Power اوپر سے نیچے تک سرایت کرچکی ہے۔ مذہبی لوگوں کو دہشت گرد اور سیاسی لوگوں کو کرپٹ کہنا، یہ اس سماج کا متفقہ فیصلہ ہے۔ کس قدر فرار ہے اپنی ذات سے۔ لوگ ملائیشیا کے رہبر مہاتیرمحمد کو اپنا آئیڈیل قرار دیتے ہیں، اُن کے موبائل اُن کی تصاویر سے آویزاں ہوں گے۔ کبھی وہ مہاتیر محمد کے ملک میں بلالائسنس موٹرسائیکل چلا کر دکھائیں۔ ہم نے طے کرلیا ہے کہ دہشت گرد تنظیموں والے ہی دہشت گرد ہیں۔ کیا ہم سب کے اندر ہی ایک چھوٹا موٹا دہشت گرد گھر بنا کر نہیں بیٹھا۔

ہم کس قدر ظالم ہوچکے ہیں، اس کا اندازہ مجھے ایک بار اس وقت ہوا جب سابق وزیراعظم نوازشریف کی شریک حیات کلثوم نواز مہینوں موت وحیات کے درمیان کشمکش میں رہیں۔ متعدد مرتبہ میرے بہت ہی ”نامور‘‘ دوستوں نے بھی مجھے یوں اُن کی موت کی تصدیق کی خبر سے مطلع کیا جیسے وہ بی بی سی کے مارک ٹلی ہیں کہ وہ دو روز قبل مرچکی ہیں۔ مرچ مصالحے لگاکر ہزاروں نہیں لاکھوں ”مارک ٹلی‘‘ اس خبر کو پھیلانے میں پیش پیش تھے۔ مہینوں پہلے جب اللہ تعالیٰ نے اُن کے بدن سے ابھی روح واپس نہیں لی تھی۔ افسوس، ہم نے موت، قتل، دہشت اور افواہوں سے لطف اٹھانا شروع کردیا ہے۔ اور اس بیہودہ لطف کو شیئر کرکے خوشی بھی محسوس کرتے ہیں اور بڑا اعزاز سمجھتے ہیں کہ ”مجھے خبر مل گئی۔ ‘‘ کلثوم نواز صاحبہ کی موت کو سیاسی ڈرامہ بھی قرار دیا گیا۔ کسی سماج کا بیہودگی کے گڑھے میں گرنے کا یہ ایک انتہائی مظاہرہ تھا۔ میں نہ ہی نوازشریف خاندان کے کسی فرد کا مداح ہوں اور نہ ہی اُن کا حامی یا سیاسی دفاع کار ہوں۔ مگر میرے لیے یہ بات تعجب اور حیرت کا باعث ہے کہ موت کی خبریں دینا، موت وحیات کی کشمکش کو ڈرامہ اور سیاسی شعبدے بازی قرار دینا، سماج کے زوال کی انتہا ہے۔ مجھے ایک انسان کی حیثیت سے سب سے پہلے انسانی قدروں کا پاسدار ہونا چاہیے۔ وہ لوگ جو ہم جیسے مسلمان نہیں، جنہیں ہم کافر کہتے ہیں، سوچیں کبھی یورپ کے یہ کافر ایسا کرتے ہیں، جیسا ہم مملکت خداداد کے مسلمان؟

میں نواز شریف کی سیاست کا شروع سے نقاد ہوں، مگر اُن کے گھر موت کے کھیل پر خوش، ڈرامہ قرار دیے جانے اور خوامخواہ خبرنگار بن کر لوگوں کو سوشل میڈیا پر مطلع کرنے کو سماجی پستی کی انتہا سمجھتا ہوں۔ کلثوم نواز، میاں نوازشریف کی شریک حیات تھیں۔ ایک بے مثال بیوی اور ہماری روایتی ثقافت کی آئینہ دار ماں۔ میں نے کبھی اُن کے بارے میں یہ نہیں سنا کہ انہوں نے کسی پولیس ناکے پر مداخلت کرکے حکمرانی میں مداخلت کی ہو۔ اُن کو میں نے ایک روایتی اور شان دار خاتون کے طور پر ہی جانا۔ میں اُن کی کسی سیاسی جدوجہد سے آگاہ نہیں۔ اگر چند مرتبہ انہوں نے اپنے سیاست دان شوہر کے لیے سیاست کے میدانِ کارزار میں قدم رکھا تھا تو میرے نزدیک یہ کچھ اہم نہیں۔ لیکن میرے لیے یہ بات ضرور اہم ہے کہ مجھ تک اُن کے بارے میں کبھی ایسی اطلاع نہیں پہنچی کہ انہوں نے حکومتی معاملات میں مداخلت کی ہو۔ مجھے ذاتی حوالے سے چند مرتبہ انہیں قریب سے جاننے کا بھی موقع ملا جس کے بارے میں لکھنا مناسب نہیں۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ جاننے کے ان مواقع پر اُن کی طرف سے یہ تاثر نہیں ملا کہ وہ خاتونِ اوّل ہیں۔ اُن کی یہ سادگی شہرِ لاہور اور پنجاب کے روایتی خاندانوں کی تربیت کا مظاہرہ تھی۔

مجھے ایسے دانشوروں کے بیانات سن کر حیرانی ہوئی جو ایک انسان کی موت پر ”مشروبِ شب‘‘ میں مست ہوکر کہہ رہے تھے کہ ہمیں اس سے کیا، کلثوم نواز مر گئیں، اُن کا خاندان کرپٹ ہے، معافی نہیں دی جاسکتی، وغیرہ وغیرہ۔ معذرت کے ساتھ، اگر اس دانشور کی قمیص اٹھائیں تو ”ایمان داری کے علمبردار‘‘ اس دانشور کے جسم پر کرپشن کے پھوڑوں کے سوا کچھ نہیں۔ اپنی ایک شریک حیات کا مال ودولت لوٹنے سے لے کر عام آدمی کا مال لوٹنے تک، اُن کی زندگی بھری پڑی ہے کرپشن سے۔ کرپشن کرپشن کا واویلا کرتے وہ خود کرپشن کرتے کروڑوں پتی سے بھی آگے نکل چکے ہیں۔ ایسی باتیں مرحوم احمد بشیر کرتے، جناب حسین نقی کریں، یا ارشاد احمد حقانی کرتے تو میرے جیسا شخص مان لے۔ مگر افسوس ہمارے سماج نے ان چھوٹے اور بدتمیز لوگوں کو جرأت مند اہل دانش قرار دے دیا ہے جو کسی کی موت کو ڈرامہ کہتے، پھر ایک سیاسی دھڑے میں شامل ہوکر ایمان داری کا پرچم بلند کرنے کے دعوے دار ہیں۔ ان جیسے لوگوں نے اس فضا کو کچھ اس طرح آلودہ کردیا ہے کہ 12کروڑ سمارٹ فون رکھنے والوں میں اب ہر کوئی دانشور ہے جو وٹس اَپ اور دیگر سوشل میڈیا ٹولز سے اس جہالت اور بیہودگی کو شیئر کرکے خبرنگار، تجزیہ نگار اور بزعم خود دانشور بن بیٹھا ہے۔ ان لاکھوں شاید کروڑوں کے پاس ادرک سے کینسر کا علاج، جنت کمانے کے راستے، کاروبار کرنے کے طریقوں سے لے کر لوگوں کی موت پر رقص کرنے تک، وہ سب کچھ ہے جو کسی سماج کی تہذیبی ترقی نہیں بلکہ زوال کی شاہراہِ اعظم ہے۔

کلثوم نواز کی موت تو درکنار، بحیثیت انسان میرے لیے وہ لمحات بھی بڑے دکھ بھرے تھے جب ایک بیٹی اپنے باپ کے ساتھ جیل جانے کے لیے جہاز سے اتررہی تھی۔ میں نوازشریف سے مریم نواز تک کی سیاست کا کھلا نقاد ہوں، مگر کسی کی تکلیف اور موت کو دیکھ کر جشن منانے کو میں ایک غیرانسانی فعل کے سوا کچھ نہیں سمجھتا۔ نوازشریف سے مریم نواز تک سب کو قانون کا پابند ہونا لازمی ہے۔ لیکن میں کسی کو سُولی پر لٹکتے دیکھ کر جشن منانے کو چنگیزخانی فعل سمجھتا ہوں۔ اور سماج میں کرپشن نوازشریف اور آصف زرداری سے شروع ہوکر انہی پر ختم نہیں ہوجاتی۔ ذرا ہم اپنے اپنے گریبان میں جھانکیں، ہم خود کیا ہیں۔ حضرت علیؓ کا ایک قول ہے جو میرے علم اور زندگی گزارنے کے لیے سنہری نکتہ ہے کہ ”مجھے معلوم ہے میں کیا ہوں۔ ‘‘ ذرا غور کریں، اس سماج کی کرپشن کے کھرے کہاں کہاں تک پہنچتے ہیں۔ میری ایک پسندیدہ کتاب ہے ”Moors in Spain“ جس کا ترجمہ اردو میں ”مسلمان اندلس کے‘‘ کے نام سے جمہوری پبلیکیشنز نے شائع کیا ہے۔ سٹینلے لین پول نے مسلم سپین کے عروج وزوال پر کیا شاندار کتاب لکھی ہے۔ اس میں اس نے تحقیق کے بعد بہت اہم معلومات دی ہیں کہ مسلم سپین کے زوال کے آخری ادوار میں کس طرح لوگ ایک سلطان کو تخت سے گرانے کے لیے تگ ودو کرتے تھے اور دوسرے کو لے آتے تھے۔ پھر بار بار یہی عمل دہراتے، مگر اس زوال یافتہ سماج نے اپنے آپ کو بدلنے کے لیے کچھ کیا۔ کہیں ہم پاکستان کو غرناطہ تو نہیں بنا رہے؟

(تصیح: گزشتہ کالم میں کمپوزر کی غلطی سے شام کے شہر کا نام اردلب لکھا گیا تھا، جبکہ درست نام ادلب ہے۔ قارئین تصیح فرما لیں۔)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).