باؤ جی کی مریم اور پاکستان کی تاریخ


بیگم کلثوم نواز کو اللہ جنت میں جگہ دے۔ موت زندگی اللہ کے ہاتھ میں جانے کا افسوس بہت ہوتا ہے لیکن شاید ہم لوگ اخلاقیات کے ساتھ ساتھ احساس بھی کھو بیٹھے ہیں خاص کر سوشل میڈیا پہ کئی لوگ ماسک پہنے ہوئے ہیں۔ کوئی پتا نہیں چلتا کون ہیں لیکن قلم جہل کا مہلک ہتھیار ہے۔ اویس صاحب کا جملہ ہے جو سوشل میڈیا پہ سچ ہورہا ہے۔

کوئی کہ رہا ہے پہلے کی فوت ہو چکی تھیں جبکہ لندن والے تو اتنے دن شاہی خاندان کی میت نہ رکھنے دیں یہ تو پاکستانی تھیں۔ اور کوئی کہ رہا ہے کہ ان کی بیماری کو ڈراما قرار دیا گیا۔ اگر کسی نے نے بیماری پہ شک کیا تو بھی اس میں کوئی نہی بات نہیں ہمارے سب سیاستدان بیماری کا بہانہ کرکے تو ملک سے باہر جاتے ہیں خاص کر تب جب کوئی کیس بنا تو ضرور بیماری کا سہارا لیا جاتا رہا بلکہ ہم عوام بھی سیکھ گئے نوکری سے چھٹی کرنی ہوتی یا بچوں نے سکول نہ جانے کا بہانہ ڈھونڈنا ہوتا یا ہم عورتوں کے سسرال سے کسی مہمان نے انا ہو سب سیاسیوں والا بہانہ استعمال ہوتا ہے۔

کئی لوگ کہ رہے ہیں کہ سیاسی مخالفت کے طعنوں سے فوت ہو گئیں تو دادا جی کا محاورہ یاد آگیا کی کووں کے کوسنے سے ڈھور نہیں مرا کرتے! لیکن شاید سیاست میں سب جائز ہے۔ اب آتے ہیں مریم کی طرف تو سیاست سے ہٹ کے بات کی جائے یا سیاست میں رہ کر کی جائے تو وہ تعریف کے قابل ہے۔ جس نے بھی یہ سکرپٹ لکھ کر مریم کو دیا کوئی بہت اعلی دماغ کا مالک تھا آئن سٹائن زندہ ہوتا تو مان لیا جاتا کہ اس کے پیچھے اسی کا دماغ ہے۔ جو مریم باپ کے ساتھ جیل جانے کو تیار ہوگئی۔

باپ اور بیٹا پچھلے لان میں کھیل رہے تھے۔ باپ بیٹے کا دل رکھنے کے لئے بار با ہار آؤٹ ہو جاتا تھا اور بیٹا جیت کی خوشی میں نعرے مار رہا تھا کہ میرا کمال ہے۔ پیچھے سات سال کی بچی بیٹھی سب دیکھ رہی تھی جب بار بار باپ کی ہار برداشت نہ ہوئی تو دوڑ کے آئی باپ سے لپٹی اور روتے ہوئے کہنے لگی بابا آپ میرے ساتھ کھیلیں آپ کو جتوانے کی خاطر میں ہاروں گی۔

پاکستان میں ہر بیٹا حسین نواز اور ہر بیٹی مریم ہی ہے۔ ہم ساری زندگی بیٹوں کی دعا مانگتے ہیں اور ساری جمع پونجی بیٹوں کے لئے ہی اکٹھی کرتے ہیں۔ ہمارے پنجاب میں تو بیٹیوں کو جائیداد میں حصہ نہ دینا پڑے پہلے تو شادیاں نہیں کرتے تھے۔ اب شادیاں تو کر دیتے ہیں لیکن حق دینا تو دور کی بات ماں باپ کے مرنے کے بعد بولنا کم کر دیتے ہیں۔ کہ میکے سے کوئی چیز نہ لے جائیں اور بیٹیاں اپنے گھروں سے جاکر ماں باپ کی خدمت کرتی ہیں۔

جب ماں باپ مر جاتے ہیں تو بیٹے زمین اور گھر کے وارث بن جاتے ہیں۔ حسین نواز زیادہ زیادہ گرفتار ہو جاتے تو کیا ہوتا مریم بھی تو ایک عورت ہو کر جیل کاٹ رہی ہے۔ میاں صاحب نے سب جن بیٹوں کے لئے کیا وہ ماں کی میت کے ساتھ نہیں آئے تو آج پاکستانی تاریخ لکھی گئی ہے کہ چھ بیٹوں سے ایک بیٹی زیادہ ہوتی ہے ایک باپ کے لئے شاید اسی لئے ہمارے نبی کو بھی بیٹی عطا کی گئی تھی لکین ہم جہالت کے مارے بیٹوں کے لئے دس دس شادیاں کرتے ہیں۔ مریم نے قوم کو پیغام دیا ہے کہ بیٹے شادی تک اور بیٹیاں قبر تک باپ کا ساتھ دیتی ہیں۔ اور ہم سب کو بھی اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے جن کی بیٹیاں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).