بیگم کلثوم نواز کی جیت اور نئے پاکستان کی ہار


بیگم کلثوم نواز کو نئے پاکستان کی حقیقت سے پردہ اٹھانے کی قیمت اپنی جان دے کر ادا کرنی پڑی۔ بیگم کلثوم کی موت نے ہم سب کے جاہل اور بیوقوف ہونے پر مہر ثبت کر دی ہے۔ ہماری بے درد اور گھٹیا سیاست کے منظر نامے پر ان سے پہلے بھی اقتدار کی ہوس میں عورتوں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کیا جاتا رہا ہے۔ ا گر ماضی کے دریچوں میں جھانک کر دیکھا جائے تو مادر ملت بھی طاقت کے پجاریوں کے ہاتھو ں ذلیل و خوار ہوتی نظر آتی ہیں۔ جنرل ایوب کی آمرانہ حکومت نے صدارتی الیکشن کے دوران مس فاطمہ جناح کی ذات پر ایسے گھناؤ نے الزامات لگائے کہ مادر ملت یہ کہنے پر مجبور ہو گئیں کہ اگر میرے بھائی کو پتا ہوتا کہ پاکستان کی باگ ڈور ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آ جا ئے گی تو وہ ایسے ملک کے قیام کے لئے تگ ودو نہ کرتے۔

اس کے بعد باری آئی بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو کی تو ان کے ساتھ بھی ہم نے کچھ مختلف سلوک نہیں کیا۔ ہم نے ان دونوں کو بھی سہالہ ریسٹ ہاؤس کو سب جیل کا درجہ دے کر وہاں قید رکھا۔ بیگم نصرت بھٹو کے سر میں قزافی اسٹیڈیم میں ڈنڈا مار کر بیہوش کر دیا گیا۔ بے نظیر بھٹو کو بھی پہلے تو اس ملک سے باہر رکھا گیا اور جب انہوں نے واپس آکر 1988ء کے الیکشن میں عوام کے ووٹ کی طاقت سے اپنی حکومت بنائی تو ان کی حکومت کو ہم نے دو سال میں ہی گرا دیا۔ 1988ء کے الیکشن میں بے نظیر بھٹو کے خلاف آئی جے آ ئی بنائی گئی جس کے پلیٹ فارم سے ان پر طرح طرح کے الزامات لگائے گئے۔

اس وقت انہیں غیر ملکی ایجنٹ کہا گیا اور انہیں ملک کی سلامتی کے لئے ایک خطرہ کے طور پر پیش کیا گیا۔ آئی جے آئی اور اصغر خان کیس کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے بی بی کو حکومت سے دور رکھنے کی سازشیں کی گئیں۔ اس وقت کے آئی ایس آئی کے چیف جنرل حمید گل نے بعد میں اپنے انٹرویو میں تسلیم کیا کہ میں نے اس وقت کے آ رمی چیف اسلم بیگ کے کہنے پر پیپلز پارٹی کے خلاف نو جماعتوں پر مشتمل آئی جے آئی کا محاز بنایا۔ اس سازش کا سب سے زیادہ فا ئدہ جس شخص کو ہوا وہ نواز شریف تھا۔ آج تاریخ نے اپنے آپ کو دہرایا ہے اور موجودہ الیکشن میں ماضی کے منظور نظر لیکن حال کے مخالف نواز شریف کو شکست دینے کے لئے اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو سامنے لائی ہے۔ خیر مشرف دور آیا تو بی بی پھر ملک سے باہر او ر جب وہ واپس آئیں تو ہم نے بی بی کو مار کر پاکستان کو ایک بہت بڑے خطرہ سے بچا لیا۔

بیگم کلثوم نواز کا نام جنرل مشرف کے دور سے پہلے پاکستانی سیاست میں کہیں بھی نظر نہیں آتا۔ مشرف دور میں انہوں نے جمہوریت کے حق میں بڑی بہادری سے تحریک چلائی اور تاریخ میں پہلی دفعہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو ایک ہی ایجنڈا پر اکٹھا کیا۔ انہوں نے نواز شریف کو باور کرایا کہ ہمیں پیپلز پارٹی سے اختلاف کی بجائے اتحاد کر کے سیاستدانوں کے ا صلی دشمن مقتدر ٹولہ کا سامنا کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کاوشوں کی وجہ سے 2006ء میں ن لیگ اور پی پی کے درمیان میثاق جمہوریت کا معاہدہ طے پایا۔ پس 2000ء کے بعد یہ کلثوم بی بی ہی تھیں جن کی وجہ سے ن لیگ نے ماضی کی پالیسیوں کو ترک کر کے ایک نئے دور کا آغاز کیا اور جمہوریت کے تحفظ کو اپنا نصب العین بنایا۔ اس عظیم کام کی تکمیل کے بعد وہ دو بارہ سیاست کے سٹیج سے غائب ہو گئیں لیکن نواز شریف اور اب مریم نواز کی سیاست پر ان کے سیاسی مشوروں کا رنگ نمایاں نظر آتا ہے۔

مسلم لیگ ن 2013ء کے الیکشن کے بعد جب دوبارہ حکومت میں آئی تو ان کے سویلین بالا دستی کے ایشو پر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مسائل شروع ہو گئے۔ اس پس منظر میں عمران خان اور طاہرالقادری کے دھرنے شروع ہوئے، انتقامی رویئے شدت اختیار کرتے گئے، سیاست میں جھوٹ اورگالی گلوچ کو متعارف کرایا گیا، میڈیا نے بھی ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں عوام کو آئے روز سنسنی خیز انکشافات کر کے پاگل بنایا، جس اینکر یا میڈیا گروپ نے سچ بتانے کی جرات کی تو اس کو کم ریٹنگ یا پھر سنسرشپ کاسامنا کرنا پڑا، سچ کی سزا غداری ٹھہری، اختلاف رائے کو ملک سے غداری کے مترادف سمجھا گیا اور اگر کسی نے نئے پاکستان کے ایجنڈا سے اختلاف کرنے کی جرات کی تو پھر اسے اپنے حق میں دلیلیں دینے کے باوجود ذلیل و خوار کیا گیا۔

جب جمہوری طریقے سے برسر اقتدارآنے والے سیاستدانوں اوراختلاف رائے رکھنے والے لوگوں کو مودی کا یار، ملک کا غدار اور را کا ایجنٹ کہا جا رہا تھا، جب عمران خان کے دھرنے حکومت وقت کو سرنگوں کر رہے تھے، جب نئے پاکستان کی نوید سنائی جا رہی تھی اور جب الیکشن قریب آ رہا تھا تو تب محترمہ کلثوم نواز کی بدقسمتی کہ وہ کینسر جیسے موذی مرض کا شکار ہو گئیں۔ پہلے تو انہیں پاکستان میں علاج نہ کروانے پر ذلیل کیا گیا اور بعد میں ن لیگ کی حکومت کو نئے پاکستان سے بچانے کے لئے بیماری کا بہانہ کرنے پر مورد الزام ٹھہرایا گیا۔ الیکشن کا وقت اور قریب آیا تو کلثوم بی بی نے اپنے شوہر اوربیٹی کو نیب کے کیسز سے بچانے کے لئے کومہ میں جانے کی سنگین غلطی کر دی۔

بس پھر تو ہمارے آزاد اور غیر جانبدار میڈیا کے ضامن اور نئے پاکستان کے ٹھیکیدار سچ کو سامنے لانے کے لئے سر تو ڑ کوششوں کے نتیجہ میں آخر کار اس سچ تک پہنچ ہی گئے کہ بیگم کلثوم کی طبی موت ہو چکی ہے لیکن شریف فیملی نے اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے انہیں وینٹی لیٹر پر رکھا ہواہے۔ جن میں سے پہلا سیاسی فائدہ یہ تھا کہ نواز اور مریم نیب کی پیشیوں سے بچنے اور اپنی متوقع سزا کو ا لیکشن تک ملتوی کرنا چاہ رہے تھے اور دوسرا یہ کہ وہ عین الیکشن کے موقع پر بیگم کلثوم کی موت کا اعلان کر کے لوگوں کی ہمدردی لینے کی سازش کر یں گے۔ کچھ جیالوں نے تو سچ سامنے لانے کے لئے لندن کی ہارلے سٹریٹ کلینک میں بھی گھسنے کی کوشش کی۔

شریف خاندان کی ان سازشوں کو ناکام کرنے کے لئے نواز شریف اور ان کی بیٹی کو بر وقت سزاسنا دی گئی۔ لیکن ہمت ہے نواز شریف اور ان کی بیٹی کی جنہوں نے دنیا میں اپنے سب سے پیارے رشتے کو بستر مرگ پر چھوڑ کر پاکستان میں آکر اپنی گرفتاری دے دی اور اپنے ناقدین کو تاریخ کے صفحوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے غلط ثابت کردیا۔ لیکن ہمارا ریٹنگ کو سچ پر ترجیح دینے والا سیلف سینسرڈ کارپوریٹ میڈیا اور نئے پاکستان میں اپنی باری لگانے کے انتظار میں بیٹھے سیاست دانوں نے ان کی گرفتاری کو بھی غلط رنگ دینے کی کوشش کی کہ باپ اور بیٹی نے اپنی گرفتاری اس لئے دی کیونکہ انہیں یہ یقین ہو چکا تھا کہ برطانیہ کی حکو مت کرپشن سے خریدے گئے ایون فیلڈ فلیٹس ضبط کر لے گی اورشریف فیملی کو یا تو برطانیہ کی جیلوں میں ڈال دیا جائے گایا پھر پاکستان کے حوالے کر دیا جائے گا۔

میرا ایسے دانشوروں سے ایک سادہ سا سوال ہے کہ حسین اور حسن نواز کو بھی اسی کیس میں سزا ہوئی ہے تو برطانیہ حکومت کی طرف سے انہیں کیوں نہیں پکڑا جا رہا اور ایون فلائٹس کو ضبط کیوں نہیں کیا جا رہا؟ اب اسلام آباد ہا ئی کورٹ کے ججز یہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ سزا ثبوت نہیں بلکہ محض شک و شبہات کی بنا پر دی گئی ہے؟ پوری قوم کو بے وقوف بنانے کا ذمہ دار کون ہے اور کیا ذمہ داروں کو سزا دی جائے گی؟ بیگم کلثوم کی طبی موت ہونے کے بعد وہ دوبارہ کیسے ہوش میں آگئیں؟ بیگم کلثوم کی بے وقت موت کا شریف فیملی کو کیا فائدہ ہوا ہے؟ اب جب کلثوم نواز کی موت نے ہمیں غلط ثابت کر ہی دیا ہے تو کم از کم ہم میں اتنی اخلاقی جرا ت تو ہونی چاہیے کہ ہم اللہ تعالی، بیگم کلثوم کی روح اور ان کے لواحقین سے چوہدری اعتزاز احسن اور پی ٹی آئی کے ممبر قومی اسمبلی فیصل واوڈا کی طرح معافی مانگ لیں۔

ہم سب کو عہد کرنا چاہیے کہ ہم آئیندہ سے کسی کی ذاتی زندگی پر کیچڑ نہیں اچھالیں گے۔ بیگم کلثوم، بے نظیر بھٹو، نصرت بھٹو اور مس فاطمہ جناح کی روحیں آج ہمیں پکار پکار کر یہ درس دے رہی ہیں کہ سیاست کی بھی کچھ اخلاقیات اور حدیں ہونی چاہیں۔ سیاست کو کسی کی ماں، بیٹی اور بیوی کی ذاتی زندگی سے دور رکھنا چاہے کیونکہ اب یہ ثابت ہو گیا ہے کہ بیگم کلثوم نواز مر کر بھی جیت گئیں جبکہ نیا پاکستان جیت کر بھی ہار گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).