کیا مذہب اور سیاست پر مکالمہ کرنا دوستی کے لیے نقصان دہ ہے؟


آج سے چند سال پیشتر میری کینیڈین دوست Bette Davis نے مجھ سے کہا کہ وہ میرا تعارف اپنی بچپن کی سہیلی ڈیبی اور اس کے شوہر ڈیرک سے کروانا چاہتی ہیں۔ میں نے انہیں ایک اٹیلین رسٹورانٹ میں ڈنر پر بلایا۔ ڈنر کے دوران ڈیرک نے مجھ سے پوچھا ’کیا آپ خدا کو مانتے ہیں؟

پہلے تو میں نے سوچا کہ انہیں گول مول سا جواب دوں کیونکہ پہلی ملاقات ہے کہیں دل شکنی نہ ہو جائے لیکن پھر میں نے سوچا کہ دوستی کی بنیاد سچ پر ہونی چاہیے۔ چنانچہ میں نے کہا ’نہیں‘

اس ایک لفظ کا حیرت انگیز اثر ہوا۔ پہلے ڈیرک کا چہرہ پیلا پڑ گیا۔ پھر وہ اٹھ کر رستورانٹ سے باہر چلے گئے۔ میں نے کھڑکی سے دیکھا تو وہ سگریٹ کے زور زور سے کش لگا رہے تھے۔ چند منٹوں کے بعد وہ لوٹے تو کہنے لگے، ’میری عمر چالیس برس ہے۔ میں زندگی میں کبھی کسی دہریے سے نہیں ملا‘۔ میں نے کہا ’اب آپ مل رہے ہیں‘ کہنے لگے ’ میں کل فلوریڈا جا رہا ہوں۔ واپسی پر آپ کے پاس ایک ویکنڈ گزاروں گا تا کہ جان سکوں کہ آپ جیسا نیک انسان اور ہمدرد تھیریپسٹ‘ جو دن رات خدمتِ خلق کرتا رہتا ہے‘ کیسے دہریہ بن سکتا ہے‘

ڈیرک میرے پاس ایک ویکنڈ رہے۔ ہمارا مکالمہ ہوا۔ میں نے انہیں اپنی کتاب FROM ISLAM TO SECULAR HUMANISM تحفے کے طور پر پیش کی اور ایک خدا کو ماننے اور ایک خدا کو نہ ماننے والے کی دوستی ہو گئی۔ ڈیرک نے جاتے ہوئے مجھے ایک محبت بھری نظم لکھ کردی،

کینیڈا میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ مذہب اور سیاست ایسے موضوعات ہیں جن پر تبادلہِ خیال دوستی کو نقصان پہنچا سکتا ہے اسی لیے اکثر کینیڈین محفلوں میں ایسے موضوعات سے احتراز کرتے ہیں۔ بے ٹی ڈیوس نے ایک دفعہ مجھ سے کہا ’جن موضوعات سے کینیڈین احتراز کرتے ہیں پاکستانی ان ہی موضوعات پر بحث کرتے ہیں‘ ان کی بحث کئی دفعہ غصے ‘ نفرت اور تلخی میں بدل جاتی ہے اور دوست دشمن بن جاتے ہیں۔

میرا ذاتی موقف یہ ہے کہ اگر دوستی سطحی ہے تو دوستوں کو ان موضوعات سے احتراز کرنا چاہیے لیکن اگر دوستی گہری ہے تو ان موضوعات پر تبادلہِ خیال دوستی کو تقویت بھی پہنچا سکتا ہے۔ میرا ایک شعر ہے

آج کل رشتوں کا یہ عالم ہے
جو بھی نبھ جائے بھلا لگتا ہے

ڈائلاگ دوستی اور جمہوریت کی بنیاد ہے۔ جس سے انسان ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں۔ جب ڈائلاگ مونولوگ کا روپ دھار لیتا ہے تو مکالمہ ایک لیکچر بن جاتا ہے اور بعض دفعہ فتوے پر منتج ہوتا ہے۔
مکالمے کے لیے ضروری ہے کہ دو انسان ایک دوسرے سے اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کی رائے کا احترام کریں۔

میرے دوستوں کے حلقے میں‘ جسے میں FAMILY OF THE HEART کہتا ہوں‘ مختلف مکاتبِ فکر کے دوست موجود ہیں۔

بعض دوست ایک خدا پر ایمان رکھتے ہیں بعض بہت سے خدائوں پر اور بعض ایک خدا پر بھی نہیں.

بعض دوست فوج کے حق میں ہیں اور بعض اس کے خلاف ۔ بعض اسے ملک کے لیے رحمت اور بعض مجبوری سمجھتے ہیں۔

چونکہ میری ان سب مردوں اور عورتوں سے دوستی ہے اس لیے میرا سب سے مکالمہ ہوتا رہتا ہے۔

میرے بعض دوست کمیونسٹ ہیں بعض کیپیٹلسٹ بعض انارکسٹ ہیں اور بعض ہیومنسٹ۔

بعض مذہبی سچ کو مانتے ہیں بعض روحانی سچ کو۔ بعض سیکولر سچ کو دل سے لگائے ہوئے ہیں بعض سائنسی سچ کو۔

ان تمام تر نظریاتی اختلافات کے باوجود سب دوست ایک دوسرے سے محبت بھی کرتے ہیں اور ایک دوسرے کا خیال بھی رکھتے ہیں۔

ہم سب جانتے ہیں کہ دوستی کا راز یہ ہے کہ ہم اپنے سچ کے ساتھ مخلص ہوں اور دوسرے کے سچ کی عزت کریں۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کوئی شخص اپنے سچ کی تبلیغ کرنے لگتا ہے اور آہستہ آہستہ دوست کھونا شروع کر دیتا ہے۔ میرا ایک مصرعہ ہے

کسی کے سچ کسی کو جھوٹ لگتے ہیں

میں نے زندگی میں ان لوگوں سے زیادہ سیکھا ہے جو میرے ہم خیال نہ تھے۔ اختلاف الرائے کا تعلق دوستی سے ہے دشمنی سے نہیں کیونکہ دنیا میں اتنے ہی سچ ہیں جتنے انسان۔ کینیڈا کے وزیرِ اعظم جسٹن ٹرودو کے والد پیر ٹرودو سے ایک دفعہ انٹرویو میں کسی نے پوچھا کہ آپ کو اپنی شخصیت کے کس پہلو پر فخر ہے ؟ وہ کافی دیر سوچتے رہے پھر کہنے لگے میں نے تیس برس کی عمر میں یہ جانا کہ میرا سچ ایک عام سچ ہے کوئی حتمی سچ نہیں ہے
My truth is A truth not THE truth.

میری نگاہ میں سطحی دوستی مذہب اور سیاست کے مکالمے سے کمزور ہو سکتی ہے اور گہری دوستی اور بھی مضبوط۔۔ یہ مکالمہ انفرادی سطح پر بھی ہو سکتا ہے اور معاشرتی سطح پر بھی۔ ’ہم سبُ اس کی عمدہ مثال ہے۔ یہ وہ فورم ہے جس پر لوگ بھرپور تبادلہِ خیال کرتے ہیں۔ اتفاق بھی کرتے ہیں اختلاف بھی۔ یہی وہ ماحول ہے جو معاشرے میں جمہوریت کی فضا تیار کرتا ہے۔ جمہوریت جو اختلاف ا لرائے کا احترام اور مدلل بات کرنے کی تربیت کرتی ہے۔ جمہوریت جانتی ہے کہ قلم تلوار سے اور دلیل گالی سے زیادہ طاقتور ہے۔ جمہوریت میں انسانوں سے محبت ایک اعلیٰ قدر سمجھی جاتی ہیں۔ جمہوریت میں سیاسی نمائندے عوام کی خدمت کرنے نہ کہ ان پر حمکرانی کرنے لیے چنے جاتے ہیں۔ مذہب اور سیاست پر ایک صحتمند مکالمے کے بغیر نہ گہری دوستی پروان چڑھ سکتی ہے نہ پائدار جمہوریت۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail