عدالتوں پر مقدمات کا بھاری بوجھ اور تنازعات کا متبادل حل


پاکستان میں نیا عدالتی سال حال ہی میں شروع ہوا ہے۔ لاء اینڈ جسٹس کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک کی عدالتوں میں تقریباً بیس لاکھ کیسز زیر التوا ہیں۔
ان کیسز کے حل نہ ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ کرپشن، بد انتظامی اور نا اہلی تو اظہر من الشمس ہیں ہی لیکن بنیادی سبب عدالتوں پر مقدمات کا ناقابل برداشت بھاری بوجھ ہے۔

ظاہر ہے کسی بھی معاشرے میں تنازعات سے تو مفر نہیں۔ جہاں دو انسانوں کی رائے میں اختلاف ہو گا وہاں تنازعے کی گنجأئش بھی نکلے گی۔ سوال پھریہ ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لئے آپ کرتے کیا ہیں؟ تنازعات کی عقدہ کشائی پاکستان میں ابھی تک مقدمہ بازی کی مرہون منت ہے جس کو ہر تنازعے سےنمٹنے کے لئے اولیں فوقیت دی جاتی ہے۔
انصاف کا ایک اہم تقاضا یہ ہے کہ نہ صرف ہو اور وقت پر ہو بلکہ ہوتا دکھا ئی بھی دے۔
بے وقت انصاف انصاف نہیں ہوتا، انصاف کے ساتھ مذاق ہوتا ہے۔ اگر انصاف نا قابل قبول تاخیر سے مل بھی جائے تو بقول مجاز
ع۔ اب میرے پاس تم آ ئی ہو تو کیا آ ئی ہو

اس معاملے میں پاکستان اکیلا نہیں۔ دنیا کے تقریباً ہر ملک کے عدالتی نظام کو کیس اوور لوڈ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پاکستان نے اب تک اس مسٔلے کو حل کرنے کے لئے موثٔر اقدام نہیں اٹھائے جبکہ ک ئی ملک کافی حد زیر التوأ کیسزکی بھاری تعداد کو کم کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔

سمجھ دار معاشروں میں مسائل کو حل کرنے کے لئے پہیئے کو دوبارہ ایجاد نہیں کیا جاتا بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ ایسی ہی صورت حال سے گزرنے والے دوسرے معاشروں نے انہیں کیسے حل کیا۔ اور اس سے سبق سیکھا جاتا ہے۔

مغربی ممالک میں بیس برس سے زیادہ عرصے سے جو طریق کار عدالتوں میں مقدموں کے بوجھ کو کم کرنے کے لئے اپنایا گیا ہے اس کو اے۔ ڈی۔ آر۔ یا الٹرنیٹو ڈسپیوٹ ریزولوشن کہا جاتا ہے۔ یہ طریق کار ان تنازعات کے حل کے لئے خاص طور پر بہت مقبول ہو ریا ہے جو عدالتوں سے رجوع کیے بغیر طےکیے جاسکتے ہیں۔

ویسے تو اے۔ ڈی۔ آر یعنی تنازعات کے متبادل حل کی بہت سی صورتیں ہیں لیکن عام طور پر اس اصطلاح کو مقدمات کے حوالے سے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس میں پھر مزید تقسیم اس بنا پر ہوتی ہے کہ جو متبادل آپ ڈھونڈھ رہے ہیں وہ حریفانہ ہے یا معاونانہ۔

حریفانہ اے۔ ڈی۔ آر میں آربٹریشن اور تیسرے فریق کے احکامات کی حتمی پابندی جیسے طریقے شامل ہیں۔ ان میں فریقین ایک دوسرے کو دشمن کی حیثیت سے دیکھتے ہیں اور اپنی جیت اور حریف کی ہار کے متلاشی ہوتے ہیں۔
اس کے بر عکس معاونانہ طریق کار میں، جس کو میڈایشن کہا جاتا ہے، فریقین ایک دوسرے کوحریف کے طور پر نہیں بلکہ ایک شریک کار کے طور پر دیکھتے ہیں اور آپس میں تعاون کے ساتھ تنازعے کا حل ڈھونڈتے ہیں۔

میڈایشن میں دشمن دوسرا فریق نہیں ہوتا بلکہ در اصل وہ مسئلہ ہوتا ہے جو ان فریقین کو، یا میڈایشن کی زبان میں، ان پارٹنرز کو درپیش ہوتا ہے۔ میڈایشن ایک ایسےتیسرے مصالحاتی فریق کی وساطت سے کی جانی ہے جو بلکل غیر جانبدار ہو اور تنازعے کے ممکنہ حل سے اس کی کسی قسم کی ذاتی غرض وابستہ نہ ہو۔

عدالتی کارروائی کے حوالے سے میڈایشن ایک انقلابی طرز فکر ہے۔ قارئین میں اکثر اپنے حلقہ احباب میں ایسے لوگوں کو جانتے ہوں گے جن کی زندگیاں مقدمہ بازی نے برباد کر دی ہیں۔ دو دو، تین تین نسلوں کا ایک مقدمے میں ملوث رہنا کوئی اچنبھے کی بات نہیں سمجھی جاتی۔ پچھلے سال ہی ایک خبر آئی تھی کہ ایک مقدمے کا فیصلہ ہونے میں پوری ایک صدی لگی۔ بہت سے مدعی فیصلے کا انتظار کرتے کرتے اللہ کو پیارے ہوجاتے ہیں۔

میڈایشن کی بنیادی شرط یہ ہے کہ فریقین خلوص اور راستبازی سے انصاف چاہتے ہوں اور اس کے لئے ایک دوسرے سے تعاون کے لئے تیار ہوں۔ اگر یہ شرط پوری ہو جائے تو تنازعات کا میڈایشن سے زیادہ موثر اور کوئی متبادل حل نہیں ہے۔

میں اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر کینیڈا کے بارے میں وثوق سے کہ سکتا ہوں کہ صرف دو دہائی پہلے، عدالتی ریفارم سے قبل، یہاں کی عدالتوں میں بھی زیر التوا کیسز کے پہاڑ لگے ہوتے تھے۔
اے۔ ڈی۔ آر اور خاص طور پر میڈایشن کے طریق کار کو اپنانے کے بعد یہاں کی عدالتوں کے کیس لوڈ میں نمایاں کمی آ ئی اورایسے کیسز بھی عدالتوں کے سامنے آنے کم ہو گئے جن کو اے۔ ڈی۔ آر کے ذریعہ حل کیا جا سکتا تھا۔

کینیڈا میں ایک حکومتی ادارے میں اے۔ ڈی۔ آر کی ںظامت کے دوران اور بعد میں میڈایشن پریکٹیشنر کے طور پر مجھے وکلا اور ججز کو میڈایشن کی ٹریننگ دینے کا موقع ملا۔ اس دوران اے۔ ڈی۔ آر کےحوالے جو اہم بات میرے مشاہدے میں آئی وہ یہ تھی کہ بہت سے وکلا نے بنیادی ٹریننگ کے بعد مقدمہ بازی کو ثانوی پریکٹس بنا لیا اور میڈایشن میں سپیشلایز کر کے اسی مالی اور پیشہ ورانہ کامیابی سے پریکٹس جاری رکھی جیسی میڈایشن سے پہلے تھی۔ فرق صرف یہ پڑا اس نئے رول میں انہوں نے اپنے کام کو زیادہ پر معنی اور تسلی بخش پایا۔ انہیں یوں لگا کہ وہ صرف کیس نہیں لڑ رہے بلکہ انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں۔

اسی طرح بہت سے ججز بھی میڈایشن کی بنیادی ٹریننگ کے بعد، اپنے ایما پر، عدالتوں میں وکلا اور فریقین کی حوصلہ افرائی کرنے لگے تاکہ وہ کیسز جو اے۔ ڈی۔ آر سے حل ہو سکتے ہوں مقدمہ بازی کے چکروں میں نہ پھنسیں۔ بجائے اپنا حکم صادر کرنے کے وہ فریقین کو ایسے فیصلے پر پہنچنے میں مدد دیتے ہیں جس کی تخلیق میں دونوں پارٹیاں اہم کردارادا کرتی ہیں۔ ایسے سمجھوتے میں نہ کسی کی مکمل فتح ہوتی ہے نہ کوئی مکمل شکست سے دو چار ہوتا ہے،
ع۔ گر جیت گئے تو کیا کہنا ہارے بھی تو بازی مات نہیں

پاکستان میں نیا عدالتی سال شروع ہونے کے بعد سے زیر التوا کیسز کے بارے میں جو شور مچ رہا ہے اگر حکومت اور عدالتی ادارے واقعی سنجیدہ ہیں اور اس مسئلے کو معنی خیز طریقے سے حل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں کم از کم وہ کام بلا تاخیر کرنے ہوں گے جن کے لئے نہ بہت بڑے بجٹ کی ضرورت ہے اور نہ ہی بہت طویل وقت درکار ہے۔

سب سے پہلے تو لاء اینڈ جسٹس کمیشن کی وساطت سے پالیسی بننی چاہیے کہ وہ تمام مقدمات جن کو میڈایشن سے حل کیا جاسکتا ہے ان پر مزید قانونی چارہ جوئی صرف اس وقت ہو جب میڈایشن ان کے حل میں ناکام ہو جائے۔

اسی دوران موزوں متعلقہ اداروں کو ہدایات جاری ہونی چاہیٔں کہ وہ اے۔ ڈی۔ آر اور میڈایشن کی ٹریننگ کے مختلف یونیورسٹیوں سے منسلک سرٹیفیکیشن پروگرامز کا آغاز کریں جو وکلا اور ججز کے لیٔے کریش کورسز اور میڈایٹرز کے لئے پریکٹیشنرز کے لائسنس فراہم کرسکیں۔

یہ تو حکومت اور عدالتی اداروں کی چند ذمہ داریاں ہیں، لیکن سب سے بڑی ذمہ داری عام شہری پر عاید ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ کسی بھی تنازعے کے حل کے لئے باہمی صلح جو ئی کو پہلا موقع دیں اور عدالت سے صرف اس وقت رجوع کریں جب مصالحت کے باقی تمام راستے مسدود ہو چکے ہوں۔

یہ سوچ صرف ہوا میں قلعے بنانے کے مترادف نہیں۔ بہت تھوڑے خرچ اور بہت کم وقت میں عدالتوں پر یہ بوجھ گھٹ سکتا ہے اوروہ اپنی کارکردگی بہتر کرنے پر پوری توجہ مرکوز کر سکتی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اور انصاف کے تقاضے پورے کرنے والے ادارے صرف نعرہ بازی کر رہے ہیں یا ان میں اتنی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو وقت پر انصاف دلانے کے لئے جو کام فوری طور پر ہو سکتا ہے کم از کم اس کا آغاز تو کردیں۔
(اختتام)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).