گندگی کو دہلی کے مسلمانوں کی پرسنل لائف سمجھا جاتا ہے


سچی بات تو یہ ہے کہ جتنی بجلی کی کھپت ان اشتہارات کو شو کرنے یا روشنی میں نہلانے کے لیے ہوتی ہے۔ اتنی بجلی تاریک گلیوں یا کمیونٹی اداروں میں فراہم کی جائے تو حکومت کو بنا اشتہارات ہی کے عزت و شہرت مل جائے۔ مانا کہ سیاسی اشتہارات کی دوڑ میں سیاسی پارٹیاں اور خود موجودہ حکومت بھی برانڈ کے طرز پر کام کرتی ہے، لیکن برانڈ کمپنیاں بھی اس حد تک بے شرمی اور اسراف نہیں کرتیں جتنا کہ یہ سیاسی رہ نما‘‘۔

کچھ ایسے ہی حالات و مناظر کو دیکھ کر حیدر آباد دکن کے مشہور تاجر و قلم کار علیم خان فلکی نے اپنے بلاگ ”سفرنامہ ؛ دلی کہاں است ” میں لکھا کہ ”اوکھلا، ذاکر نگر اور جامعہ ملیہ وغیرہ میں پتا نہیں چلتا کہ پہلے گندگی کو بسانے کی پلاننگ کی گئی یا پہلے مسلمانوں کو بسنے کا موقع دیا گیا۔ یہاں کے لوگ صبر ایوارڈ دیے جانے کے لائق ہیں۔

بالخصوص بارش کے موسم میں جب گندے نالے اور بارش کا پانی ایک ساتھ مل کرسڑک پر گنگا جمنی تہذیب کی طرح اتحاد سے بہتے ہیں تو پتا نہیں لوگ سانس کس طرح لیتے ہیں۔ ایک صاحب سے ہم نے پوچھا، آپ کی ناک کس طرح یہ بد بو برداشت کر لیتی ہے، انھوں نے پوچھا، یہ ناک کہاں ہوتی ہے۔ اتفاق سے ملک کی سرکردہ دینی اور ملّی جماعتوں کے مراکز بھی انھی علاقوں میں ہیں، اسی لیے حکومت بھی یہاں کی گندگی کو مسلمانوں کے پرسنل لائف کی طرح کا ایک داخلی معاملہ سمجھتے ہوئے بالکل دخل اندازی نہیں کرتی۔

البتہ کبھی انکاؤنٹر یا دہشت گردی کی کسی اِسٹوری کی شوٹنگ کرنی ہوتی ہے، تو ادھر آ جاتی ہے کیونکہ بٹلہ ہاوس جیسے علاقوں میں شوٹنگ سے فلم بہت ہِٹ ہوتی ہے۔ چوں کہ اب آبادی ہزاروں گنا بڑھ چکی ہے، زمانہ ترقی کر رہا ہے اس لیے ان علاقوں کو اب مغلیہ انتظامیہ سے نکال کر شیلا دکشت کے انتظامیہ کے تحت لانے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ محترمہ نے جو نئی دہلی کو ترقی دی، وہ واقعی قابلِ تعریف ہے۔ لگتا ہے آپ یورپ یا امریکا ہی کے کسی شہر میں پہنچ گئے ہوں۔ یہ عجیب معاملہ ہے جو اب حیدر آباد میں بھی دیکھنے میں آ رہا ہے کہ صاف ستھرے علاقوں میں باہر سے آ کر بسنے والے رہیں اور اصل شہری انھی تنگ و تاریک و متعفن پرانے علاقوں میں رہیں جنھیں ان کے آبا و اجداد نے بسایا تھا۔ “

یہ صرف علیم خان کی بات نہیں ہے اس بارے میں اور بھی بہت سارے لوگ لکھتے ہیں اور حکومتی ذمہ داران کو حقیقت سے آگاہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر حکومتی ذمہ داروں کے کان پر جوں بھی نہیں رینگتی؛ بلکہ الٹا یہ کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے کہ۔ ”مسلمانوں کا کام ہی ہے صرف رونا، یہ اُن کی عادت بن چکی ہے۔‘‘ اب انھیں کون بتائے کہ ہم واقعی میں ہمیشہ روتے رہتے ہیں یا درد اور تکلیف سے کراہتے ہیں۔ بقول شاعر:
میں رونا اپنا روتا ہوں تو وہ ہنس ہنس کے سنتے ہیں
انھیں دل کی لگی اک دل لگی معلوم ہوتی ہے

خیر وہ تو ایک مسلمان کا تجزیہ تھا کچھ غیر مسلم دوستو ں کے تجزیے کو بھی دیکھ لیں۔ ’گوپال پرساد‘ اپنے بلاگ”سمپرن کرانتی “میں ’زہریلی ہو چکی ہے دہلی کی آب و ہوا‘ میں لکھتے ہیں ”دہلی میں جہاں جہاں لینڈ ہیں، وہاں زیر زمین پانی زہریلا ہو چکا ہے۔ پینا تو دور یہ دوسرے کاموں کے قابل بھی نہیں رہ گیا ہے۔ اس سے اٹھتی بو اور گندگی کی وجہ سے ارد گرد کے لوگوں کا سانس لینا بھی دوبھر ہے۔ فضائی آلودگی کی سطح خطرے کو پار کر چکی ہے۔ ان تمام کے باوجود لینڈ فل کے مسئلے سے مستقل طور پر نجات حاصل کرنے کے لیے نہ تو دہلی حکومت کے پاس کوئی منصوبہ ہے اور نہ ہی دہلی میونسپل کارپوریشن کے پاس“۔ وہ آگے لکھتے ہیں: ”دہلی کے اوکھلا اور غازی پور لینڈ فل سائٹ کے ارد گرد آباد لوگوں کی زندگی جہنم بن چکی ہے‘‘۔

کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل آف انڈیا (کیگ) کی ہندوستان میں ویسٹ مینیجمنٹ نامی رپورٹ میں دہلی کے بھلسواں اور اوکھلا لینڈ فل کے ارد گرد زیر زمین پانی کا ٹی ڈی ایس (ٹوٹل ڈزالو سولڈ) مطلوبہ حد سے 800 فی صد زیادہ ہے۔ اس کی وجہ سے زمین کا بھاری پن مقررہ حد سے 633 فی صد زیادہ ہو چکا ہے۔ اس لینڈ فل کے کیچڑ کا تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ پانی کا ڈی ڈی ایس مناسب حد سے 2000 فی صد زیادہ ہے اور اس کا کھارا پن 533 فی صد زیادہ۔ پانی میں کلورائڈس کی ضرورت کی حد فی لیٹر 250 ملی گرام کے مقابلے میں فی لیٹر 4100 ملی گرام ہے۔ اوکھلا لینڈ فل سائٹ کا ٹی ڈی ایس ضرورت کی حد سے 244 فی صد زیادہ ہے۔ زمینی پانی زہریلا ہو چکا ہے۔ ان لینڈ فلوں کے ارد گرد کی ہوا کا معیار بھی تباہ ہو چکا ہے۔ اس کے ارد گرد کے علاقے کی فضائی آلودگی خطرے کی سطح کو کبھی کی پار کر چکی ہے“۔

ایک اور بلاگر ’نلیما‘ کے ” واد سمواد“ نامی بلاگ آنکھ کی کر کری کالم کے تحت شایع مضمون ’گزریے بھوک، ہوس اور گندگی کے مارکیٹ سے۔ زرا دامن بچا کے‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک قاری کملیش مدان لکھتے ہیں ”آگرہ سے دہلی کی طرف آنے پر جب حضرت نظام الدین کے نالے کے اوپر سے گزرتے ہوئے دہلی میں داخلہ ہوتا ہے، تو وہاں صاف دکھائی دیتا ہے کہ لوگوں اور اس نالے پر رہنے والے جانوروں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ آگے بڑھنے پر اوکھلا کے شارٹ کٹ پر ریلوے کے کنارے رفع حاجت، نشہ کرتی نوجوان غریب نسل جو شائننگ انڈیا کو شرم سار کرتی ہے۔ وہیں خود کے نئی دہلی ریلوے اسٹیشن سے پہلے جب لوکل ٹرین رکتی ہے تو آپ دیکھیں گے کہ کس کس طرح کے لوگ پٹریوں کے کنارے اسموکنگ، شراب نوشی کرتے ہوئے عجیب و غریب حالات میں ملتے ہیں“۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 167 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah