گندگی کو دہلی کے مسلمانوں کی پرسنل لائف سمجھا جاتا ہے
اس مضمون کو لکھنے سے پہلے میں نے کئی علاقوں کا دورہ کیا، لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور ان کے مسائل جاننا چاہے۔ تو انھوں جو باتیں بتائیں وہ خون کے آنسو رلا دینے والی تھیں کسی کا کہنا تھا کہ گندگی اتنی ہے کہ میری بچیوں کے رشتے نہیں لگ رہے، لوگ واپس لوٹ جاتے ہیں، ایک اور شہری کا رونا تھا کہ ڈائریا (پیچش)کی وجہ سے میرے جواں سال بیٹے کا انتقال ہو گیا، ایک اور شہری کی دُہائی تھی کہ اس علاقہ میں کوئی ایسا بندہ نہیں ہوگا جسے کچھ نہ کچھ بیماری نہ ہو۔ ایک اور صاحب کا کہنا تھا کہ مسجد کو جاتے ہوئے ہمیشہ اس بات کا کھٹکا لگا رہتا ہے کہ کہیں کپڑے ناپاک نہ ہو جائیں۔ ہر زبان پر ایک الگ کہانی تھی۔ کن کن کا ذکر کروں، میرے قلم میں اتنی تاب بھی نہیں ہے۔
پڑھے لکھے لوگوں سے بات کی تو ان کی الگ داستانیں تھی۔ کسی کو جاب نہ ملنے کی شکایت تو کسی کو علاقے میں بہتر اسکول نہ ہونے کا شکوہ۔ کئی لوگوں نے بتایا کہ حق اطلاعات ایکٹ کے تحت پوچھے جانے والے سوالات کا بھی گول مول جواب دیا جاتا ہے۔ لوگوں کی یہ بھی شکایت تھی کہ صفائی ملازمین کوئی آٹھ دس دنوں میں ایک بار آ کر محض خانہ پری کر جاتے ہیں، ہم لوگوں کے لاکھ کہنے پر وہ نہیں مانتے۔ اِضافی رقومات کا مطالبہ کیا جاتا ہے وہ بھی پورا کر دیا جائے، تب بھی وہ وقت پر نہیں آتے اور یوں ہفتوں ہفتوں گندگی پڑی رہتی ہے۔ نالی کی سڑاند اور تعفن کی وجہ سے آئے دن ہم نت نئی بیماریوں کے شکار رہتے ہیں؛ اشیائے خورد و نوش کی بڑھتی قیمت کے ساتھ ساتھ علاج و معالجہ ہمارے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ بہت سارے لوگ تو بات کرنے سے کترا رہے تھے، گویا خواجہ حیدر علی آتش کی زبان میں وہ کہنا چاہ رہے ہوں۔
چراغِ بزمِ ستم ہیں ہمارا حال نہ پوچھ
جلے تھے شام سے پہلے بجھے ہیں شام کے بعد
اس سلسلے میں حکومتی ذمہ داران سے بات کی جائے تو وہ مختلف حیلوں بہانوں سے خود کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں اور ساری ذمہ داری ایجنسیوں اور متعلقہ اداروں کی بے پروائی پر ڈال دیتے ہیں؛ وہیں جب عوام سے بات کی جائے تو وہ حکومت کی ان دیکھی اور عصبیت پرستانہ رویوں کا رونا روتے ہیں۔ ظاہر ہے ایسے گندگی پھیلنے اور پھیلانے کے لیے جہاں ریاست کے عوام کو بری نہیں کیا جا سکتا، وہیں ریاستی حکومت اور مقامی بلدیہ اور حکومت کے محکمہ صحت کو بھی راست طور پر ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ لیکن یہاں پر سوال اٹھتا ہے کہ کیا مقامی انتظامیہ، میونسپل ادارے، اور دیگر ایجنسیاں گندگی کے اس انبار اور بیماری کی جڑ کے خلاف ایک وسیع مہم نہیں چھیڑ سکتیں؟ نالی اور نالوں کی صفائی کو لے کر کیا وسیع مہم نہیں چلائی جا سکتی؟ جس سطح پر وزیر اعلی کی دیگر علاقوں پر نوازشات ہیں اسی سطح پر اگر ان علاقوں میں بھی حفظان صحت کے لیے بیداری کی مہم چلائی جائے تو انھیں کام یابی نہیں ملے گی؟
لیکن سچ تو یہ ہے کہ حکومت نے جان بوجھ کر آنکھیں پھیر لی ہیں، اگر کسی کو واقعی نیند آ جائے تو اسے جگایا اور بیدار کیا جا سکتا ہے، لیکن اگر کوئی جان بوجھ کر آنکھیں موند لے تو اسے کبھی بھی بیدار نہیں کیا جا سکتا۔ یہی احوال حکومت کا ہے۔ وہ چاہتی ہی نہیں یہاں کے مسائل حل کرنا، ورنہ یہ صورت احوال نہ ہوتی، لوگ خون کے آنسو نہ رو تے، بوڑھے کم زور اور ضعیف افراد اپنی تقدیر کو کوسنے کے علاوہ منتظمین، حکومت اور اداروں کو برا بھلا نہ کہہ رہے ہوتے۔ افسوس تو اس بات کا بھی ہے کہ اس علاقے کے مکینوں کو بھی اس کی فرصت نہیں کہ وہ نا انصافی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں او ر اپنے حقوق چھین سکیں۔ ظاہر سی بات یہ ہے کہ جب بنیادی اور لازمی سہولیات کے فقدان کے باوجود عوام کا ایک بڑا طبقہ ذہنی طور پرکسی بیداری مہم کا حصہ بننے کو تیار نہ ہو، تو چند مٹھی بھر بیدار لوگ کر بھی کیا سکتے ہیں؟
- کراچی میں ایک دوست کے نام دہلی سے مکتوب - 21/04/2024
- مسلمانوں کی سماجی صورت حال: غور وفکر کے بعض پہلو - 20/04/2024
- فرقہ واریت:ترقی پذیر ہندوستان کا ناسور! - 01/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).