حسن اور شباب کی تباہ کاریاں


مرحوم مسٹر رنگا آئر ممبر مرکزی اسمبلی میرے ہاں مقیم تھے۔ میں ان کو اور دو تین دوستوں کو ساتھ لے کر میرٹھ گیا۔ وہاں ہم لوگوں نے شام کو ان جرنلسٹ دوست کے ہاں کھانا کھایا۔ کھانا کھانے کے بعد ہم کنک منڈی کے قریب ایک بہت اچھا گانے والی طوائف کے ہاں گئے۔ یہ طوائف بہت اچھا گاتی تھی۔ عمر بھی پنتالیس پچاس برس کے قریب تھی۔ سیاہ رنگ اور کافی حد تک بدصورت۔ مگر اس کی لڑکی بہت خوبصورت تھی۔ اس کی عمر سولہ سترہ برس کے قریب، رنگ گورا، اور موسیقی کے اعتبار سے قطعی جاہل۔ ہم وہاں جب پہنچے، تو دیکھا، ماں تو گا رہی ہے، اور بیٹی اس کے قریب بٹیھی ہے۔ اور جو لوگ وہاں موجود ہیں، ا ن کو گانے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، اور سب کی آنکھوں کا مرکز بیٹی ہی ہے۔ ہم ایک گھنٹہ کے قریب اس طوائف کا گانا سنتے رہے۔

اس نے رات کا راگ دیس اور بعد میں درگا گایا، اور بہت اچھا گایا۔ کیونکہ گانے والے یا گانے والی کو جب یہ احساس ہو، کہ اس کے گانے کی قدر کی جا رہی ہے، تو موسیقار پورے شوق سے گاتا ہے۔ میں چند ماہ پہلے بھی اس طوائف کا گانا سن چکا تھا اور مجھے علم تھا، کہ اس کی بیٹی مو سیقی کے فن سے ناواقف ہے، تو میں نے ایک قسم کی شکایت کرتے ہوئے اس طوائف سے کہا:۔ ” آپ تو بہت اچھا گاتی ہیں۔ آپ نے اپنی بیٹی کو اس قابل قدر فن سے محروم رکھا۔ یہ لڑکی بھی اگر محنت کرتی، اور کسی اچھے استاد سے سیکھتی، تو اپنی زندگی میں کامیاب ہوتی“۔

میری اس شکایت یا شکوہ کو سن کر اس طوائف نے جو جواب دیا، وہ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے۔ اس نے کہا:۔
”سردار جی، گانا تو بد صورت طوائفوں کی قسمت میں لکھا ہے۔ خوبصورت لڑکیوں کو چاہنے والوں سے کہاں فرصت ہے، کہ وہ اس فن کی ریا ضت کریں“۔ اس طوائف کے اس مختصر سے جواب کا مطلب یہ تھا، کہ حسن و شباب طوائفوں کے لئے بھی خود تباہ ہونے اور دوسروں کو تباہ کرنے کا باعث ہوتا ہے۔ یہ اپنے چاہنے والوں کے نرغہ میں موسیقی میں محنت نہیں کرتیں، اور اپنے چاہنے والوں کے گھر کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتی ہیں۔

حسن اور شباب کی تباہیوں کے سلسلہ میں ایک واقعہ تو بے حد دلچسپ ہے۔ مرحوم مہاراجہ پٹیالہ نے جب راقم الحروف پر کئی مقدمات قائم کیے، اور آپ ان تمام میں ہی ناکام رہے، تو مہاراجہ کو ان کے ایک ” جنسی مشیر“ نے مشورہ دیا، کہ کوئی بہت خوبصورت اور نوجوان لڑکی دیوان سنگھ کو پھنسانے کے لئے دہلی بھیجی جائے اور یہ دانہ پھینک کر دیوان سنگھ کا شکار کیا جائے۔ یہ تجویز عرصہ دراز تک زیر غور رہی۔ مگر اس پر اس لئے عمل نہ کیا گیا، کہ مہاراجہ جانتے تھے، کہ میں کافی ہوشیار ہوں، اور اس طریقہ سے پھنسایا نہ جا سکوں گا۔

لندن کا باتصویر رسالہ ” ٹیٹلر“ بہت اچھی کوالٹی کے آرٹ پیپر پر شائع ہوتا ہے، اور اس کی تصاویر کا دوسرا کوئی رسالہ مقابلہ نہیں کر سکتا۔ یہ رسالہ باقاعدہ طور پر میں ہر ہفتہ خریدتا۔ جب انگلستان کے باد شاہ کنگ ایڈورڈ نے تاج و تخت کو حسن و شباب کی چوکھٹ پر قربان کر دیا، اس رسالہ میں کنگ ایڈورڈ کی بہت ہی خوبصورت کئی رنگ میں ایک تصویر اس رسالہ میں سے کاٹ کر اور فریم میں لگوا کر اسے اپنے کمرے کی دیوار پر لگا دیا۔ کیونکہ کنگ ایڈورڈ کے لئے اس کے تاج و تخت کو چھوڑنے کے بعد میرے دل میں انتہائی عزت و احترام اور قدر کے جذبات پیدا ہو چکے تھے۔ ایک روز ایک محب الوطنی اور انارکسٹوں سے تعلق رکھنے والے لاہور آئے۔ وہ انگلستان کے اس بادشاہ کی تصور کو میرے کمرہ کی دیوار پر لگے دیکھ کر بہت حیران ہوئے، کیونکہ وہ میرے خیالات اور ” ریاست“ کی حب الوطنی کی پالیسی سے واقف تھے۔ میں نے ان کے تعجب اور حیرانی کے جذبات کو دیکھ کر کہا:۔

” یہ تصویر اس دیوتا یا فرشتہ کی ہے، جس نے حسن و شباب کی چوکھٹ پر برطانیہ کے تاج و تخت کو قربان کر دیا۔ اور سورج غروب نہ ہونے والی سلطنت کی باد شاہت کو چھوڑ کر اس سلطنت سے جلاوطن ہونا قبول کر لیا“۔

میرا یہ جواب سن کر یہ دوست سکتہ کی حالت میں تھے۔ کوئی جواب نہ دے سکے، اور ایک آہ بھر کر کئی منٹ تک خاموش رہے۔ کیونکہ انہوں نے محسوس کیا، کہ حسن و شباب کی تباہیوں کا حلقہ صرف عام لوگوں تک ہی محدود نہیں۔ یہ تباہیاں بادشاہوں، اور سلطنتوں تک بھی وسیع ہو سکتی ہیں۔

حس و شباب ویسے تو عام طور پر تباہی کا باعث ہے، مگر ان کی یاد بھی کم تکلیف دہ نہیں۔ میں ہر قسم کی عورتوں سے بہت باتیں کیا کرتا ہوں، تاکہ عورت کی ذہنی کیفیت یعنی سائیکالوجی کے اعتبار سے معلومات حاصل کی جائیں۔ میں نے سینکڑوں ہی طوائفوں اور نوجوان لڑکیوں سے بھی طویل عرصہ تک باتیں کی ہیں، اور اس مسئلہ پر ایک کتاب بھی لکھنا چاہتا ہوں۔ اس سلسلہ میں ایک معمر خاتون سے باتیں کرنے کا اتفاق ہوا، جو اپنے شباب کے زمانہ میں بہت ہی خوبصورت تھی۔ اس سے اس بے چاری کے شباب کے زمانہ کی باتیں ہو رہی تھیں، تو اس نے باتوں باتوں میں آہ بھرتے ہوئے کہا:۔
” کیا پوچھتے ہو۔ میں جب جوان تھی، اور کبھی بازار میں نکلتی، تو دکانوں پر بیٹھے ہوئے نوجوان ایک دوسرے کو کہنیاں مارتے ہوئے کہا کرتے، کہ دیکھو وہ جا رہی ہے“۔

یعنی حسن و شباب اپنے عروج کے زمانہ میں تو تباہی خیز ہوا کرتا ہی زمانہ گزرنے کے بعد اس کی یاد بھی تکلیف دہ ہے۔ پنجاب (پاکستان ) اور پنجاب (ہندوستان ) میں قتل کے جتنے واقعات ہوئے ہیں، ان میں سے نوے فیصدی کی تہہ میں حسن و شباب کی فتنہ انگزیاں ہیں۔ اور ان فتنہ انگزیوں کو دیکھ کر ہی پنجابی زبان کے ایک شاعر نے کہا۔
گورا رنگ نہ ربا کسے نوں دیویں
سارا پنڈ ویر پا لیا
( خدا کسی کو حسن اور شباب نہ دے، جو تمام کے تمام گاؤں کو ہی دشمن بنانے کا باعث ثابت ہو)

حسن و شباب میں ایک ایسی کشش ہے، جو بیان نہیں کی جاسکتی، جو انہتائی تباہی کا باعث ہے۔ اور اگر حسن و شباب کی نعمت ہونے کے بعد حاصل کرنے والا اپنے اور دوسرے کے لئے تباہی کا باعث نہ ہو، تو پھر اسے انسان نہیں کہا جا سکتا۔ وہ تو پھر انسان سے بہت ہی بلند ہے، جسے فرشتہ کہنا چاہیے۔

دیوان سنگھ مفتوں

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

دیوان سنگھ مفتوں

سردار دیوان سنگھ مفتوں، ایڈیٹر ہفتہ وار ”ریاست“ دہلی۔ کسی زمانے میں راجاؤں، مہاراجوں اور نوابوں کا دشمن، ان کے راز فاش کرنے والا مداری، صحافت میں ایک نئے خام مگر بہت زور دار انداز تحریر کا مالک، دوستوں کا دوست بلکہ خادم اور دشمنوں کا ظالم ترین دشمن۔ سعادت حسن منٹو کے الفاظ۔

dewan-singh-maftoon has 26 posts and counting.See all posts by dewan-singh-maftoon