میدانِ کربلا میں خواتین کا کردار



مضمون نگار: نبیحہ ارشد سعید (لاہور)

arshadsaeed263@gmail.com
اسلام نے خواتین کوبہت بلند مقام سے نوازا ہے۔ اسلام کی آمد کے ساتھ ہی عورت کو وہ حقوق مل گئے تھے جنھوں نے عورت کے اندر برابری اور فخر کے احساس کو پیدا کیا اور اسے
نا قابلِ تسخیر بنا دیا۔ خواتین نے اس دنیا میں ہونے والی تمام تحریکوں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اسلامی تاریخ کے دقیق مطالعے سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ بہت سی مومنہ اور فدا کار خواتین گزری ہیں جنھوں نے سیاسی اور اجتماعی امور میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ اولاد کی صحیح تربیت کرنے کے علاوہ خود بھی مردوں کے شانہ بشانہ دین اور معاشرے کی اصلاح کی ہے۔
عظیم پیغمبروں کے واقعات پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہو گا کہ خواتین کا کرداربہت مؤثر رہا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کی تاریخ حضرت ہاجرہؑ کے بغیر نامکمل ہے۔ حضرت عیسی ؑ کا نام مریم ؑ کے بغیر نہیں آتا۔ ہمارے پیارے نبی اکرم ﷺ کے ساتھ حضرت خدیجہ ؓ کی قربانی دکھائی دیتی ہے۔ اس کے علاوہ حضرت فاطمہ ؓ بھی ہر مشکل میں ، ہر جگہ اپنے والد بزرگوار اور اپنے شوہر ِ نامدار حضرت علیؓ کے ساتھ ساتھ نظر آتی ہیں۔
واقعہ ٔ کربلا نے انسانیت کو سرخ رو کرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی اقدار کو حیاتِ نو بخشی ہے۔ اس عظیم اور بے مثال جنگ میں جہاں پر مولا امام حسین ؑ کے باوفا، بہادر فرزندان اور اصحاب کے بے نظیر کردار موجود ہیں ، وہاں پر خواتین کی بے مثل قربانیوں سے انکار ناممکن ہے۔ جس کو تاریخ نے ہمیشہ سنہری حروف میں لکھا ہے۔ ان مثالی خواتین نے باطل کے مقابل اپنے معصوم بچوں کو بھوک پیاس کی شدت سے بلکتا ہوا دیکھنا گوارا کیا، لیکن دینِ اسلام کی کشتی کو ڈوبنے نہیں دیا۔
واقعہ ٔ کربلا کومنزلِ مقصود پر پہنچانے کے لیے خواتین کے کئی بے نظیر و لاثانی کردار ہیں۔ یہ جملہ مبالغہ آرائی کے زمرے میں نہیں آئے گا کہ حادثۂ کربلا میں اگر یہ عظیم خواتین نہ ہوتیں تو حضرت امام حسین ؑ کا مقصدِ قربانی ادھورا ہی رہ جاتا۔حضرت امام حسین ؑ اپنے ساتھ رہتی دنیا تک تربیت کرنے والی مثالی خواتین کو لے کر مدینے سے نکلے تھے۔کربلا کی ان بہادر خواتین نے اپنے عمل سے یہ ثابت کر دکھایا کہ نواسۂ رسولؐ کربلا میں خواتین کو بے مقصد نہیں لائے تھے۔
کسی بھی تحریک کے پیغام کو عوام تک پہنچانا بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ کربلا کی تحریک کے پیغام کو عوام تک کربلا کی اسیر خواتین نے پہنچایا ہے۔جناب زینبؓ کے بے مثل کردار اور قربانیوں سے تاریخ کربلا روشن نظر آتی ہے۔آپ فصاحت و بلاغت میں اپنی مثال آپ تھیں۔کربلا معلی میں اور عاشورہ کے بعد آپؓ کا کردار نمایاں ہے۔عصرِ عاشور تک کربلا کی قیادت نواسۂ رسولؐحضرت امام حسین ؓ نے کی تھی تو عصر ِ عاشور کے بعد اس تحریک کی روحِ رواں ثانی ٔ زہرہؑ بن گئیں۔ ثانی ٔ زہرہؑ نے شام ِ غریباں سے شروع ہونے والی اپنی اس ذمہ داری کو بخوبی نبھایا۔
چاہے کربلا کی شامِ غریباں ہو یاکوفہ و شام کے بازار و دربار ۔ آپ نے ہر جگہ دشمنوں کی سازشوں اور اپنے بھائی کے مقصدِشہادت کو کُھل کر بیان کیا۔ آپ ؓ نے نہ صرف اسیران ِ کربلا کے قافلے کی حفاظت اور قیادت کی بلکہ اپنے خطبات سے اہلِ کوفہ و شام کے سامنے یزیدیوں کی حقیقت کھول کر رکھ دی ۔ آپ نے اپنے بابا فاتح خیبر کے لہجے میں خطبے دے کر ظلم کے ایوانوں پر لرزہ طاری کر دیا اور جو یہ سمجھتے تھے کہ انہوں نے مظلوم کربلا کو شہید کر کے اپنے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ دور کر دی ہے تو حیدر ِ کرار کی شیر دل بیٹی نے ان کی یہ غلط فہمی دور کر دی۔
امام حسین ؑ کے اہداف کو مختلف مقامات پر خاص طور سے دربارِ یزید میں اسلامی ملکوں کے نمائندوں کے درمیان ضمیروں کو جھنجھوڑ دینے والا بے نظیر خطبہ دینا اور بنی اُمیہ کی حکومت اور اس کے افکار کو زمانہ بھر کے سامنے رسوا کر دینا۔ یقینا یہ دلیری اور شجاعت فقط عقیلہ بنی ہاشم جناب زینبؓ کے ساتھ مختص ہے۔دین داری کی یہ حالت تھی کہ اتنے سخت حالات میں بھی نمازِ شب کو نہیں بھلایا اور حالتِ اسیری میں بھی نماز کی ادائیگی ترک نہ کی ۔ اس طرح سب پر نماز کی اہمیت بھی واضح کی اور یہ بھی ثابت کر دیا کہ جنہیں باغی قرار دے کر شہید کر دیا گیا وہ اسلام کے اصل وارث تھے۔ اس کے بعد بازاروں اور درباروں میں دئیے گئے خطبات بھی تاریخ کے سنہرے ابواب ہیں ۔
حدیث عشق دو باب است کربلا و دمشق
یکی حسین رقم کر د و دیگری زینب

حضرت زینبؓ کے علاوہ اور بھی خواتین کربلا کے میدان میں اپنا کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں ۔ ان میں حضرت ام کلثوم ؓ، حضرت رقیہ بنت الحسین، حضرت سکینہ بنت الحسین، حضرت فضہ، جناب رباب، جناب رملہ، جناب لیلیٰ، ام وہب، بحریہ بنتِ مسعود خزرجیہ، ہانیہ وہاب کی منکوحہ۔ ان سب خواتین میں کمسن ترین حضرت سکینہ تھیں۔ جو کربلا کے میدان میں پیاس سے بلبلا اُٹھیں اور جامِ شہادت نوش کیا ۔ باقی خواتین کے اعمالِ حُسنہ اور جدوجہدِ عملی بھی ہمارے لیے مشعل ِ راہ ہیں۔ حضرت زینب ؓ کا وہ خطبہ بہت اہمیت کا حامل ہے جو دربارِ یزید میں ببانگِ دہل دیا گیا۔آپ ؓ نے اپنے بھائی امام حسین کا خون آلود سر دیکھا تو ان کی غم ناک فریاد سے سارا دربار دہل گیا۔ ویسے تو خطبے کے تمام نکات نہایت اہم ہیں مگر
تحریر کی مناسبت سے چند ایک کا ذکر کیا جا رہا ہے۔
’’ یزید اپنے غرور میں مست تھا اور یہ اشعار بلند آواز سے پڑھ رہا تھا۔
ترجمہ :کاش کہ میرے وہ بزرگ جو جنگ بدر میں قتل کر دیئے گئے تھے وہ آج ہوتے اور دیکھتے کہ کس طرح قبیلہ خزرج نیزہ مارنے کی بجائے گریہ و زاری میں مشغول ہیں۔اس وقت وہ خوشی میں فریاد کرتے اور کہتے :اے یزید! تیرے ہاتھ شل نہ ہوں‘‘۔
یہاں پر حضرت زینبؓ کبری کھڑی ہو گئیں اور بہترین خطبہ ارشاد فرمایا:
’’سب تعریفیں اﷲ کے لیے ہیں جو کائنات کا پروردگار ہے اور خدا کی رحمتیں نازل ہوں پیغمبر اکرم ﷺ پر اور ان کی پاکیزہ عترت و اہلِ بیت پر۔ اما بعد ! بالآخر ان لوگوں کا انجام برا ہے۔جنہوں نے اپنے دامنِ حیات کو برائیوں کی سیاہی سے داغدار کر کے اپنے خدا کی آیات کی تکذیب کی اور آیات پروردگار کا مذاق اُڑایا۔ اے یزید! کیا تو یہ سمجھتا ہے کہ تو نے ہم پر زمین کے گوشے اور آسمان کے کنارے (مختلف طرح سے) تنگ کر دیئے ہیں اور آلِ رسول ؐ کو رسیوں اور زنجیروں میں جکڑ کر در بدر پھرانے سے تو خدا کی بارگاہ میں سرفراز ہوا اور ہم رسوا ہو رہے ہیں؟ کیا تیرے خیال میں ہم مظلوم ہو کر ذلیل ہو گئے اور تو ظالم بن کر سر بلند ہوا ہے؟کیا تو سمجھتا ہے کہ ہم پر ظلم کر کے خدا کی بارگاہ میں تجھے شان و مقام حاصل ہو گیا ہے؟ آج تُو اپنی ظاہری فتح کی خوشی میں سرمست ہے، مسرت و شادمانی سے سرشار ہو کر اپنے غالب ہونے پر اِترا رہا ہے۔ اور زمامداری(خلافت) کے ہمارے مسلّمہ حقوق کو غضب کر کے خوشی و سرور کا جشن منانے میں مشغول ہے۔ اپنی غلط سوچ پر مغرور نہ ہو اور ہوش کی سانس لے۔کیا تُو نے خدا کا یہ فرمان بُھلا دیا ہے کہ حق کا انکار کرنے والے یہ خیال نہ کریں ہم نے انہیں جو مہلت دی ہے وہ ان کے لئے بہتر ہے۔ بلکہ ہم نے انہیں اس لیے ڈھیل دے رکھی ہے کہ جی بھر کر اپنے گناہوں میں اضافہ کر لیں اور اُن کے لیے خوفناک عذاب معین کیا جا چکا ہے‘‘۔
آج تُو آلِ رسول ؐ کو قتل کر کے اپنے بد نہاد (بُرے)اسلاف کو پکار کر انہیں اپنی فتح کے گیت سنانے میں منہمک ہے۔تُو سمجھتا ہے کہ وہ تیری آواز سن رہے ہیں؟ ! (جلدی نہ کر)
عنقریب تُو بھی اپنے ان کافربزرگوں کے ساتھ جا ملے گا اور اس وقت اپنی گفتار وکردار پر پشیمان ہو کر یہ آرزو کرے گا کہ کاش میرے ہاتھ شل ہو جاتے اور میری زبان بولنے سے عاجز ہوتی ۔۔۔۔۔ اے ہمارے پروردگار! تُو ہمارا حق ان ظالموں سے ہمیں دلا دے اورتُو ہمارے حق کا بدلہ ان سے لے ۔ اے پروردگار! تُوہی ان ستمگروں سے ہمارا انتقام لے۔ اور اے خدا تُو ہی ان پر اپنا غضب نازل فرما جس نے ہمارے عزیزوں کو خون میں نہلایا اور ہمارے مددگاروں کو تہہ تیغ کر دیا۔ اے یزید! (خدا کی قسم) تُو نے جو ظلم کیا ہے یہ اپنے ساتھ ظلم کیا ہے۔تُو نے کسی کی نہیں بلکہ اپنی ہی کھال چاک کی ہے۔ اور تُو نے کسی کا نہیں اپنا ہی گوشت کاٹا ہے۔ تُو رسولِ خدا کے سامنے ایک مجرم کی صورت میں لایا جائے گا اور تجھ سے تیرے اس گھناؤنے جرم کی باز پرس ہو گی کہ تُو نے اولادِ رسول کا خونِ ناحق کیوں بہایا اور رسول زادیوں کو کیوں دربدر پھرایا۔ نیز رسول کے جگر پاروں کے ساتھ ظلم روا کیوں رکھا۔۔۔۔۔۔
اے یزید! یہ گردش ایام اور حوادثِ روزگار کا اثر ہے کہ مجھے تُجھ جیسے بدنہاد (برے انسان ) سے ہم کلام ہونا پڑ رہا ہے اور میں تجھ جیسے ظالم و ستمگر سے گفتگو کر رہی ہوں لیکن یاد رکھ ! میری نظر میں تُوایک نہایت پست اور گھٹیا شخص ہے جس سے کلام کرنا بھی شریفو ں کی توہین ہے۔ میری اس جرات سخن پر تُو مجھے اپنے ستم کا نشانہ ہی کیوں نہ بنا دے لیکن میں اسے ایک عظیم امتحان اور آزمائش سمجھتے ہوئے صبر و استقامت اختیار کروں گی اور تیری بد کلامی و بد سلوکی میرے عزم و استقامت پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔۔۔۔
افسوس تو اس بات پر ہے کہ شیطان کے ہمنوا اور بدنام لوگوں نے رحمان کے سپاہیوں اور پاکباز لوگوں کو تہہ تیغ کر ڈالا ہے اور ابھی تک شیطانی ٹولے کے ہاتھوں سے ہمارے پاک خون کے قطرے ٹپک رہے ہیں۔ ان کے ناپاک دہن ہمارا گوشت چبانے میں مصروف ہیں اور صحرا کے بھیڑیے ان پاکباز شہیدوں کی مظلوم لاشوں کے اردگرد گھوم رہے ہیں اور جنگل کے نجس درندے ان پاکیزہ جسموں کی بے حرمتی کر رہے ہیں۔۔۔۔

اے یزید! تُو جتنا چاہے مکر و فریب کر لے اور بھرپور کوشش کر کے دیکھ لے مگر تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ تُو نہ تو ہماری یاد لوگوں کے دلوں سے مٹا سکتا ہے اور نہ ہی وحی الٰہی کے پاکیزہ آثار محو کر سکتا ہے۔ تُو یہ خیال اپنے دل سے نکال دے کہ ظاہر سازی کے ذریعے ہماری شان و منزلت کو پا لے گا۔تُو نے جس گھناؤنے جرم کا ارتکاب کیا ہے اس کا بدنما داغ اپنے دامن سے نہیں دھو پائے گا۔ تیرا نظریہ نہایت کمزور اور گھٹیا ہے۔ تیری حکومت میں گنتی کے چند دن باقی ہیں۔ تیرے سب ساتھی تیرا ساتھ چھوڑ جائیں گے۔ تیرے پاس اس دن حسرت و پریشانی کے سوا کچھ بھی نہیں بچے گا۔ جب منادی ندا کرے گا کہ ظالم و ستمگر لوگوں کے لیے خدا کی لعنت ہے۔
ہم خدائے قدوس کی بارگاہ میں سپاس گزار ہیں کہ ہمارے خاندان کے پہلے فرد حضرت محمد مصطفی ﷺ کو سعادت و مغفرت سے بہرہ مند فرمایا اور امام حسین ؑ کو شہادت و رحمت کی نعمتوں سے نوازا۔ہم بارگاہِ ایزدی میں دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے شہیدوں کے ثواب و اجر میں اضافہ و تکمیل فرمائے اور ہم باقی سب افراد کو اپنی عنایتوں سے نوازے۔ بے شک خدا ہی رحم و رحمت کرنے والا اور حقیقی معنوں میں مہربان ہے۔ خدا کی عنایتوں کے سوا ہمیں کچھ مطلوب نہیں اور ہمیں صرف اور صرف اسی کی ذات پر بھروسہ ہے۔ اس لیے کہ اس سے بہتر کوئی سہارا نہیں ہے۔‘‘
حضرت زینب ؓ کے اس تاریخی خطبے کے ایک ایک حرف میں تمام امتِ مسلّمہ کے لیے درس اور تنبیہہ موجود ہے۔ یہ خطبہ ہمیں صبر ، استقامت، برداشت، قربانی اور باطل کے خلاف کھڑے ہونے کا درس دیتا ہے۔ہمیں چاہیے کہ یوم ِ عاشور کے موقع پر شہدائے کربلا کی عظیم قربانیوں کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے اخوت، اتحاد، یکجہتی، محبت، یگانگت اوربھائی چارہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک کے اندر اسلام دشمن عناصر اور باطل قوتوں کے خلاف متحد ہو جائیں۔ یوں تو یزیدی قوتیں آج بھی کرپشن، دھوکہ دہی اور بدعنوانی کی صورت میں سر اُٹھانے کی کو شش کرتی ہیں مگر ان برائیوں کے سامنے ڈٹ جانا ہی اہلِ بیت سے محبت کا تقاضا ہے۔ دعا ہے کہ اﷲ ہم سب کو اس بات کی توفیق دے کہ اسلام دشمن عناصر کی شکست کے لیے ہر ممکن اور مثبت کو شش پایۂ تکمیل تک ضرور پہنچے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).