میر انیس کی پہلی اور آخری مجلس


11 سال کی عمر میں پہلا شعر کہنے والے میر انیس کے والد کو جب پتہ چلا کہ ان کا بیٹا شاعری کرنے لگ گیا ہے تو وہ بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے اپنے بیٹے سے جب پہلا کلام سنا تو ہدایت کی اپنی غزل کو سلام میں تبدیل کرو کیونکہ منقبت و سلام تمہارے لیے دنیا و آخرت میں توشہ ثابت ہو گا۔ میر انیس کے والد میر خلیق کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ جب انہیں اپنے بیٹے کے شعر کہنے کی خبر ملی تو انہوں نے اپنے دوستوں میں مٹھائی تقسیم کی۔ غزل کے ذریعے شاعری کا آغاز کرنے والے میر انیس کی پہچان مرثیہ بنی۔ ان کی تعداد کے بارے میں بہت سی جگہوں پر اختلاف پایا جاتا ہے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ اُن کے مرثیوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ میرانیس کا اندازِ مرثیہ خوانی ایسا تھا کہ وہ جب شعر پڑھتے تو خود شعر کی صورت بن جاتے۔ میر انیس کے سننے والے کہتے تھے کہ وہ منبر کے دوسرے زینے پر بیٹھ کر پڑھتے۔ اکثر دور بیٹھے لوگوں کو وہ دکھائی نہیں دیتے تھے تو پھر لوگوں کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ وہ اوپر والے زینے پر بیٹھیں لیکن انہوں نے کبھی اپنے لیے سب سے اوپر والا زینہ پسند نہ کیا۔ منبر پر وہ انتہائی ادب و وقار سے بیٹھتے۔ مرثیہ پڑھنے سے قبل محفل کو صلوٰة پڑھواتے اس کے بعد چند لمحوں کے لیے خاموش ہو کر مرثیے کا آغاز کرتے۔ میر انیس نے جب بھی مرثیہ پڑھا اپنے گھٹنوں پر سفید رومال ضرور رکھا۔ بقول ڈاکٹر تقی عابدی کے وہ چشم و ابرو کے اشارات کے تیور سے شعر کے جذبات بناتے تھے اور بہت ہی کم جسم کے کسی حصے کو جنبش دیتے۔ شعر میں اگر غم، خوشی، حیرت، غصہ، رحم، تعجب یا شجاعت کا ذکر کرتے تو وہ اس کی تصویر بن جاتے۔ یہ طرزِ مرثیہ خوانی میر صاحب نے کسی سے سیکھا نہیں تھا بلکہ وہ خود اس کے موجد تھے اور یہ عطائے الٰہی تھی۔ اگر کوئی شاگرد میر انیس سے مرثیہ خوانی سیکھنے کی درخواست کرتا تو وہ اس سوال کے جواب میں کہتے ”یہ کیا سیکھے گا اور مَیں کیا سکھاؤں گا بھئی یہ کوئی سیکھنے کا فن ہے۔“

 میر انیس حیدر آباد دکن میں مجلس پڑھتے ہوئے: 1871

اسی طرح مولانا محمد حسین آزاد ”آبِ حیات“ کے آخری باب میں میر انیس کے بارے میں لکھتے ہیں ”میر انیس مرحوم کو مَیں نے پڑھتے ہوئے دیکھا۔ کہیں اتفاقاً ہی ہاتھ اٹھ جاتا یا گردن کی ایک جنبش یا آنکھ کی گردش تھی کہ کام کر جاتی۔ ورنہ ان کا کلام سارے مطالب کے حق پورے کر دیتا تھا۔ جب میر انیس کے والد بڑھاپے کی وجہ سے مرثیہ نہ پڑھ سکے تو انہوں نے اپنی جگہ بیٹے کو بلا لیا۔ یہ وہ دور تھا جب مرزا دبیر کا لکھنو میں بہت شہرہ تھا۔ جس طرح ان کا کلام لاجواب تھا اسی طرح ان کا پڑھنا بھی بے مثال تھا۔ ان کی آواز، قد و قامت، ان کی صورت کا انداز، غرض ہر شے اس کام کے لیے ٹھیک اور موزوں واقع ہوئی تھی۔ ان کا اور ان کے بھائیوں کا بھی قاعدہ تھا کہ ایک بڑا آئینہ سامنے رکھ کر خلوت میں بیٹھتے تھے اور مرثیہ پڑھنے کی مشق کرتے تھے۔ وضع، حرکات، سکنات اور بات بات کو دیکھتے تھے اور آپ اس کی موزونی و ناموزونی کو اصلاح دیتے تھے۔

یہ بات درست ہے کہ مرزا دبیر کے پڑھنے میں وہ خوش ادا نہ تھی لیکن حسن قبول اور فیض تاثیر خدا نے دیا تھا۔ ان کا مرثیہ کوئی اور بھی پڑھتا تھا تو اکثر رونے رلانے میں کامیاب ہوتا تھا کہ یہی اس کام کی علت غائی ہے۔“

میر انیس کی ایک مجلس کا احوال شمس العلماءمولانا ذکاءاﷲ سابق پرنسپل عربی کالج الہ آباد کچھ یوں بیان کرتے ہیں کہ ”مَیں جب الہ آباد کی میر انیس کی مجلس میں پہنچا تو وسیع و عریض مکان لوگوں سے بھر چکا تھا۔ اس لیے مَیں کھڑا ہو کر سننے اور دور سے ٹکٹکی باندھ کر میر انیس کی صورت اور ان کے ادائے بیان کو دیکھنے لگا۔ وہ بوڑھے ہو چکے تھے مگر ان کا طرزِ بیان جوانوں کو مات کرتا تھا اور معلوم ہوتا تھا منبر پر ایک کل کی بڑھیا بیٹھی لڑکوں پر جادو کر رہی ہے، جس کا دل جس طرف چاہتی ہے پھیر دیتی ہے، اور جب چاہتی ہے ہنساتی ہے اور جب چاہتی ہے رلاتی ہے۔ مَیں اس حالت میں دو گھنٹے کھڑا رہا، میرے کپڑے پسینے میں تر ہو گئے اور پاؤں خون اترنے سے شل ہو گئے۔ مجھ کو یہ بات محسوس نہ ہوئی اس سے زیادہ دلچسپ محویت کیا ہو گی۔“

میر انیس کی پہلی مرثیہ خوانی کے بارے میں اگرچہ محققین کو اختلاف ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ انہوں نے اپنی پہلی ہی مجلس میں لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لیا تھا۔ انہوں نے اپنی پہلی مجلس لکھنو میں پڑھی۔ میر انیس سے پہلے ان کے والد میر خلیق مجلس پڑھ رہے تھے۔ منبر پر آ کر میر انیس چند منٹ خاموش بیٹھے پھر ایک رباعی پڑھی۔ پڑھنے کے انداز اور جوانی کی آواز نے سننے والوں کو نیا لطف دیا۔ چاروں طرف سے نعروں کی آوازیں بلند ہوئیں۔ اس کے بعد میر انیس نے سلام پڑھ کر حاضرینِ مجلس کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ سلام کے بعد میر انیس نے جب مرثیہ پڑھنا شروع کیا تو سیّد امجد علی اشہری اپنی کتاب ”حیاتِ انیس“ میں لکھتے ہیں ” کہ اپنی پہلی مجلس میں انہوں نے رزم و بزم کی تصویر اس خوبصورتی سے دکھائی کہ اسی وقت سے ہر دل میں میر صاحب کی فصاحت کا سکہ بیٹھ گیا۔ اعجازِ کلام اور اندازِ بیان سے کئی مرتبہ اربابِ مجلس بے تاب ہوئے اور کئی مرتبہ جوشِ شجاعت اور اندازِ فصاحت کے بند سن کر جھومنے لگے۔ قصہ مختصر میر انیس نے پُرجوش تعریفوں کی گونجتی ہوئی آوازوں میں اپنی زندگی کا پہلا مرثیہ ختم کیا۔ سینکڑوں قدر شناس اپنی اپنی جگہ سے اٹھ کر میر انیس سے مصافحہ کرنے اور ہاتھ چومنے کو آئے۔ تعریف کا سلسلہ دیر تک قائم رہا تو پھر میر صاحب کی شہرت روز بروز بڑھنے لگی۔ بڑے بڑے نواب و وزیر میر انیس کے زیبِ مجلس ہونے پر فخر کرنے لگے اور بہت جلد تمام شہر میں میر انیس کی دھوم مچ گئی۔“

میر انیس نے اپنی زندگی کی پہلی مجلس لکھنو میں اکرام اﷲ خاں کے امام بارگاہ میں پڑھی۔ اس امام بارگاہ کی خوبی یہ تھی کہ ایامِ عزا کے علاوہ پورا سال شہادتوں کے موقع پر مجالس منعقد ہوا کرتی تھیں اور ان مجالس میں میر ضمیر اور میر خلیق مرثیے پڑھا کرتے تھے۔ میر انیس نے پہلی مجلس طے شدہ پروگرام کے مطابق نہیں پڑھی۔ ان کے والد نے ان کو غیر متوقع طور پر اچانک پڑھوایا۔ بیٹے کو اپنی جگہ پر منبر دینا بہت بڑی بات تھی اور وہ بھی لکھنو کے کسی ایسے امام بارگاہ میں جہاں کے سننے والوں کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ ایک ایک لفظ اور ایک ایک مصرعے پر داد بڑی مشکل سے دیتے تھے۔ اس مجلس کے بعد میر انیس کے پاس مجالس پڑھنے کی دعوتوں کا رش ہو گیا۔ وہ پہلے مجالس کی تاریخ پوچھتے اور یادداشت کے طور پر اپنے پاس اور بانی مجلس کے پاس تاریخ نوٹ کروا دیتے۔ اس کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ شہر میں اس دن اور اسی وقت کوئی اور مجلس نہ ہو رہی ہو۔ میر انیس اسی وقت ہی اس مرثیے کا انتخاب کر لیتے تاکہ آنے والی مجالس میں مرثیے کی تکرار نہ ہو۔ یہ احتیاط وہ مرزا دبیر کی وجہ سے کرتے تھے۔ دوسری طرف مرزا دبیر بھی کسی بھی مجلس کا دعوت نامہ قبول کرنے کے بعد اسی قسم کی پریکٹس کرتے۔ میر انیس نے پہلا مرثیہ لکھنو میں 18 ربیع الثانی 1242ھ کو پڑھا۔ مرثیے کا پہلا مصرعہ ملاحظہ فرمائیں:

جب حرم میں مقتلِ سرور سے وطن میں آئے

ان کی پہلی مجلس میں ہی ایک خلافِ معمول بات یہ ہوئی کہ مجالس میں ہمیشہ بڑا عالمِ دین، ذاکر یا شاعر سب سے آخر میں منبر لیتا ہے۔ اس سے پہلے پیش خوانی کے طور پر چھوٹا عالم، ذاکر یا شاعر مجلس پڑھتا ہے۔ میر انیس کے والد میر خلیق کی پیش خوانی کے لیے ہمیشہ سے شہر کے ان سے چھوٹے شاعر سلام و مرثیہ پڑھا کرتے تھے۔ میر خلیق نے یہ روایت توڑی اور اپنے بعد اپنے ہی بیٹے کو مرثیہ پڑھنے کی دعوت دے ڈالی۔ اس کے بعد وہ 1291ھ یعنی وفات تک مجالسِ عزا پڑھتے رہے۔

ان کی آخری مجلس کے بارے میں بے شمار کتابوں میں ملتا ہے کہ میر انیس نے اپنی آخری مجلس نواب باقر علی خان کے گھر شیش محل لکھنو میں پڑھی۔ جس کا مرثیہ کچھ اس طرح شروع ہوتا تھا:

اس شکوہ سے رَن میں خدا کی فوج

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments