کچھ لوگ زیادہ کامیاب کیوں ہوتے ہیں؟


لاکھوں سال سے اس کرہ ارض پہ وجود خاکی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ کبھی اس کا مقابلہ جنگلوں میں پائے جانے والے خونخوار جانوروں سے رہا تو کبھی رات کی تاریکی اپنی دردناک وحشتوں سے اس لرزا تی رہی۔ کبھی موسم کی شدت نے اس کو آہ لیا تو کبھی فاکہ کشی کی نوبت آن پہنچی۔ الغرض لاکھوں کڑوڑوں سالوں کا فاصلہ طے کر کے (سروائیول آف دی فٹسٹ) کی عملی تصویر بن کر انسان نے سب مخلوقات پر اپنی برتری ثابت کر دی۔ اور اشرف المخلوقات کے اعزاز سے سرفراز ہوا۔ جیسے ہی انسانوں نے جنگلوں سی نکل کر میدانوں کا رخ کیا تو زندگی کی رفتار میں بھی غیر معمولی تیزی آتی گئی۔ اور آج غالبا ہم اس کرہ ارض پہ بہترین وقت میں زندہ ہیں۔

آج کے دور میں ہمیں وہ تمام سہولتیں میسر ہیں جو پرانے وقتوں کے بادشاہوں کو بھی میسر نہ تھیں۔ آج موبائل فون سے لے کر ہواٰئی جہاز کے سفر تک، کسی بادشاہ کے وہم و گمان میں بھی یہ آسایئشیں نہیں تھیں۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود زمانے کی رفتار نے، سائینس و ٹیکنالوجی کے میدان میں آنے والی تبدیلیوں نے آسانیوں کے ساتھ ساتھ مسائل میں بھی اضافہ کیا ہے۔ آج ہر شخص مختصر ترین وقت میں زیادہ سے زیادہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ مسابقاتی مقابلہ بازی روز مرہ زندگی کا لازمی جزو بن چکا ہے۔ ایسے میں ہر شخص وقت کی کمی کا شکار نظر آتا ہے۔ ہر انسان وقت کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کا خواہش مند نظر آتا ہے۔ ہر شخص چاہتا ہے کہ اپنے کیرئیر میں بے پناہ ترقی کرے مگر اس کے رشتہ داریاں اور فیملی بھی متاثر نہ ہو۔ اس سب کے باوجود وہ مطمئن اور خوش بھی رہنا چایتا ہے۔

ہو سکتا ہے کہ آپ اس وقت بے تحاشہ دولت کما رہے ہوں؟ ہوسکتا ہے کہ آپ بہت زیادہ محنت کر ریے ہوں لیکن اس سب کے باوجود بھی یہ ضروری نہیں کہ یہ سب کچھ کرتے ہوئے آپ خوش بھی ہوں۔ اپنی زندگی سے مطمئن بھی دکھائی دیتے ہوں۔ ایسا کیوں ہے کہ کچھ لوگ دوسروں سے زیادہ کامیاب اور پراثر ہوتے ہیں؟

انہی سوالوں کا جواب مشہور زمانہ ٹرینر برائن ٹریسی اپنی کتاب فوکل پوائینٹ میں دیتے ہوئے ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ کسی کمپنی کے نیو کلیئر پاور پلانٹ میں کوئی فنی خرابی آ جاتی ہے۔ کمپنی کے انجینئرز اس خرابی کو دور کرنے کے لئے دن رات ایک کر دیتے ہیں مگر ناکامی ان کا مقدر ٹھرتی ہے۔ بالآخر نیو کلیئر پاور پلانٹ میں تجربہ رکھنے والے ملک کے چوٹی کے کنسلٹنٹ کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں کہ وہ آئے اور اس مسئلہ کے حل کی نساندہی کرے۔ سفید رنگ کے لباس میں ملبوس کنسلٹنٹ دو دن تک مسلسل پلانٹ کا وزٹ کرتا رہتا ہے اور اپنے مشاہدات کو ڈائری کی زینت بناتا جاتا ہے۔ دوسرے دن کے اختتام پر وہ ایک سیاہ رنگ کا مارکر اپنے ہاتھ میں لیتا ہے اور سیڑھی پر چڑھ کر ایک گیج کے اوپر کراس کا نشان لگا دیتا ہے۔ اور ساتھ ہی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ پرابلم ہے آپ اس کو ٹھیک کروا لیں۔

جیسے ہی اس حصے کو ٹھیک کیا جاتا ہے تو پلاںٹ پہلے کی طرع کام کرنا شروع کر دیتا ہے۔ چند دن کے بعد کمپنی کو اس کنسلٹنٹ کی جانب سے 10000 ہزار امریکی ڈالر کا بل موصول ہو جا تا ہے۔ کمپنی مینیجر بل کی رقم دیکھ کر ششدر رہ جاتا ہے اور کنسلٹنٹ صاحب کو لکھ بھیجتا ہے کہ ہم بل وصول کر چکے ہیں آپ برائے مہربانی فرما کر بل کے چارجز کی تفصیل بھیج دیں۔ کیونکہ ہمارے خیال میں آپ نے زیادہ سے زیادہ ایک کراس کا نشان لگایا ہے۔ اور اس کے چارجز اُپ کئی گنا زیادہ ڈیمانڈ کر رہے ہیں۔

چند ایام کے بعد کمپنی کو اسی کنسلٹنٹ کی جانب سے دوسرا بل موصول ہوتا ہے جس میں اخراجات کی تفصیل کچھ یوں ہوتی ہے کہ گیج پہ کراس کا نشان لگانے کی قیمت 1 ڈالر جبکہ کس گیج پہ اور کس جگہ پہ نشان لگایا جانا ہے اس کی قیمت 9999 ہزار ڈالر ہے۔ مصنف اس سے نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ کامیابی اور خوشی کے لئے ضروری ہے کی انسان کو یہ معلوم ہو کہ زندگی میں کس جگہ پہ کراس لگنا چاہیے۔ اور یہی وہ فوکل پوائینٹ ہے جس پہ توجہ مرکوز کر کے اور اپنی بیترین صلاحیتوں کو استعمال میں لاکر انسان کامیابی کی منازل طے کرسکتا ہے۔ اگر انسان اپنے زیادہ تر وقت اور کوششوں کا مصرف یہی نقطہ بنا لے جو کی اس کی زندگی میں کسی بھی دوسرے سے زیادہ متاثر کن ہے تو کامیابی اس کے در پہ دستک ضرور دے گی۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسان ساری زندگی اسی ایک نقطہ کے گرد گزار دے؟

برائین ٹریسی اس کا جواب ہاں میں دیتے ہوئے مزید لکھتے ہیں کہ کامیابی کے لئے انسان کو پہلے اپنے مقصد حیات کا تعین کرنا ضروری ہے۔ مثال کے طور پہ آپ ایک کامیاب بزنس مین بننا چاہتے ہیں۔ ایک ایسا دولت مند شخص جس کا بزنس ترقی بھی کر رہا ہو اور وقت کی کمی کا المیہ بھی نہ ہو۔ تو اس کے لئےآسان حل تجویز کرتے ہوئے
80/20
کے فارمولا سے روشناس کرواتے ہیں۔ اس فارمولا کی روح سے زندگی میں ان20 فیصد ایکٹیویٹیز کی لسٹ بنا لیں جو کہ آپ کے لئے اور اپکے بزنس کے لیے 80 فیصد تک کار آمد نتائج کی حامل ہیں۔ جبکہ ان 80 فیصد مصروفیات کو نکال باہر پھینکیے جو کہ آپکی کامیابی میں صرف 20 فیصد تک حصہ دار ہیں۔ ایسا کرنے سے کسی بھی شخص کی زندگی نظم و ضبط کے قالب میں ڈھل جاتی ہے اور وہ اپنی تمام تر توانائی اور توجہ ان خاص مصروفیات پر ہی مرکوز رکھتا ہےجو کہ اس کی زندگی اور کاروبار میں بہت شاندار نتائج کی حامل ہو تی ہیں۔

کیونکہ قانون قدرت ہے کہ جس چیز پہ توجہ مرکوز ہوتی ہے وہ بڑھنا شروع ہو جاتی ہے۔ اس لئے وہ ایکٹیویٹیز جو کہ عملی زندگی میں دور رس نتائج کی حامل ہوتی ہیں ان پہ جتنا فوکس بڑھتا جا تا ہے وہ اتنی ہی بڑھتی جاتی ہیں۔ دوسرا اہم نقطہ انسان کو نہیں کہنا آنا چاہیے۔ جب آپ ان تمام مصروفیات کو جو کہ بہت ہی کم نتائج کی حامل ہوتی ہیں ان کو اہنی زندگی میں نہیں سے روشناس کرواتے ہیں تو آپ کا بہت سا قیمتی وقت بچ جاتا ہے۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ کامیابی کا راز صرف انسان کی اس صلاحیت میں ہے کہ وہ اپنی توجہ کو کم نتائج کی حامل مصروفیات سے نکال کر زیادہ نتائج کی حامل مصروفیات کی طرف کیسے مبذول کرواتا ہے۔ اور یہی وہ بنیادی فرق ہے جس کی بنا پر کچھ لوگ زندگی میں دوسروں سے زیادہ کامیاب ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).