قومی نیلام گھر اور مانگو پاکستان مہم


خارجہ محاذ پر راولپنڈی کے حق کو مکمل تسلیم کر لینے اور داخلی امور کا اضافی ہتھوڑا معزز چیف جسٹس کے سپرد کرنے کےبعد حکومت نےحقیقی مسائل پر توجہ دینا شروع کر دی ہے۔

حکومت اپنی تمام تر قوت اور توجہ حکومتی مشینری پر اٹھنے والے اخراجات پورے کرنے اور ملک کو آبی بحران سے نکالنے کے لئےاستعمال کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔ دو نکاتی ایجنڈے کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔ پہلا ایجنڈا ’مانگو پاکستان‘ کے لوگو تلے متعارف کرا دیا گیا ہے۔ اس ایجنڈے کو سپریم کوٹ نےباقاعدہ لائسنس جاری کر دیا ہے اور چندہ مہم میں شریک شہریوں کو حب الوطنی کی سندجاری کر دی ہے۔ ”مانگو اور دل کھول کے مانگو“- ”جب مانگنا ہی ہے تو اپنوں سے مانگنے میں شرم کاہے کی“ جیسے خودار نظریات کے تحت مہم کا دائرہ کار بیرون ممالک تک بڑھا دیا گیا ہے۔

دوسرا ایجنڈا قومی نیلام گھر کے قیام کا تھا۔ قومی نیلام گھر کا باقاعدہ افتتاح 17 ستمبر کو وزیراعظم ہاؤس میں موجود پرتعیش گاڑیوں کی نیلامی سے ہوا۔ آخری اطلات کے مطابق حکومت معصوم گاہکوں کو چونا لگانے میں کامیاب رہی ہے اور 20 کروڑ روپےکی خطیر رقم قومی خزانے میں جمع ہوئی ہے۔

حکومت کی نیت پہ شک کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے“اپنے وجود پہ شک کرنا“۔ حکومت کے جذبہ ایثار و قربانی کو مدِنظر رکھتے ہوئے چند تجاویز پیش کرنے کی جسارت چاہتا ہوں۔ اگر ان تجاویز پر عمل کر لیا جاتا ہے تو ممکن حد تک ملک مالی و اخلاقی بحران سے نکل سکتا ہے۔

مانگو پاکستان مہم کے تحت پاکستان میں پھیلی واحد منافع بخش گداگر انڈسٹری کو قومی دھارے میں شامل کر لیا جائے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان اپنی GDP کا 1 فیصد سالانہ خیرات کرتا ہے اس حساب سے 250 ارب روپے بنتا ہے۔ جس کا 50 فیصد گداگر انڈسٹری کو جاتا ہے۔ اس انڈسٹری سے وابستہ ایجنٹ کمال کے جفاکش ہونے کے ساتھ حیرت انگیز قوت مدافعت کے مالک ہوتے ہیں ہر قسم کے موسم اور ہر قسم کے ٹریفک میں عین سڑک کے بیچ گھنٹوں کھڑے رہنے کی ہمت کوئی عام انسان نہیں کرسکتا۔ ان کی قابلیت کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں سرکاری ملازمین کا درجہ دینا بنتا ہے۔ مگر خاص ان کے لئے عمر کی نچلی اور بلائی حد مقرر کرنے سے مکمل اجتناب برتا جائے۔ ان کا ماہانہ وظیفہ مقرر کیا جا سکتا ہے یا پھر کمشن پہ بھی ان کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ یوں لگ بگ 70 ارب روپے اکھٹے کیے جا سکتے ہیں۔

مختلف فلاحی تنظیموں کے تجربات سے استفادہ حاصل کرتے ہوے چندہ بکس ملک بھر کی مساجد، دوکانوں، ریلوے اسٹیشن، بس اسٹینڈ اور ہوائی اڈوں پر نصب کر دیں تو کم سے کم 15 ارب روپے سالانہ کی آمدن متوقع ہے۔

زرمبادلہ کے حصول کے لئے چندہ بکس کا دائرہ بیرون ممالک تک بڑھایا جاسکتا ہے۔ وزیراعظم آج سعودی عرب جا رہے ہیں کیا ہی اچھا ہو اگر وہ پہلے بکس کا افتتاح جدہ انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر نصب کرنے سے کردیں۔ تاکہ دنیا بھر سے حج و عمرہ کے لئے آئے مسلمان بکس میں چندہ ڈال کر ثواب دارین حاصل کر سکیں۔

قومی نیلام گھروں کا دائرہ تحصیل سطح تک پھیلا دیا جائے۔ تھانہ، کچہری میں پڑی ہزاروں گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کی نیلامی سے آغا کرتے ہوے سرکاری رہائش گاہوں میں پڑے فرنیچر اور برتنوں کو بھی نیلامی کے لئے پیش کردیا جائے۔ سادگی مہم کے تحت وزیراعظم ہاؤس اور گورنر ہاؤس تو خالی ہونے کو ہیں۔ لہذا ان میں پڑا قیمتی فرنیچر، برتن، پینٹنگ وغیرہ کو نیلام کردیا جائے تو کم ازکم 5 سے 10 ارب روپے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

اگر سرکاری اراضی اور فارم ہاؤس بھی نیلام کر دیے جائیں تو 400 ارب روپے (یہ تخمینہ مکمل اراضی کا ہے) تک کا خطیر سرمایہ حاصل ہو سکتا ہے۔

وزیراعظم صاحب کے مطابق ان کی چندہ مہم میں تقریبا 30 ارب ورپے سالانہ جمع ہوں گے۔ تو ہماری ان سفارشات پر عمل کرتے ہوئے حکومت 300ارب روپے تک کا سالانہ سرمایہ اکٹھا کرسکتی ہے۔ جس سے ملکی مسائل کافی حد تک ٹھیک ہو سکتے ہیں۔

ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت ان تجاویز پر سنجیدگی سے غور کرے گی۔ ہم تمام محبِ وطن پاکستانیوں سے گزارش کرتے ہے کہ وہ بھی مفید تجاویز سے حکومت کو آگاہ کریں، تاکہ نیا پاکستان بنانے میں حکومت کی مدد کی جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).