دنیا کا سب سے اونچا تعزیہ…. جو میں نے دیکھا


مجھے یاد ہے کہ ہمارے گھر کے سامنے کافی کشادہ جگہ تھی اسے ایک کشادہ سڑک کہنا بھی غلط نہ ہوگا۔ اس سے ذرا سے فاصلے پر کواٹروں کی کھڑی کھڑی قطاریں تھیں جن کے بعد میدان آجاتا تھا۔ یہ محلہ، بی ایریا، ملیر میں تھا۔ جسے ’فاروق آباد ‘بھی کہا جاتا تھا۔ میرے بچپن کا بہت ابتدائی حصہ اس محلے میں گزرا لیکن میرے حافظے سے اس جگہ کی یادیں اور وہ چہرے کبھی فراموش نہیں ہوسکے۔ ان دنوں کراچی میں جگہ جگہ میونسپلٹی کے نلکے لگے ہوئے تھے جن پر لوگ لائن لگا کر پانی بھرا کرتے تھے۔ کچھ لوگوں نے بہشتی بھی لگا رکھے تھے۔ سڑک کے بعد سامنے مکانوں کی جو سیدھی سیدھی لائنیں تھیں ان میں ہمارے گھر کی سامنے والی لائن میں کونے سے دوسرا مکان عثمان بابا کا تھا۔ عثمان بابا پیشے سے بہشتی تھے۔ وہ صبح شام دو وقت گھروں میں اپنی چمڑے کی مشک سے پانی بھر کر لے جاتے تھے۔ مجھے عثمان با با کا کمر پر مشک رکھ کر اپنی گلی کے گھروں میں پانی لے جانا بہت اچھا لگتا تھا۔ چھلکتی ہوئی مشک دور تک زمین پر پانی کی لکیر بناتی چلی جاتی۔ مجھے اس بات کا دکھ تھا کہ ہمارے ابا نے گھر میں نلکا لگوا دیا ورنہ ہمارے گھر میں بھی مشک سے پانی آیا کرتا۔

خشخشی ڈاڑھی کھچڑی بال اور مسکراتا ہوا چہرہ۔ معلوم نہیں عثمان بابا میں ایسی کیا بات تھی کہ محلے کا ہر بچہ ان کا گرویدہ تھا۔ ان کا معمول تھا کہ شام کو وہ اپنے کام سے فارغ ہوکر آخری مشک سے گلی میں پانی کا چھڑکاﺅ کیا کرتے تھے۔ اس چھڑکاﺅ کے بعد گلی کے ڈھیر سارے بچے انہیں گھیر لیتے۔ عثمان بابا ایک ٹوکری میں جنگل جلیبیاں لے کر بچوں میں بانٹتے تھے۔ عثمان بابا کی جنگل جلیبی پر لٹس مچ جاتی تھی۔ چھوٹے بچے تو ان کی پیٹھ پر چڑھ کر پیچھے سے جھپٹا مارتے تھے لیکن عثمان بابا نہ جانے کس مٹی کے بنے تھے کہ ہنستے ہی رہتے تھے۔

 عثمان بابا کے یہاں نہ میری عمر کا کوئی بچہ تھا اور نہ ہی کوئی کھلونا۔ صحن میں ایک بہت بڑا نیم کا پیڑ تھا جس کے تنے سے ایک بڑی بڑی سینگوں والی بکری بندھی رہتی تھی جس سے مجھے بہت ڈر لگتا تھا۔ اس کے باوجود میں وہاں جانے سے باز نہیں آتی تھی۔ یہ گھر سرکاری کواٹر کے ایک کمرے پر مشتمل تھا۔ کمرے کا دروازہ باورچی خانے کی طرف صحن میں تھا اور باہری دروازے سے داخل ہوتے ہی کمرے کی دیوار میں ایک چھوٹی سی کھڑکی یا موکھا تھا جو زمیں سے بمشکل ایک فٹ اونچا تھا۔ ان دنوں میری ساری کائنات سمٹ کر اس موکھے میں سما گئی تھی جہاں عثمان بابا شام کو اپنے روز مرہ کے کاموں سے فارغ ہوکر زمین پر بچھی چٹائی پر اپنا سامان پھیلا لیتے۔ وہ چوکی پر رکھی ہوئی تیلیوں، چمکیلی پنیوں اور گوند سے تعزیہ بنایا کرتے تھے۔ جس کی کنگورے دار نازک محرابوں، رنگین گنبدوں اور میناروں کا حسن مجھے مسحور کردیتا تھا۔ وہ جتنی دیر چوکی پر رکھے ہوئے تعزئیے میں گل بوٹے سجاتے رہتے میں حیرت سے یہ کاریگری دیکھتی رہتی۔۔ میں اس وقت تک زمین پر اکڑوں بیٹھی موکھے نما اس چھوٹی سی کھڑکی میں منہ دئیے انہیں تعزیہ بناتا دیکھتی رہتی تھی جب تک وہ سامان سمیٹ کر اٹھ نہ جاتے تھے۔ وہ شاید سال کے گیارہ مہینے یہ کام کرتے تھے۔

جاڑا گرمی برسات۔ عصر اور مغرب کے درمیان گھنٹہ آدھ گھنٹہ وہ اس کام میں صرف کرتے۔ جب وہ تعزیہ بنا رہے ہوتے تو کمرے میں ہمیں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔ ان کی بیٹی کہتی تھی” امام صاحب کے کام میں پاکی کا بڑا خیال رکھنا پڑتا ہے”۔ عثمان بابا کا گھر جیسا کہ میں نے بتایا کونے سے دوسرا تھا۔ کونے والا مکان جو ہمارے گھر کے سامنے لبِ سڑک تھا وہ عثمان بابا کے بھائی یا کسی دوسرے عزیز کا تھا۔ وہاں نو محرم کو بڑے اہتمام سے سبیل لگائی جاتی تھی۔ مٹکوں کے گرد سرخ کپڑے کی جھالر سی ہوتی تھی۔ لب سڑک گھڑونچیوں پر رکھی ان سبیلوں کے ساتھ ایک گیس لالٹین بھی ہوتی تھی جس کی روشنی ہمارے بجلی کے بلب تو کیا میونسپلٹی کے اونچے کھمبوں کی روشنی بھی ماند کردیتی تھی۔ نو محرم کی رات سے لے کر عاشور کے دن تک گلی میں ایک رونق سی لگ جاتی تھی۔ مجھے اور مجھ جیسے دوسرے بچوں کو بلا وجہ بار بار پیاس محسوس ہوتی تھی۔ جیسے سبیلیں اپنی طرف بلاتی ہوں۔ نہ جانے کہاں کہاں سے لوگ عثمان بابا کی اس سبیل کا شربت اور پانی پینے آجاتے تھے۔ کورے مٹکوں میں ٹھنڈا میٹھا شربت پیاسے حسین علیہ السلام کی خدمت میں ان کے چاہنے والوں کا نذرانہ۔ یہ سبیلیں سب کے لئے ہوتی تھیں۔

 نو محرم کی رات کو عثمان بابا کی گلی کے آخری سرے پر بیچوں بیچ اونچا سا تخت رکھ کر اس پر وہ تعزیہ رکھ دیا جاتا تھا۔ وہی تعزیہ جو چھوٹے سے سرکاری کوارٹر کے ایک کمرے میں سارا سال بانس کی تیلیوں، رنگین کاغذ کی ذرا ذرا سی پنیوں اور ابرق کے ساتھ تیار کیا جاتا تھا۔ ایک دم ایک رات میں آسمان کو چھو تا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ ہمارے ابا ہمیں اس تعزیہ کی زیارت کرانے ضرور لے جاتے تھے۔ اس رات جب گیس لالٹین کے بڑے سے ہنڈے کے سامنے تعزیہ جگمگا رہا ہوتا تھا۔ عثمان بابا وقفے وقفے سے شہادت نامہ پڑھتے تھے تو ان کا نورانی چہرہ روشن ہوجاتا تھا۔ ایک طرف عثمان بابا کا منحنی سا وجود اور درد میں ڈوبی سادہ سی آواز اور ایک طرف ان کے ہاتھ کا بنا آسمان کو چھوتا ہوا تعزیہ جس سے روشنی پھوٹتی تھی اور رنگ تھے کہ لفظوں میں بیان کئے ہی نہیں جا سکتے۔ اگر بتی کی مدھم خوشبو اور لہراتا ہوا دھواں اور اس کے بیچ ان کا رک رک کر تعزیہ کے آگے مورچھل کی ہوا دینا عجب کیفیت پیدا کرتے تھے۔ تعزیہ کے آگے گلی میں زمین پر لال رنگ کی دریاں بچھی ہوتی تھیں جس پر ہمارے والد ہمیں لے کر اس وقت تک بیٹھے رہتے تھے جب تک عثمان بابا شہادت نامہ پڑھتے رہتے تھے۔ آج عثمان بابا ہوتے تو میں انہیں بتاتی کہ ان کے شہادت نامے کے بعد ایسی غمِ حسین میں ڈوبی ہوئی پردرد لے میں نے پھر کبھی نہیں سنی۔ اور میں انہیں بتاتی کہ عثمان بابا میں دنیا گھوم آئی مگرآپ کے تعزئیے سے اونچا تعزیہ بھی میں نے کہیں نہیں دیکھا۔ بے شک آپ دربار حسین علیہ السلام میں بہترین جگہ پر ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).