ملکہ اور اس کا مجازی خدا بہن بھائی کی طرح رہتے تھے


چھ بہنوں کا اکلوتا بھائی ”ننھا“، جب جوان ہوا تو اس کی شادی کے لئے ایک عدد لڑکی ڈھونڈنے کی ضرورت پیش آگئی۔ کوئی پچھتر لڑکیاں ٹھکرانے کے بعد ننھے کی ماں اور بہنوں کو بالاخر محلہ حوراں والا کے ایک مولوی صاحب کی ناز و نعم میں پلی سرو قامت، سرمگیں نین اور متناسب خدوخال والی بیٹی “ملکہ“ پسند آ ہی گئی۔

سلیقہ شعار، کالج گریجویٹ اور ہنر مند ملکہ۔ مولوی صاحب کی بیوی کا انتقال ہو چکا تھا۔ انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی کے لئے ہمیشہ نیک اور شریف داماد کی تمنا کی تھی۔ ”آپ بے فکر رہئے مولوی صاب ہمارے ننھے سے زیادہ شریف اور نیک لڑکا آپ کو زمانے میں نیہں ملے گا“۔ ننھے کی اماں نے یقین دلایا۔ مولوی صاحب نے یقین کرنے سے پہلے اپنے رشتہ داروں کے ذریعے ننھے کی انکوائری کروانا بہتر سمجھا۔

ننھے کے محلے والوں سے ننھے کے روز و شب کاحال دریافت کیا گیا تو محلہ والوں نے اطمینان بخش رپورٹ دی۔ ”ارے وہ اپنا ننھا“۔ ننھےکی گلی کے ایک مکین نے کہا۔ ” وہ تو نہایت شریف لڑکا ہے“۔ گھر سے کام اور کام سے گھر“۔ محلہ کے لڑکوں کے ساتھ بھی کبھی کبھارہی نظر آتا ہے۔ مولوی صاحب کی تو گویا مراد بر آئی۔ ”لیکن ننھا ہماری ملکہ سے عمر میں دس سال بڑا ہے“ ملکہ کی بہن نے مولوی صاحب سے اختلاف کرتے ہوئے کہا۔ ”ارے بیٹی ملکہ 25 کی ہے اور وہ 35 کا، اتنا فرق تو چل جاتا ہے“۔ مولوی صاحب نے اطمینان دلایا۔

بیٹی کی رخصتی کرتے وقت اس کے سر پر ہاتھ رکھ کر نصیحت کی۔ ” بیٹی تمھارا شوہر تمھارا مجازی خدا ہے“۔ اس کیحکم عدولی مت کرنا۔ ملکہ نے یہ نصیحت پلے باندھ لی۔
سہاگ رات کے لئے ننھا اپنے کمرے میں داخل ہوا۔ ملکہ کا گھونگھٹ اٹھایا، سلام کیا، منہ دکھائی دی اور نہایت بے باکی سے باتیں کرنے لگا۔

دنیا جہان کی باتیں۔ ایسے جیسے اس کی ملکہ سے برسوں کی شناسائی ہو۔ ملکہ پہلے تو تھوڑا جھجکی، پھر اس نے بھی ننھے کے سروں کے ساتھ تال ملانا شروع کردیا۔ باتوں باتوں میں فجر کا وقت ختم ہوکر دن چڑھ آیا۔ کمرے کے دروازے پر ہولے ہولے شروع ہونے والی دستک جب دھڑ دھڑاہٹ میں تبدیل ہوئی تب ننھے کو ہوش آیا۔ ” ارے اماں ہوں گی“ ننھے نے ملکہ سے کہا ” اٹھو چلو اماں بلا رہی ہیں“

رات بھر کی جگار اور گفتار کی تھکن سے چور ملکہ نے حکم کی تعمیل کی اور کمرے سے باہر اماں اور اپنی نندوں کے ساتھ صوفے پر آ کر بیٹھ گئی۔ ملکہ کی ساس نے طنز کے ترکش میں سے نکال کر پہلا تیر چلے پر چڑھایا۔ ” کیسے دنیا و ما فیہا سے بے خبر سو رہے تھے تم دونوں“۔ ”کب سے اٹھا رہی ہوں میں“۔ “
“چلو اب جلدی سے تیار ہو جاؤ تمھارے گھر والے ناشتہ لے کر آتے ہی ہوں گے“۔

ملکہ کی بڑی بہن مع دو چار رشتہ دار ناشتہ لے کر ملکہ کے سسرال آ پہنچیں تھیں۔ ناشتے کے بعد ملکہ کی بہن نے ملکہ کی ساس سے کہا۔ ” خالہ ہم ملکہ کوساتھ لے کر جارہے ہیں“۔ ملکہ کی ساس بولیں۔ ” شام کو ولیمہ ہے۔ آپ لوگ ایسا کریں کل ملکہ کو گھر لے جائیے گا، بلکہ میں ننھے کو کہوں گی وہ خود اسے آپ کے گھر چھوڑ آئے گا“۔
رات بھر کی جاگی ملکہ کو دن بھر بیوٹی پارلر میں بیٹھنا پڑا۔ پھر دیرتک ولیمہ کے اسٹیج پر بیٹھے بیٹھے اس کے سارے کس بل نکل گئے۔

ولیمہ کے بعد ملکہ کی شدید خواہش تھی کہ اب پرسکون نیند نصیب ہوجائے۔ لیکن ننھے کا ذخیرہ الفاظ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ نیند اور تھکن سے مدہوش ملکہ ہاں اور نہیں کے درمیان ڈولتی ہوئی کچھ سوچنے سمجھنے کے قابل نہیں تھی۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر ننھے نے مایوسی سے کہا۔ ” لگتا ہےتم بہت تھک گئی ہو“۔ یہ کہتے ہوئے ننھے نے کروٹ لی اور خراٹے نشر کرنے لگا۔

مائکے پہنچی تو اس کی بہنوں اورسہیلیوں نے کرید کرید کرگزشتہ راتوں کا تمام احوال پوچھا۔ ” کیسے ہیں تمھارے میاں؟ “شادی شدہ بڑی بہن بولی۔ ” بہت اچھے ہیں“۔ ملکہ نے اتراتے ہوئے منہ دکھائی میں ملنے والے طلائی بریسلیٹ کی نمائش کی۔ ” کوئی تکلیف تونہیں دی تمھیں“۔ ” نہیں باجی، بس باتونی بہت ہیں ساری رات مجھے جگا کرباتیں کرتے رہے“۔ ہائیں۔ تو کیا صرف باتیں ہی کیں؟ اور کچھ نہیں؟ ایک سہیلی بولی۔ ”ابھی دو دن ہی ہوئے ہیں میری شادی کو، ہو جائے گا کچھ اور بھی“۔ ملکہ نے سہیلی پر آنکھیں نکالیں۔

شام کی دعوت کے بعد ملکہ ننھے کے ہمراہ اس کے گھرآگئی۔ رات کوخلوت میں بوس و کنار سے آگے ننھے کے پیش قدمی نہ کرنے پر ملکہ نے خودہی بے باک ہو کر دراز دستی کرنا چاہی، اسے محسوس ہوا کہ ننھے میں ایستادگی مفقود تھی۔ وہ اس کا ہاتھ جھٹک کر بولا۔ ” یہ نہیں کرو“۔ کیوں؟ ملکہ نے مشتعل جذبات آسودہ نہ ہونے پر احتجاج کیا۔ ” بس منع کر دیا نا میں نے سوجاؤ چلو“۔ مجازی خدا کا حکم صادر ہوا۔

ملکہ نے اگلے روز سنجیدگی سے ننھے کو سمجھایا کہ وہ کسی ڈاکٹر سے اپنا معائنہ کروالے تو ننھا اسے پچکارتےہوئے بولا ” بھئی ملکہ مجھ میں کوئی خامی نہیں ہے۔ بس تمھارے لمس سے مانوس ہونے میں کچھ وقت لگے گا مجھے“۔

شادی میں شرکت کے لئے آئے ہوئے ایک بے تکلف کزن نے پوچھا۔ ”ہاں بھئی ننھے، کیا تیر مارا رات کو؟ “۔ ننھے نے شرمندگی سے جواب دیا۔ ” یار کیا بتاوں۔ قومی ترانہ بج کے ہی نہیں دے رہا“۔ ”ارے۔ یہ توبڑی گڑبڑ ہو گئی“۔ کزن بولا۔ ”تیرا تو ولیمہ بھی جائز نہیں ہوا“۔ ” تم ہی بتاوکیا کروں؟ “۔ ننھے نے مسمسی صورت بنائی۔ ”اچھا، ایسا کر“۔ کزن نے چند آزمودہ نسخے ننھے کو بتائے۔ ”اور جب کام ہو جائے تو مجھ سمیت دو چار لوگوں کی دعوت کر دینا، تیرا ولیمہ بھی ہو جائے گا“۔ ننھے نے اگلی رات کزن کے بتائے ہوئے طریقے آزمائے۔ نیم ایستادگی میں ہی سھی ننھا بہرحال منزل پا گیا۔ ملکہ بھی کون سی آزمودہ کار تھی۔ اس نے یہ بھی غنیمت جانا اور جی جان سے ننھے کی خدمت میں جٹ گئی۔

ننھے کے فرمائشی کھانے پکا رہی ہے، سر میں تیل مالش کرہی ہے۔ پیر دبارہی ہے۔ اپنے میکے والوں سے ننھے کی تعریفوں پر تعریفیں کیے جا رہی ہے۔ ”میرے میاں اتنے اچھے ہیں“۔ میرے میاں نے مجھے یہ کپڑے بنا کر دیے“۔ اسی دوران ملکہ نے بار آور ہو کر ایک بچے کوجنم دے دیا۔ بچے کی پیدائش آپریشن کے ذریعے ہوئی۔ ملکہ کو خون چڑھانے کی ضرورت پڑی تو ننھے نے اپنا خون ٹیسٹ کروایا۔ ننھے کو ذیابطیس کا مرض لاحق ہونے کا انکشاف ہوا۔

اب ملکہ کی ذمہ داریوں میں ننھے کےساتھ ایک منا بھی شامل ہو گیا تھا۔ منے کو سنبھالنے میں ننھا ذرا بھی مدد نہیں کرتا تھا۔ ساس نندیں بھی بس واجبی سا ساتھ دیتی تھیں۔ گھر کے کام کاج اور ننھے کے پرہیزی کھانے پکاتے ہوئے ملکہ کو سارا دن گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلتا تھا۔ رات کو خلوت میں ننھے کی طلب گار ہوتی تو ننھا اسے آسودہ نہیں کرپاتا تھا۔

اسی کش مکش میں 3 سال گزر گئے۔ ملکہ کے مزاج میں چڑچڑاہٹ پیداہوگئی۔ وہ ننھے سے تلخ لہجے میں بات کرنے لگی تھی۔ اس بدتمیزی کو ننھا برداشت نہیں کرپاتا تھا۔ اور ملکہ کو بے بھاؤ کی سنانا شروع کردیتا۔ ” بدتمیزی کرتی ہے مجھ سے“۔ تیرے باپ نے تجھے سکھایا نہیں کہ شوہر کے کتنے حقوق ہوتے ہیں؟ “۔ روزانہ کی تو تکار سے ہیدا ہونے والے جھگڑے بڑھے تو ننھے نے اپنی مردانگی کے ثبوت میں ملکہ پر ہاتھ اٹھانا شروع کردیا۔ ملکہ روتی دھوتی اپنے میکے جا پہنچی۔

دونوں گھرانوں کے بڑے میدان میں کود پڑے۔ ننھےکی ماں نے ملکہ کے باپ سے شکائت کی۔ ” ارے مولوی صاب، ہمیں کیا پتا تھا کہ آپ نے اپنی بیٹی کی ایسی تربیت کی ہے“۔ ”توبہ توبہ کتنی زبان درازی کرتی ہے“۔ مولوی صاحب نے ملکہ سے بات کی تو ملکہ نے سوائے رونے کے ایک لفظ بول کے نہ دیا۔ مولوی صاحب کا جی اندر سے کٹ کر رہ گیا۔ انہوں نے ملکہ کی بڑی بہن سے کہا کہ وہ ملکہ سے پوچھ کر بتائے ماجرا کیا ہے؟

اب جو ملکہ نے اپنی بہن کواپنے مجازی خدا کے راز سے آشکار کیا تووہ بھی سرپکڑکربیٹھ گئی۔
مولوی صاحب سے جا کر ملکہ کی بہن نے فقط اتنا کہا۔ ”ابو وہ دونوں 3 سال سے بہن بھائیوں کی طرح رہ رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).