امام حسینؑ کی پکار پر ہندوستانی برہمنوں کا لبیک


”اگر تم ایسا سمجھتے ہو کہ میں تمہاری حکومت و اقتدار کے لئے خطرہ ہوں تو میرے لئے راستہ چھوڑ دو میں ہندوستان چلا جاتا ہوں“۔
یہ الفاظ امام عالی مقام سیدنا حضرت امام حسینؑ سے منسوب ہیں، جو روایات کے مطابق امام حسینؑ نے جنگ کو ٹالنے کی آخری کوشش کے طور پر ابن ذیاد کے یزیدی لشکر کے نمائیندوں سے کہے۔
اور یہ بات سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ اور حیران کن ہے۔ کہ جس نبی کریمؐ کے امتی ہونے کے سب لوگ دعویدار تھے۔ وہ تو سب مل کر سردار جنتؑ کے خون کے پیاسے ہوگئے تھے۔ اور بظاہر غیر مسلم اور مشرک نظر آنے والے ہندوستانیوں سے امام عالی مقام کو خیر کا گمان اور بھلائی کی امید تھی۔
تاریخ اسلام میں سانحہ کربلا مسلمانوں کے دامن پر وہ سیاہ داغ ہے، جس سے کسی کو مفر ممکن نہی۔

ہائے ہماری بد نصیبی کہ جن کو سر آنکھوں پر بٹھانا تھا ان کو ہم مسلمانوں سے ہمیشہ تکلیف پہنچی۔ اور جو بظاہر غیر تھے اور دور دراز آباد تھے۔ وہ امامؑ مظلوم کی پکار پر دوڑے چلے آئے تھے۔
امام حسینؑ نے 3 شعبان 60ہجری کو مدینہ میں یزید کی بیعت سے انکار کیا۔

مزید 12 دن مدینہ میں رہے اس کے بعد مکہ مکرمہ کا قصد کیا۔ 4 ماہ اور 10 دن مدینہ میں قیام کیا اور 23 دن کے سفر کے بعد میدان کربلا پہنچے۔ 2 محرم الحرام سے اپنی شہادت کے دن 10 محرم الحرام آپ میدان کربلا میں ہی رہے۔ تاوقتیکہ مظلومیت کی حالت میں انہی کے ہاتھوں شہادت پائی جو خود کو ان کے ناناؐ کا کلمہ پڑھنے والے کہتے تھے۔ اور وہیں جسد مبارک دفن ہوا۔

اس وقت مسلمانوں کے دو گروہ تھے۔ پہلا گروہ دغا باز اورمنافق کوفیوں کا تھا۔ جو اپنے آپ کو علیؑ کے نام لیوا اور پیروکار کہتے تھے۔ انہی کوفیوں نے خطوط پر خطوط لکھ کر امام عالی مقامؑ کو کوفہ آنے کی دعوت دی، اور ان کے بلانے پر امام حسینؑ جب کوفہ پہنچے تو ان میں سے کوئی امام حسینؑ کی نصرت کو نہ نکلا، بلکہ عملاً کوفہ کے اموی گورنر عبید اللہ ابن زیاد کا ساتھ دیا۔ اور دوسرا ظالم اور فاجر گروہ تو یزید کو ہی برحق اور خلیفہ وقت سمجھتا تھا، اور اس کے کہنے پر ہی خانوادہ اہلبیتؑ کا خون بہانے پر آمادہ تھا۔

ایک ایسے وقت میں جب رسول اللہؐ کو دنیا سے پردہ کیے ابھی کچھ ہی سال ہوئے تھے۔ اور بہت سے اصحابہ کرام ابھی حیات تھے۔ نواسہ رسولؑ اور جگر گوشہ بتولؑ کے ساتھ اکثریتی مسلمانوں کا یہ سلوک ہی شاید وہ بدبختی اور بدنصیبی ہے، جس کی وجہ سے آج تک مسلمانوں کے یہ گروہ باہم دست و گریباں ہیں۔

یہ سلسلہ صرف یہی نہی رکا بلکہ جاری رہا۔ امام مظلومؑ کی ضریح مبارک اور روضہ اقدس کو کئی بار پامال کیا گیا۔ اور ایسا کرنے والے کوئی اور نہی بلکہ بظاہر مسلمان ہی تھے۔
اس سب کے برعکس بظاہر اسلامی تعلیمات سے نابلد اور خطہ عرب سے ہزاروں میل دور ہندوستان میں آباد کچھ ہندو برہمن امام مظلوم کی مدد و نصرت کے لئے کربلا پہنچے۔ اپنا اور اپنے بیٹوں کا خون امام حسینؑ اور اہلبیت اطہار کی محبت میں ہدیہ کے طور پر پیش کیا۔ کچھ نے وہی پر جان نچھاور کی۔ کچھ وہاں ہی رہ گئے اورباقی ہندوستان واپس لوٹ آئے۔

دنیا آج بھی انہیں حسینی برہمن کے نام سے یاد کرتی ہے۔ ان کی اولادیں ہندوستان کے مختلف خطوں، خصوصاً پنجاب میں آباد ہیں یہ لوگ موہیالیوں کی دت ذات میں سے ہیں۔ حسینی برہمنوں کے بارے تاریخ میں مختلف روایات موجود ہیں۔

ایک روایت کے مطابق حضور نبی کریمؐ کے زمانہ میں ہی ہندوستانی تاجر جو کہ اپنا مال عرب لے آتے تھے۔ ان میں سے کچھ لوگ حضور کی محفلوں میں شریک ہوتے، اور اسلامی تعلیمات سے واقف تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ ان تاجروں کا ایک قافلہ اس وقت کوفہ میں موجود تھا اور وہاں سے مکہ کے سفر کے لئے روانہ ہوا۔ راستہ میں جب یہ لوگ کربلا کے مقام پر پہنچے تو یزیدی لشکر نے قافلہ امام حسینؑ کا محاصرہ کر رکھا تھا، اور ساری گزر گاہیں بند کر دی تھیں۔ ناچار اس تجارتی قافلے کو بھی وہی رکنا پڑا۔ ہر روز یزیدی لشکر اور قافلہ اہلبیتؑ کے درمیان ہونے والی بات چیت، یزیدیوں کے مظالم اور خانوادہ آل رسولؑ کی مظلومیت کی خبریں اس قافلہ تک پہنچتی رہیں۔ اور آخر کار یہ سب لوگ تلواریں سونت کر امام مظلومؑ کے لئے اپنی جانیں نچھاور کرنے پر آمادہ ہو گئے۔

سیسر کمار مترہ اپنی کتاب ویژن آف انڈیا (vidion of india) کے صفحہ نمبر 183پر رقمطراز ہیں کہ، راہب دت ایک ہندو تاجر تھے جو اپنے چھ بیٹوں، شاس رائے، شیرخا، رائے پن، رام سنگھ، دھارو، پورو اور دیگر دو برہمنوں کے ساتھ کربلا کے معرکے میں شامل ہوئے۔ حضرت امام حسینؑ نے راہب دت کو سلطان کا خطاب دیا۔

پروفیسر نونیکا دت کے مطابق باقی سب برہمن اس معرکے میں کام آئے صرف راہب دت ہی بچ پائے۔ اور وہ کابل افغانستان سے ہوتے ہوئے موجودہ سیالکوٹ کے ایک گاؤں ورن وتن میں آ کر آباد ہوئے۔ ان کے پاس امام عالی مقامؑ کا موئے مبارک بھی تھا جو کشمیر کی ایک امام بارگاہ میں آج بھی موجود ہے۔ ایک دوسری روایت کے مطابق ایران کے پارسی بادشاہ کی دو بیٹیاں تھیں۔ ایک کا نام مہر بانو اور دوسری کا نام شہر بانو تھا۔ مہر بانو کی شادی ہندوستانی راجہ چندر گپت سے ہوئی اور یہاں اس کا نام چندر لیکھا رکھا گیا۔

اس کے بطن سے چندر گپت کا بیٹا سمدر گپت پیدا ہوا جو سانحہ کربلا کے وقت یہاں کا راجہ تھا۔ دوسری طرف شہزادی شہر بانو کا عقد حضرت امام حسینؑ سے ہوا اور ان کے بطن سے حضرت امام حسین کے بیٹے علی ابن حسینؑ پیدا ہوئے۔ جب امام عالی مقامؑ نے کربلا کا قصد کیا تو انہوں نے ایک خط اپنے قریبی عزیز حضرت حبیب کو لکھا۔ اور دوسرا خط جناب علی ابن حسینؑ نے اپنے خالہ زاد سمدر گپت کو بھیجا۔ جب علی ابن حسینؑ کا سندیسہ راجہ سمدر کو پہنچا تو انہوں نے اسی وقت راجپوت جنگجووں کا ایک فوجی دستہ راہب دت کی قیادت میں جناب امام حسینؑ کی مدد کے لئے بھیجا۔

مگر افسوس جب یہ جنگجو مقام کربلا پہنچے تو سانحہ کربلا ظہور پزیر ہو چکا تھا۔ اور حضرت امام حسینؑ اور اہلبیتؑ اطہار کے سبھی جوانوں کو شہید کیا جا چکا تھا۔ یہ دیکھ کر یہ سب ہندوستانی جنگجو قریب تھا کہ اپنی گردنیں کاٹ لیتے، کہ جن کے لئے جان لٹانے آئے تھے جب وہ ہی نہ رہے تو یہ جان کس کام کی، کہ امیر مختار ثقفی نے ان کو اس اقدام سے روک دیا۔ کہ قاتلان امام حسینؑ کو ان کے انجام تک پہنچا آئیں۔

اس طرح یہ جنگجو امیر مختار ثقفی کے ساتھ مل کر لڑتے رہے، تاوقتیکہ قاتلان امام مظلومؑ کا بدلہ لے کر ہی وطن واپس آئے۔ ان میں سے کچھ تو وہی شہید ہوئے۔ کچھ عرب میں ہی بس گئے اور کچھ ہندوستان واپس آئے۔ ان راہب دت اور ان کے ساتھیوں کی اولاد ہی حسینی برہمن کہلائی۔ یہ لوگ رہے تو ہندو ہی، لیکن مندروں میں جانا موقوف کیا اور مورتی پوجا اور دیگر مشرکانہ عقائد سے کنارہ کش ہو گئے تھے۔

ہندوستانی سینما کے مشہور ستارے آنجہانی سنیل دت کا تعلق بھی حسینی برہمنوں کے خاندان سے تھا۔ وہ اپنے آباء کی روایت کچھ اس طرح بیان کرتے تھے، کہ ہمارے پرکھوں میں سے کچھ لوگوں کو اولاد نہی ہوتی تھی ان کا آنا جانا بلاد عرب میں رہتا تھا۔ وہ بزرگ آنحضور نبی کریمؐ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور حصول اولاد کے لئے دعا کے خواستگار ہوئے۔ اس وقت امام حسینؑ وہاں کھیل رہے تھے۔ آپؐ نے ان سے فرمایا، کہ حسینؑ ان کے لئے دعا کیجیے۔ آپؑ نے دعا کی، اور اس طرح ہمارے بزرگوں کے ہاں اولاد ہوئی۔ ہمارا تعلق دردنا چاریہ کی نسل سے ہے۔

ان حسینی برہمنوں نے، دیگر ہندووں نے اور بعد ازاں سکھوں کے بانی پیشوا بابا گرو نانک جی نے ہمیشہ حضرت امام حسینؑ اور اہلبیت اطہارؑ سے محبت رکھی۔ ان کے عقیدت مند رہے اور امام مظلومؑ کا سوگ منایا۔

ادھر ایک طرف جب نبی کریمؐ کے نام لیوا ہونے کے دعویدار جناب امام حسینؑ کی زندگی میں اور اس کے بعد بھی آل رسولؐ پر ستم ڈھاتے رہے۔ اس وقت بھی بظاہر یہ غیر مسلم امام عالی مقام ک غم مناتے رہے۔

امام عالی مقامؑ کے روضہ مبارک کو 140ہجری میں خلیفہ منصور کے دور میں، 171ہجری میں ہارون الرشیدکے دور میں، 236 ہجری میں متوکل کے دور میں اور 1212 ہجری میں نجدی وہابیوں کے حملہ میں نقصان پہنچایا گیا۔

ادھر ہندوستان میں منشی جوالہ پرساد اختر کے مطابق ریاست اودھ میں اوّل اوّل حضرت عباسؑ کے نام کا علم اٹھایا گیا تو اس کو اٹھانے والے راجپوت سردار دھرم سنگھ تھے۔ جو سکھ مذہب سے تعلق رکھتے تھے۔ اور لکھنؤ کا مشہور روضہ کاظمین بھی ایک ہندو عقیدت مند جگن ناتھ نے تعمیر کروایا۔ ادھر جھانسی کی رانی مہارانی لکشمی بائی بھی امام حسینؑ کی شجاعت کی معتقد تھی۔ اور باقاعدگی سے عزاداری کی محافل کا اہتمام کیا کرتی تھی۔

آج بھی ایک طرف جہاں امام عالی مقامؑ کی ذات مبارکہ سب مسلمانوں کے نزدیک بلا شک وشبہ باعث تکریم ہے وہی ایسے مسلمان بھی موجود ہیں جو اسی تذبذب میں رہتے ہیں کہ ان کو امام حسینؑ پکاریں یا صرف حضرت حسینؓ کہیں۔
کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ امام عالی مقامؑ سے محبت اور تکریم میں غیر مسلم ہم جیسوں سے بازی لے گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).