نواز شریف کا یہ ریلیف مہنگا پڑے گا


جن دنوں سابق نا اہل وزیراعظم نواز شریف ”اڈیالہ شریف“ سے ہسپتال داخل ہوئے نئے این آر او ملنے کی خبریں قومی اور عالمی میڈیا پر گردش کرنے لگیں، انہی دنوں میں نے ایک ٹویٹ کیا کہ ”کیا این آر او مل گیا؟ “۔ جس پہ ایک سینئرنون لیگی صحافی نے مجھے فون کیا اور فرمایا”میاں صاحب ڈریں گے اور نہ ہی جھکیں گے سو این آر او کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا“۔ میں نے ان سے معذرت کی کہ آپ کے جذبات کو ٹھیس پہنچی مگر یہ سچ ہے کہ میاں صاحب ریلیف مانگ رہے ہیں۔

اسی روز نواز شریف نے بھی اس خبر کی تردید کر دی اور میں نے ٹویٹ ہٹا دیا۔ اب جب میں یہ کالم مکمل کر رہا ہوں، ریلیف مل چکا ہے، ہائیکورٹ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے اڈیالہ کے” شریف قیدیوں“ کی سزائیں معطل تو کر دیں مگریاد رہے منسوخ نہیں۔ اس کیس کا حتمی فیصلہ آنے تک سزا نہیں ہو سکتی مگر یہ بات سو فیصد یقینی ہے کہ نواز شریف کا آخری ٹھکانہ اڈیالہ ہی ہوگا۔ جن دوستوں کا کہنا ہے کہ یہ ڈیل یا ڈھیل کے تحت ہوا تو یہ غلط فہمی وہ دل سے نکال دیں۔ نون لیگی کارکنان کا محرم الحرام کے مہینے میں ( جبکہ کلثوم نواز کے انتقال کو ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا) مٹھائیاں بانٹنا، جاتی امرا میں مٹن کڑاہی، دیسی گھی کی کھیر اور پکوانوں کی محافل کا سجنا کم از کم میری سمجھ سے تو باہر ہے۔

میرا ذاتی خیال ہے کہ اگر اس دفعہ نواز شریف کا کوئی ریلیف ملا یا کوئی بھی این آر او اور ڈیل سائن ہوئی تو اس کاخمیازہ اس ملک کو عظیم نقصان کی شکل میں بھتنا پڑے گا اور مجھے نہیں لگتا کہ عمران خان کسی بھی طرح کی ڈیل کر کے اپنی بائیس سالہ ساکھ کو نقصان پہنچائیں گے لہٰذا میرے تحریک انصاف کے دوست ہائپر ہونے کی بجائے آنے والے وقت انتظار کریں۔

ڈیل یا این آر او کی خبریں سنتے ہی میں”کینگروکورٹس“ پڑھنے بیٹھ گیا، یہ کتاب اصغر علی جوئیہ نے 26 اگست 2010ء کو بے باک صحافی نواز کھرل کے توسط سے مجھے دی تھی۔ اُس وقت مصروفیات کے باعث نہ تو یہ کتاب مکمل پڑھ سکا اور نہ ہی اس پر کوئی کالم لکھ سکا (ان دنوں راقم ایک قومی اخبار میں سب ایڈیٹر تھا ) اگرچہ مصنف نے کتاب دیتے ہوئے کالم لکھنے کی خصوصی تاکید بھی کی تھی۔

مصنف کے بقول اس کتاب کا محرک گزشتہ این آر او تھا۔ وہ این آر او جس کے تحت 1986ء سے اکتوبر 1999ء کے درمیان سیاستدانوں پر قائم مقدمات ختم کر دیے گئے اور این آر او میں کہا گیا کہ قومی مصالحت کو فروغ دینے، عوامی عہدوں کے حامل ارکان کے مابین باہمی اعتماد اور اعتبار پیدا کرنے کے لیے این آر او کا نفاذ کیا گیا۔ مزید کہا گیاعدالت کی طرف سے کسی ملزم کے خلاف اس کی غیر حاضری میں صادر کوئی حکم یا فیصلہ شروع ہی سے باطل ہوگا، قومی احتساب بیورو کی طرف سے یا اس کے ریفرینس کی بنیاد پر عوامی عہدوں کے حامل ارکان کے خلاف اندرون ملک یا بیرون ملک 12 اکتوبر 1999ء سے قبل شروع کی گئی تمام زیر تفتیش کارروائیاں یا زیر التوا مقدمات جو کسی عدالت جن میں عدالت عالیہ اور عدالت عظمی بھی شامل ہیں، کی وہ کارروائیاں جو دفعہ 33 کے تحت منتقل ہو کر جا رہی ہیں، وہ تمام کارروائیاں فوری طور پر واپس اور ختم کر دی جائیں۔

ایک اندازے کے مطابق وہ لوگ جو اس این آر او سے فیض یاب ہوئے تھے ان کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ بقول شخصے ایم کیو ایم کے 3300 افراد نے اس سے فائدہ اٹھا یا اور بقول بابر اعوان(تب وہ پی پی پی کا حصہ تھے)مسلم لیگ نون کے تین ہزار سے زائد کارکنوں نے بھی اس سے استفادہ کیا۔ یہ الگ بات کہ کچھ عرصے بعد وہ بھی این آر اوکی مخالفت میں کھڑے ہو گئے اور زرداری کو قربانی کا مشورہ دے ڈالا۔ لیکن واقفانِ حال بتاتے ہیں کہ وہ ایوانِ صدر اور پی پی پی سے کچھ اور وزارتوں کا مطالبہ کر رہے تھے اور جب وہ منظور نہ ہوا تو ایم کیو ایم سمیت ان سب نے این آر او کی مخالفت کا عندیہ دے دیا۔ خیر ماضی میں این آر او سے کن افراد نے کتنا فائدہ اٹھایا اور کس کس کی فرمائش اس کا نفاذ عمل میں آیا اس سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔

کچھ ایسے بھی لوگ بھی آئے جنہوں نے بظاہر اس قانون کے نفاذ پر نہ صرف واویلا مچایا بلکہ اسے ملک و قوم کے لیے خطرہ قرار دیا تھا مگر افسوس وہ لوگ بھی اندرونی طور پر اس سے مستفید ہوتے رہے۔ یعنی آپ یوں سمجھ لیں کہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے رہے اور ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں نمایاں کردار ادا کرتے رہے۔ ایسا ہر دور میں ہوتا رہا، ایک طرف سیاستدان عوام کے حق میں نعرے بازی کرتے رہے اور دوسری جانب عوام کے ٹیکسوں پہ نہ صرف عیاشی کرتے رہے بلکہ عوام کے حقوق کا استحصال بھی کرتے رہے۔ عوامی مینڈیٹ کی بات کرنے والے اسی مینڈیٹ پہ شب خون مارتے رہے۔ نہ ہی ان سے کسی قسم کی کارروائی کی گئی اور نہ کسی نے ان کے خلاف اعلانِ بغاوت کیا۔

ہر دور میں ایسے ڈکٹیٹرز اور چوروں کو این آر او یا این آر او سے ملتا جلتا کوئی نہ کوئی قانون ملتا ررہا اور ہر دفعہ ایسے لوگ چور دروازے سے صاف بچ نکلتے رہے۔ اس بات کو آٹھ سال گزرنے کو ہیں مگر جب بھی کسی بڑے ڈکٹیٹر یا قومی مجرم کو کسی کیس میں معافی ملتی ہے تو مجھے این آر او یاد آجاتا ہے۔ میں آج تک یہ بات نہیں سمجھ سکا کہ این آر او کبھی کسی غریب کو کیوں نہیں ملا؟ کیا” این آر او زدگان“ میں شامل ہونے کے لیے قومی سطح کا جرم کرنا لازمی ہے یا قومی نمائندہ ہونا ضروری ہے۔

آج سپریم کورٹ کے پانچ ججز کے فیصلے کو ہائیکورٹ کو دو ججز چیلنج کر رہے ہیں لیکن فواد چودھری کی پریس کانفرنس نے سارے شکوک و شبہات دور کر دیے۔ عدلیہ ایک آزاد اور خودد مختار ادارہ ہے، اگر عدلیہ نے ایک قومی مجرم کو ضمانت پر رہائی دی تو کیا ہوا، قاتلوں کو بھی عارضی طور پر ضمانت مل جاتی ہے۔ اصل فیصلہ تو کیس کے خاتمے پہ ہی ہوگا۔ جنہیں لگتا ہے کہ میں صرف نون لیگ کے خلاف ہوں تو سن لیں کہ میں تویہ چاہتا ہوں کہ اس ملک کے ساتھ جن لوگوں نے پچھلے ستر برسوں میں ظلم و زیادتی کی، سب کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرنا ہوگا کیونکہ انصاف کا یہی تقاضا ہے کہ صرف نواز شریف اور زرداری نہیں بلکہ گزشتہ ستر سال کی بیوروکریسی سے لے کر سیاسی مشینری تک جس جس نے بھی منی لانڈرنگ کی یا این آر او کے ذریعے قرضے معاف کروائے، تمام لوگوں(پانامہ پیپرز کے 436 افراد) سے ان کے ادوار کا حساب مانگا جائے کیونکہ اس ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی یہی ایک صورت بچتی ہے۔

آج جب ”شریف قیدیوں“ کی سزائیں معطل ہوئیں تو پاکستانی مایوس ہو گئے، یقین کریں یہ سزائیں معطل کروانا بھی نون لیگ کو مہنگا پڑے گا کیونکہ اب وہ پہلے سے بھی زیادہ پیشیاں بھگتیں گے اور اب اگر یہ دوبارہ جیل گئے (جو کہ واقعی جائیں گے)تو ان کے ڈوب مرنے کا مقام ہوگا لہٰذا میرے نون لیگی دوست مٹھائیاں بچا کے رکھیں کیونکہ اصل ضرورت اس وقت پڑے گی جب اس خاندان کے لیے دوبارہ سے ”اڈیالہ شریف“کے دروازے کھلیں گے کیونکہ پکچر تو واقعی ابھی باقی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).