ہوش کے ناخن نہ لیے تو مسئلہ کشمیر ایک برے حل کے قریب ہے


اگر ٹوئٹر میدان جنگ ہے تو کوئی ملک جنگ نہیں ہارنے والا۔ دونوں افواج جنگ جیت جائیں گی۔ ایک سو چالیس حروف میں دنیا کے بہترین میزائل داغے جائیں گے۔ یہ حدود و قیود سے ماورا ہوں گے۔ نہ کوئی خون بہے گا، نہ کوئی طیارہ اڑے گا۔ سہاگ سلامت رہیں گے۔ سرحدوں کے پار مائیں اپنے سینے نہیں پیٹیں گی۔ باپ نڈھال ہو کر لاٹھی کے سہارے سے نہیں چلیں گے۔ یہاں تک بہت اچھا ہے۔ لیکن اگر دو ملکوں کے درمیان معاشی فاصلہ بڑھ گیا تو ہو سکتا ہے طاقتور ملک کم زور ملک سے ٹوئٹر پر بھی لڑنا بند کر دے۔

دشمنی تو کسی سے بھی ہو سکتی ہے لیکن انسانوں نے دوستی کے لیے برابری کا معیار رکھا ہے۔ بہت سے لوگ آپ کو اچھے لگتے ہیں، آپ ان سے دوستی کرنا چاہتے ہیں، لیکن سماجی خلیج حائل ہو جاتی ہے۔ یہ ملکوں اور قوموں کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ اڑتیس ممالک کے شہری بغیر ویزا کے امریکا جا سکتے ہیں۔ جب کہ ہمارے بعض ارکان اسمبلی تک کو ویزا سے انکار کر دیا جاتا ہے۔ امریکا تو کافر ہے، سب سے بڑے مسلمان ملک کی بات کرتے ہیں۔ کسی بھی ہندوستانی کو انڈونیشیا جانے کے لیے ویزے کی ضرورت نہیں۔ ٹکٹ کے پیسے ہوں تو ویزا جکارتہ ایئرپورٹ پے مل جاتا ہے۔ لیکن اس نوے فی صد مسلم آبادی والے سب سے بڑے اسلامی ملک میں جانے کے لیے پاکستانیوں کو ویزا چاہیے؛ جس کی شرائط تقریباً اتنی ہی سخت ہیں جتنی یورپ اور آسٹریلیا کے ویزے کی ہیں۔

بین الاقوامی نظام میں کوئی سائیں یا ملنگ نہیں ہوتا۔ سب اپنے فائدے کے لیے سلام دعا یا میل میلاپ رکھتے ہیں۔ اس لیے دو سو کے قریب ملکوں کی اس دنیا میں ہمارے سو سے بھی کم ممالک میں سفارت خانے ہیں۔ اس کے بر عکس اسلام آباد میں صرف اناسی ممالک کے سفارتی مشن ہیں۔ باقی کو ہماری ضرورت یا پروا نہیں۔ ہمارے نو منتخب وزیر اعظم غصے میں ہیں کہ ہندوستان نے ان کی پیش کش مسترد کر دی ہے۔ ملاقاتیں ماضی میں بھی منسوخ ہوتی رہیں ہیں لیکن ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا کہ ہم نے انھیں خط لکھا ہو اور انھوں نے جواب ہی دے دیا ہو۔ یقیناً یہ اکیلے مودی یا صرف ہندوستانی فوج کا فیصلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک بدلتی ہوئی صورت احوال کا پیش منظر ہے۔ کم زور معشیت، سیاسی کھینچا تانی اور پھر اداروں کی بد چلنی نے ہمیں یہاں لا کھڑا کیا ہے۔

معشیت برآمدات سے مضبوط ہوتی ہے، لیکن اگر خانگی کھپت بھی زیادہ ہو اور مصنوعات کے لیے خام مال کم در آمد کرنا پڑے، تب بھی اچھا گزارا ہو جاتا ہے۔ لیکن ہمارے معاملات مزید گھمبیر ہیں۔ 2002 کے بعد سے اب تک 468 خود کش دھماکے ہوئے ہیں۔ پچھلے پندرہ سال سے بجلی کی شدید قلت چلی آ رہی ہے۔ ہمارے ملک کے سرمایہ کاروں نے مجبور ہو کر بنگلا دیش جیسے ملک میں بھی کارخانے لگائے ہیں، کیوں کہ پاکستان میں تیار کی گئی مصنوعات اتنی مہنگی پڑتی ہیں کہ بین اقوامی مارکیٹ میں مقابلہ ممکن نہیں رہتا۔ رئیل اسٹیٹ مافیا نے ملک کا سارا پیسا لاکھوں خالی پلاٹوں کی خاک میں ملوا دیا ہے۔ کون ہے جو رئیل اسٹیٹ کا سرغنہ ہے۔ غریب کو گھر نہیں مل رہا، حکومت زر مبادلہ کے سوکھے ہوئے تالاب میں ترسی ہوئی نظروں سے آسمان کی طرف دیکھ رہی ہے۔

سیاسی صورت احوال یہ ہے کہ آج تک کسی وزیر اعظم کو مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔ مشرف سے ہمیں کوئی گلہ ہے، نہ ہماری عدلیہ کو کوئی شکوہ ہے؛ تو چلو اسے نظر انداز کر دیتے ہیں۔ لیکن 2008 کے بعد آنے والی دو حکومتوں کو وقت دیا جاتا تو یقیناً معاملات بہتر ہوتے۔ وقت تو وہ پھر بھی پورا کر ہی گئے۔ محاذ آرائی، الزام تراشی، اداروں کے غیر متوازن رویے نے ہمارے دس سال ضائع کیے ہیں۔ دس سال بڑا وقت ہوتا ہے۔ موجودہ دنیا کی سب بڑی سات کمپنیوں میں سے کوئی بھی 2008 میں اس فہرست میں نہ تھی۔

ہم سچ سے نظریں چراتے رہے ہیں، ورنہ دنیا بھر کا میڈیا ہمیں دکھاتا رہا ہے، کہ ہمارے اداروں نے اپنی روش نہیں بدلی۔ کیا دس لاکھ پاؤنڈ کی مبینہ کرپشن ملک کا آئین توڑنے سے بڑا جرم ہے، جو ہم نے آج تک آرٹیکل چھہ کا بغور مطالعہ ہی نہیں کیا۔ محب وطن پاکستانیوں کا بڑا المیہ ہے کہ ملک پیچھے رہ گیا ہے اور وہ آگے نکل گئے ہیں۔ اب وہ ماننے کے لیے تیار ہی نہیں۔

آپ کو امریکا کا ویزا کیوں پسند ہے۔ وہاں خوش حالی ہے، ترقی ہے، روزگار ہے، تعلیم ہے، امن ہے، آزادی ہے۔ یہی امریکا ساٹھ کی دھائی تک رنگ و نسل کی تفریق میں اتنا دھنسا ہوا تھا کہ گورے اور کالوں کی بسیں بھی الگ ہوتیں تھیں۔ بچوں کے اسکول تک الگ تھے۔ اور کسی کو امریکا جانے کا ارمان نہیں ہوتا تھا۔ لیکن خوش حالی نے سب فرق مٹا دیے۔ انھوں نے ایک کالے کو صدر تک بنا ڈالا۔

اب زرا سوچیں بنگلا دیش ہم سے کیوں جدا ہوا۔ بنگالیوں نے مسلم لیگ بنا کے اپنے لیے اور ہمارے لیے ہندوستان سے آزادی لی تھی۔ بھوک اور نانصافی نے چوبیس سال میں انھیں اتنا مجبور کر دیا کہ انھوں نے ہندوستان کے ترلے کر کے ہم سے جان چھڑائی۔ اگر آج سے پندرہ سال بعد ہندوستان کی معشیت دنیا کی تیسری بڑی معشیت بن جاتی ہے، جس کا غالب امکان ہے، اور ہم اسی طرح ایک قدم آگے تو دو قدم پیچھے رکھتے رہے تو اپنے دل سے پوچھیں کہ کشمیری کیا سوچیں گے۔

مشہو ر ماہر سیاسیات اور ہارورڈ کنیڈی اسکول کے پروفیسر گراہم ٹلٹ الیسن نے فیصلہ سازی کے موضوع پہ ایک مایہ ناز کتاب لکھی ہے، ”دی ایسنس آف ڈیسیشن” (فیصلے کا جوہر)۔ اگر وقت ہو تو ضرور پڑھیے گا۔ موصوف نے فیصلہ سازی کے تین ماڈل بیان کیے ہیں، اور تینوں ماڈلز کو کیوبن میزائل کرائسس کی مثال سے سمجھایا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ بیورو کریسی بھلے وہ سول ہو یا فوجی سب سے پہلے اپنے مفادات کا خیال کرتی ہے۔ اس کے افراد کی اپنے اپنے شعبے میں خاص مہارت ہوتی ہے اور وہ اسی کے اثر میں بات کرتا ہے، کیوں کہ اس نے ایک فن میں مہارت حاصل کرنے کے لیے دوسرے فنون کی قربانی دی ہوتی ہے۔ اسے وہی اہم لگتا ہے جو اس نے سیکھا ہوتا ہے۔

اگر آپ کسی جرنیل سے مشورہ لیں گے تو وہ جنگ کی باتیں کرے گا، کسی نئے آپریشن کا منصوبہ پیش کرے گا، کسی فارن آفس کے فرد سے پوچھیں گے تو وہ بات چیت، ملاقاتوں اور باہمی تعلقات پہ زور دے گا، ٹیکس والے کے مشوروں میں چند نئے ٹیکسوں کی تجاویز ہوں گی، بھلے ان سے غریب کا چولھا ہی بجھتا ہو۔  جنرل ایڈمنسٹریشن کے بیورو کریٹ مجسٹریسی نظام کی بحالی پر زور دیں گے۔

بیورو کریسی کے ہر محکمے کے اپنے مسائل ہیں اور وہی لاشعور میں چھپی ان کی پہلی ترجیح ہیں۔ جب بھی انھیں مجموعی طور پے ملکی مفاد میں کوئی فیصلہ کرنا ہو تو وہ لا شعوری ترجیح اڑے آ جاتی ہے۔ تمام محکموں میں مقابلے کی سی ٖ فضا ہوتی ہے۔ اس لیے نہ صرف بیورو کریسی بہتر پالیسی بنانے سے معذور ہوتی ہے بلکہ پالیسی کو اس کی روح کے مطابق نافذ کرنا بھی اس کے بس کی بات نہیں۔ لیکن ان سب خرابیوں کے باوجود یہ ایک ضروری برائی ہے۔

ان تمام معروضات کو مد نظر رکھتے ہوئے، نئے پے چیدہ نظام میں پالیسی بنانا ایک زیرک اور تجربہ کار سیاسی لیڈر کا کام ہے۔ لیکن اپنے یہاں سیاست دان عوام سے ووٹ لینے کے بعد بھی اپنی کرسی نہیں بچا سکتا تو وہ کیا پالیسی لائے گا۔ کیا یہی کم نہیں کہ اس نے پھانسی لے لی، قیدگزار لی، جلا وطنی کاٹ لی اور بم دھماکوں میں مر گیا ۔

اب زرا تعصب کی عینک اتار کر دیکھیں کہ کشمیر کاز کو کس نے نقصان پہنچایا ہے۔ کس نے ہمارے ستر سال اور بالخصوص پچھلے دس سال بربادکیے ہیں۔ اگر آپ کو ابھی ٹھیک سے نظر نہیں آ رہا تو تھوڑا انتظار اور کر لیں۔ نو فی صد کی اوسط شرح نمو سے ہندوستان 2025 میں دنیا کی تیسری بڑی معشیت بننے جا رہا ہے۔ کشمیری خود بتا دیں گے کہ انھیں کس ملک کا پاسپورٹ اور شہریت رکھنی ہے۔ یاد رکھیں تاریخ ایک انسان کی بہادری، ذہانت اور ایمان داری سے نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں کی غلطیوں یا خوبیوں سے بنتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).