نواز شریف کی رہائی اور کٹھ پتلی حکومت


اسٹیبلشمنٹ اور نواز شریف کے درمیان کشمکش جاری رہے گی۔ طاقت کے توازن کے حوالے سے فی الوقت دونوں میں کوئی مقابلہ نہیں کیونکہ عالمی اسٹیبلشمنٹ بھی وہی کچھ چاہ رہی ہے جو لوکل اسٹیبلشمنٹ کو مطلوب ہے۔ اس تمام کھیل میں قوم میں تقسیم بڑھتی جا رہی ہے اس میں فکر کی بات اس لیے نہیں کہ تقسیم بڑھنے سے ہی بالآخر سٹیٹس کو کا خاتمہ ہوگا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ سے نواز شریف، مریم اور کیپٹن صفدر کی ضمانت پر غم و غصے کا شکار ان کے ہم خیالوں کی کچھ ڈھارس بندھی۔ دوسر ی طرف اسٹیبلشمنٹ اور اس کے حامی حلقوں بشمول پی ٹی آئی کو سخت کوفت ہوئی۔ تحریک انصاف کے حامی جو اپنی حکومت کی ایک ماہ کی کارکردگی دیکھ کرحیران و پریشان ہیں۔ نواز شریف کی ضمانت ہونے پر بہت بوکھلائے ہو ئے نظر آئے۔ کبھی این آر او اور کبھی ڈیل کی بات کی گئی مگر کوئی بھی یہ بتانے سے قاصر ہے کہ لندن سے خود پاکستان آ کر بیٹی کے ساتھ جیل جانے والے سابق وزیر اعظم کے ساتھ سودے بازی کر کون سکتا ہے؟

اس بات کا اندازہ تو نئے پاکستان کے ان عناصر کو بخوبی ہو گیا جو دماغ سے سوچتے ہیں کہ نواز شریف کی گرفتاری یا رہائی سے وزیر اعظم عمران خان یا سول حکومت کا سرے سے کوئی تعلق نہیں، نہ ہی آئندہ ہوگا۔ جن دو فریقوں میں لڑائی ہے وہ ایک دوسرے کی کمزوریاں بھانپ کر موقع کی مناسبت سے کیا وار کرتے ہیں؟ یہ سلسلہ ابھی کافی دیر تک دیکھنے کو ملے گا۔ اسٹیبلشمنٹ جانتی ہے کہ نواز شریف کی رہائی اور آزادانہ سیاسی سرگرمیوں کا مطلب خود اس کے کردار کو کٹہرے میں لانے کے مترادف ہوگا۔ ادھر نواز شریف کو بھی علم ہے کہ ان حالات میں کو ئی سمجھوتہ کرنا سولہ آنے گھاٹے کا سودا ہے۔ صورتحال اس مقام پر پہلے ہی پہنچ چکی ہے کہ حکومت بھی مل جائے تو بہت کڑی شرائط پر ڈیلی ویجز کی ملازمت ملنے سے زیادہ کچھ نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار کے مخالف تمام عناصر اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ سیاست کو درست کرنا ہوگا اور ظاہر ہے یہ کام آسانی سے نہیں ہو سکتا۔ تحریک بحالی جمہوریت صحیح معنوں میں چلانی ہوگی، رکاوٹیں بہت زیادہ ہیں۔ 2018ءکے عام انتخابات سے قبل جس طرح کھلم کھلا پری پول رگنگ کی گئی اور پھر پولنگ ڈے پر آر ٹی ایس سسٹم کا حربہ آزمایا گیا۔ اس پر آج تک آنے والے ردعمل سے یہ تو واضح ہے کہ لوگ بات کرنے سے نہیں کترا رہے۔ میدان میں آ کر تحریک مگر کیونکر چلے گی کہ مختلف پارٹیوں کے لوگ یکسو ہیں نہ ہی عالمی اسٹیبلشمنٹ فی الحال موجودہ حکومتی سیٹ اپ کو ڈسٹرب کرنے کی اجازت دے گی۔

پچھلے دنوں ہونے والے واقعات پر نظر دوڑائیں تو صاف پتہ چل جائے گا کہ جتنی بھی غیر ملکی شخصیات پاکستان آئیں ان میں امریکی وزیر خارجہ پومپیو واحد شخص تھے جو ہنستے مسکراتے آئے اور خوشی خوشی واپس چلے گئے۔ سی پیک کے معاملات میں سعودی عرب کی شمولیت کے بعد امریکہ مزید خوش اور مطمئن ہوگا۔ اس حوالے سے کام پوری رفتارسے جاری ہے۔ اس لیے امریکہ اور سعودی عرب چاہیں گے کہ اسٹیبلشمنٹ کے سائے میں کام کرنے والے موجودہ حکومتی سیٹ اپ کو بلا رکاوٹ کام کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ رائے عامہ تقسیم ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے حامی اور مخالف اپنے اپنے کیمپوں میں ڈٹے ہوئے ہیں مگر سیاسی سائیڈ سے یہ طے نہیں ہو رہا کہ بڑے خطرات مول لیتے ہوئے میدان میں اترا جائے یا نہیں۔ اس لیے اپوزیشن سیاسی جماعتوں کے حامی کنفیوژن کا شکار ہیں یا اپنی پارٹیوں سے واضح لائن لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ یہ مطالبہ ایسا بے جا بھی نہیں کیونکہ جمہوریت ہر گزرتے دن کے ساتھ کمزور ہو تی جا رہی ہے۔

چینی صدر سے مذاکرات کے لیے آرمی چیف تشریف لے جاتے ہیں تودوسری جانب سعودی عرب جانے والے وزیر اعظم کے وفد کی” رہنمائی“ ڈی جی آئی ایس پی آر کرتے ہیں۔ وزیر اعظم ہاﺅس ، گورنر ہاﺅسز اور جمہوری شان وشوکت کی علامت عمارتوں کا تمسخر اڑایا جا رہا ہے۔ منتخب حکومت کے اختیارات کے ساتھ ساتھ جمہوریت کی نشانیاں مٹانے کی مہم بھی جاری ہے۔ سکرینوں پر نظر آنے والے بانکے سجیلے وزراء سرکاری افسران سے ہدایات لے کر دکانداریاں چمکا رہے ہیں۔ جوڈیشل ایکٹوازم اتنے زوروں پر ہے کہ جس طرف رخ کرے اسے تنکوں کی طرف بہا کر لے جائے۔ ملک کو آئینی، قانونی، جمہوری اور سیاسی حوالوں سے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ اس پیچیدہ صورتحال کا حل سیاسی قیادت نے ہی نکالنا ہے۔ دیکھیں کب ایسا ہو گا۔

جو کچھ ہو رہا ہے اس کا منظر نامہ مسلم لیگ ن کی 2013ء میں آنے والی حکومت سے بھی پہلے تیار کر لیا گیا تھا۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ زیادہ چھپایا بھی نہیں گیا مگر سیاسی جماعتیں توڑ کرنے میں ناکام رہیں۔ کسی نہ کسی سطح پر یہ فیصلہ کر لیا گیا تھا، مسلم لیگ(ن) کی حکومت ہموار طریقے سے مدت پوری کرنے میں کامیاب ہو گئی تو مزید بااختیار ہونے کے لیے ادھر ادھر دیکھنا شروع کر دے گی۔ بعض ایسے واقعات ہوئے بھی، خصوصاً اس وقت کہ جب مالی معاملات کی درستی کا نعرہ لگانے والے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار فائلیں اٹھا کر مختلف دفاتر میں جاتے پائے گئے۔ سی پیک کے حوالے سے عالمی پریشر پہلے ہی سے موجود تھا۔ اس تمام گیم میں فیصلہ کیا گیا کہ حکومت کے لیے ہر گزرتا دن مشکل بنانا ہو گا۔ بنیادی تصور یہی تھا کہ اگر تین بار وزیراعظم رہنے والے تجربہ کار نواز شریف سے خاندان سمیت جان چھڑا لی جائے تو لولی لنگڑی مسلم لیگ(ن) کو راہ راست پر لایا جا سکتا ہے۔ اسی لیے 2018 ءکے عام انتخابات سے پہلے یہ تاثر دیا گیا کہ شہباز شریف اگلے وزیراعظم ہو سکتے ہیں۔ پھر یہ بات سامنے آئی کہ وفاقی حکومت پی ٹی آئی کو ملے گی اور پنجاب حکومت ایک بار پھر سے ن لیگ کے حوالے کر دی جائے۔ تمام منصوبہ نہایت کامیابی سے آگے بڑھ رہا تھا۔

اس پورے ڈرامے میں صرف ایک ایکٹ شامل نہیں تھا وہ یہ کہ جے آئی ٹی کے روبرو خود اپنے اور اپنے بچوں کی سخت پیشیوں اور پھر جیل میں ڈالنے کی خبروں کے بعد نواز شریف پاکستان نہیں چھوڑیں گے۔ اس کے لیے انہیں باقاعدہ پیغامات بھیجے گئے۔ حکومت چھوڑ کر باہر جانے کے پیغامات کا یہ سلسلہ 2014ء کے دھرنوں سے شروع ہوا۔ کئی بار یہ بھی کہا گیا کہ کوئی مشتعل ہجوم رائے ونڈ فارم پر حملہ آور ہو کر سب کو مار سکتا ہے مگر ”مرد ناداں“ پر کچھ اثر نہ ہوا۔ پھر پاناما آیا تو موقع مل گیا۔ سپریم کورٹ نے نااہل کر کے وزارت عظمیٰ سے فارغ کر کے کیس احتساب عدالت کو بھجوا دیا۔ پھر مشہور زمانہ جے آئی ٹی بنی اور پھر احتساب عدالت کا فیصلہ آگیا۔ ملک بھر کے پروفیشنل وکلاء اس حوالے سے جو قانونی رائے رکھتے تھے وہ سب کے سامنے آتی رہی۔ ریاستی سرپرستی میں جاری میڈیا ٹرائل اس وقت دھرا رہ گیا جب وکیل صفائی نے جرح شروع کی۔ فاضل جج صاحبان نے خود نیب حکام اور پراسیکیوٹر سے سوال جواب شروع کیے تو کیس کی دھجیاں اڑ گئیں۔ جو لوگ ایک مخصوص سوچ کے حامل قانونی ماہرین کو ایک طرف رکھ کر کیس کو دیکھ رہے تھے انہیں یقین تھا کہ فیصلہ یہی آئے گا۔ نیب حکام نے فیصلہ آنے سے پہلے، بعد میں جو حرکتیں کیں اس سے اندازہ ہو رہا تھا کہ انہیں سخت ڈانٹ پڑ رہی ہے۔

اس سے قبل اسٹیبلشمنٹ کا اندازہ تھا کہ نواز شریف سزا کا سن کر لندن میں ہی رہ جائیں گے۔ کلثوم نواز کی عیادت کے لیے لندن گئے سابق وزیراعظم کو روکنے کے لیے اہم سرکاری عہدیدار ان کے سمدھی چودھری منیر کو بیچ میں ڈالتے رہے۔ گرفتاری کے بعد نواز شریف اور سی کلاس جیل کاٹنے والی مریم پر کئی طرح کی سختیاں کی گئیں کہ وہ کسی طرح این آر او پر راضی ہو جائیں۔ ”بزرگ حوالدار تجزیہ کار“ المعروف خلیفہ جی نے لائیو پروگرام میں یہ کہہ کر اپنے ہی چاہنے والوں کو ہکا بکا کر ڈالا کہ لوگ الٹ سمجھ رہے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ تو این آر او کے لیے تیار ہے مگر نواز شریف نہیں مان رہے۔ خلیفہ جی کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ پرامید ہے کہ جیل کی سختیوں سے گھبرا کر نواز شریف جلد باہر جانے پر رضا مند ہو جائیں گے۔

یہ بات بالکل درست ہے کہ شریف خاندان کے بین الاقوامی رابطے آج بھی کافی حد تک بحال ہیں۔ کلثوم نواز کے انتقال پر اس کا عملی مظاہرہ سب نے دیکھ لیا۔ باور کیا جاتا ہے کہ انہیں بیرون ملک سے بھی کسی نے مشورہ دیا ہو کہ وہ این آر او کر لیں۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ بھی یہی چاہتی ہے کہ نواز شریف خاندان سمیت ملک چھوڑ جائیں تاکہ ”کاروبار مملکت“ مزید روانی سے چلتے رہیں۔ آگے کیا ہو گا، اللہ ہی جانے۔ فی الوقت تو نواز شریف کی جانب سے کورا جواب ہے۔ سیاسی مبصرین کا یہ کہنا ہے کہ اگر نواز شریف این آر او کر لیتے ہیں تو پھر آصف زرداری کو ہمشیرہ سمیت جلاوطن کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ ملک میں موجودہ تجربہ کار سیاسی قیادت کو تو الیکشن 2018ء میں پہلے ہی سے ”ٹھکانے“ لگایا جا چکا ہے۔ فوری طور پر کوئی تحریک چلے نہ چلے، یہ بات طے ہے کہ نواز شریف کی پاکستان میں موجودگی ان کے تمام مخالفوں کے لیے درد سر بنی رہے گی۔ ان حالات میں فواد چودھری کی اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ نواز شریف اور مریم کو باہر نہیں جانے دیں گے۔ یہ تو تسلیم شدہ ”یوٹرن حکومت “ہے۔ کل کلاں نواز شریف باہر چلے بھی گئے تو کون سا کسی نے شرمندہ ہو جانا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اور نواز شریف کی اس محاذ آرائی میں دیگر تما م کردار مہرے ہیں اور صرف مہرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).