قرۃ العین حیدر کے تین افسانے: ڈالن والا، جلا وطن، یادوں کی ایک دھنک جلے


قرۃ العین حیدر کے افسانوی مجموعے ”پت جھڑ کی آواز‘‘ کا پہلا افسانہ ”ڈالن والا‘‘ ہے۔ جو کہ ایک مقام کا نام ہے۔ اس افسانے میں واحد متکلم راوی کا مکان ایک مرکزی جگہ بن کر مختلف کرداروں کا نقطۂ اتصال بنتا ہے۔ وہاں ایک ہی مقام اور محلے کے متنوع کردار حتٰی کہ کتے بلی کے کردار، اشرافیہ طبقہ کی سرگرمی، انگریزوں کا احساس مہاجرت، ہوم کا تصور ان کے نقال دیسی مسیحیوں کا نو آباد کار کی سر زمین سے لگاو، مس ڈائنا اور اس کے باپ کی زندگی کے نشیب و فراز اور المیہ، مس زبیدہ کا تشنہ وجود، محبوب کی طلب کے لیے مذہبی اوراد و اذکار کا اہتمام، ریشم نامی بلی کے عادات و  اطوار اور اس کا زخمی ہونا، تفریحی وسائل میں سرکس اور پھر سینما کی آمد، فقیرا کی بھاوج، تعدد شوہری، بھاوج کا مرنا، ارتھی کی راکھ میں گوریا کے پیر کا بننا اور اسطور میں بدلنا، ماضی کی ڈھہتی قدریں اور جدید زندگی کے ابھرتے نئے طور، اتنے سارے پہلوؤں کو افسانہ نویس ایک ہی افسانہ میں جمع کرتی ہے۔ اور کرداروں کی تفہیم کے لیے انھیں وقفے وقفے سے ارتقائی مدارج طے کرواتی ہے۔ عام انسانی زندگی سے ہوتے ہوئے انجام کار کے طور پر ایک خوش تراشیدہ اسطور بن لیتی ہیں۔

یہ طویل افسانہ کثیر جہتی ہے۔ اس کے تمام جہات کو دام تحریر میں لانا طوالت کا باعث ہو گا۔ فقط تین کردار دیکھیے۔ ایک سائمن کا کردار جو سرود کی تعلیم دیتا ہے۔ خود دار ہے، انسانیت سے معمور، بہ مشکل سامان زیست مہیا کرتا ہے اس کے باوجود ریشم نامی بلی تک سے حسن سلوک کو لازم جانتا ہے۔ ماہانہ آمد دس سے پندرہ روپے ہوتی ہے۔ افسانہ نویس اس کردار کی جو شبیہہ بناتی ہیں، وہ گھسے ہوئے کوٹ پتلون میں ملبوس ہے۔ کرسمس کی رات اس کی موت پر یہ راز کھلتا ہے کہ وہ ٹھنڈ کی وجہ سے مر گیا اور اس کے لباس کے گھسنے کی وجہ یہ تھی، کہ وہ لباس پہن کر ہی سو جاتا تھا۔ اس کے پاس ایک ہی کمل تھا۔ وہ گرم بستر کی قلت سے مرتا ہے اور دوسری طرف ریشم نامی بلی ملائم پشمینے کی شال میں لپٹی، ٹوکری کے نرم گرم گدیلوں میں سمٹی سمٹائی بیٹھی رہتی ہے۔ یہ ہے وہ تضاد جو نو آباد کار، نوکر شاہ اور عوامی طبقے کے ما بین تھا۔

زبیدہ صدیقی جو پرہیز گار خاتون کے روپ میں سامنے آتی ہیں۔ چلے کھیچتیں، وظائف پڑھتی ہیں۔ بعد میں یہ کھلتا ہے کہ یہ ساری محنت ڈاکٹر محمود کی طلب میں تھی۔ فقیرا کی بھاوج کے بارے میں جان کر اس کے تعدد شوہری پر رشک کرتے ہوئے جب وہ یہ کہتی ہیں، کیا ہی خوش نصیب عورت ہے تو اس مقام پر زبیدہ صدیقی کے باطن کو ایک جملے میں افسانہ نویس  نے عریاں کر دیا ہے۔ زبیدہ صدیقی کے محبوب ڈاکٹر محمود نے جب ان کی سولہ سالہ بھتیجی سے شادی کر لی، تو ان کے پرہیز گاری کا پندار ٹوٹا۔ اور وہ اپل سے شادی کر کے زبیدہ صدیقی نہیں رہتیں، زبیدہ اپل ہو جاتی ہیں۔ یعنی وہ محبت جس کے لیے وہ اتنے جتن کر رہی تھیں، اس سے محروم ہوتے اپنی اصل طلب ان پر روشن ہوتی ہے اور سارے پرہیز حتیٰ کہ غیر مسلم کے ہاتھ کے کھانے سے پرہیز کی جگہ وہ اس سے ہم آغوش ہونے کا قانونی جواز مل جانے پر اس قدر شاداں ہیں، کہ فخریہ مکتوب میں اس کا ذکر کرتی ہیں۔

تیسرا کردار فقیرا اور اس کی بھاوج کا ہے، جو تعدد شوہری کی مثال، مادر سری نظام کی علامت اور پہاڑی زندگی کے طور کی نمایندہ ہے۔ اس کی بھاوج اس سے پہلے اس کے دوبھائیوں کی مشترک بیوی رہ چکی ہے، اس کے باوجود رقابت کا گزر تک نہیں۔ فقیرا کا اس سے لگاؤ والہانہ بھی ہے اور جنسی بھی۔ جب وہ مرتی ہے تو فقیرا کہتا ہے ”انا جی کیسے صبر کروں میری ماں تھی تو وہ، بھاوج تھی تو وہ۔ بیوی تھی تو وہ ‘‘عقیدۂ تناسخ کی رو سے وہ اس کی چتا کی راکھ میں اس مخلوق کے قدموں کے نشان کی جست جو کرتا ہے، جس میں مرحومہ کو واپس آنا ہے۔ گوریا کے پاوں کے نشان راکھ میں نمودار ہوتے ہیں اور گوریا فقیرا کے لیے تقدس، محبت اور پیار کا مرکز بن جاتی ہے۔ وہ ساری گوریاؤں کے ساتھ یک ساں سلوک کرنے لگتا ہے۔ ان کے دانا پانی کا انتظام کرتا ہے، صرف اپنی بھاوج، بیوی کی محبت میں۔ اس مقام پر پہنچ کر فقیرا اور اس کی بھاوج اور زبیدہ صدیقی کے باہمی سرے بظاہر ایک دوسرے سے نہیں ملتے لیکن زرا غور سے دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ محبت کو لے کر دو رویے یہاں بیان ہو گئے، ایک پدر سری مستعجل رویہ جس کی پشت پر دیگر جبلی تقاضے شدید دباؤ کی صورت موجود تھے، کہ اپنی بھتیجی سے محبوب کی شادی ہوتے ہی زبیدہ نے رشتہ جسم کا قانونی جواز تلاش کر، جنسی الجھنوں سے خود کو آزاد کر لیا، وہیں فقیرا ایک عورت میں ماں، بھاوج اور بیوی کا مثلث پا کر ایسا آسودہ ہوا، کہ ترفع کی اس منزل پر پہنچا جہاں اس نے ایسی مخلوق سے اپنا رشتہ جوڑا، جس سے جسمانی تعلق کی کوئی امید نہیں، فقط جذبہ اور احساس کا ایسا محرک ہے جو ہر پھدکتی گوریا میں اسے اپنی بیوی کے معروض کا گمان کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ اس افسانے کا انجام کس قدر خوب صورت ہے اور کیسے اسطور میں مبدل ہوتا ہے۔

”سائمن نہ آئے دھوپ مدھم پڑ گئی۔ اس نے اکتا کر اندر واپس آنے سے پہلے ایک گوریا چڑیا پر تاک لگائی۔ گوریا پھر سے اڑ کر سلودادک کی شاخ پر جا بیٹھی۔ ریشم نے اس کے تعاقب میں درخت پر چڑھنا چاہا مگر اپنی شکستہ ٹانگ کی وجہ سے جڑ پر سے پھسل کر نیچے آ رہی۔ گوریا پھدک کر اس سے اونچی شاخ پر چلی گئی۔ ریشم نے منہ اٹھا کر بڑی بے کسی سے کم زور سی میاؤں کی، گوریا نے پر پھیلائے اور کھلے نیلے آسمان کی سمت اڑ گئی۔‘‘

ایک ہی فضا اور محلے میں بیک وقت کئی سطحیں اور جہتیں موجود ہیں اور وہ اظہار پانے میں کام یاب بھی کہ زندگی کے کئی طور، محبت کے کئی روپ اور آزمائش کی کئی شکلیں افسانوی تعبیر پاتی ہیں۔ یہ کثیر جہتی مواد طویل افسانے کے حجم اور ہیئت ہی میں سما سکتا ہے۔

”جلا وطن‘‘ اپنے دور کا ممتاز افسانہ ہے۔ افسانہ کیوں کر طویل افسانہ ہے۔ حسب سابق اس میں بھی کرداروں کی ہلکی لو دیتی ایک دنیا ہے۔ افسانے کا موڈ انفرادی تجربہ ہرگز نہیں۔ سب کے اپنے اپنے تجربے، کرداروں کی اپنی آپ بیتیاں، خاص سیاسی صورت احوال اور تاریخی تناظر میں اظہار پاتی ہیں۔ اور یوں ایک اجتماعی تاثر کی صورت، پوری کہانی جلا وطنی کا بے انت بن باس بنتی ہے۔ جلا وطنی کسی میں شعور، نظریے اور زندگی کے فوت شدہ لمحوں میں ہوئی چوک سے ہونے والے جذباتی خسارے کا اعلامیہ ہے، تو کسی میں فقط جھجک اور بے تامل اظہار سے پرہیز کے نتیجے میں ہونے والے گھاٹے کا ان مٹ اور اندوہ کار نشان۔ آفتاب رائے اور کنول رانی کے کرداروں سے گزر کر جو صورت بنتی ہے، اس کا مجموعی تاثر ٹٹولیے تو ذہن، دل، جذبہ، احساس کی انفرادی سطحیں دیس نکالا جھیلنے پر مجبور ہیں۔ تاریخی نسٹالجیا سے پھیلے اندھکار پر نظر کیجیے، تو آپسی میل جول بھائی چارہ، ساجھی معاشرت، مشترک تہذیب، مذہبی تکثیریت میں وحدت کی روح کی اجتماعی سطحیں جلا وطنی بھوگنے کو ووش ہیں۔ یہاں جلا وطن فقط دیس نکالا دیے جانے کا نرا لفظ نہیں رہتا بلکہ انفرادی زندگی اور اجتماعی معاشرت کی گم شدگی سے پیدا ہونے والے خلا کا استعارہ بن جاتا ہے۔

حسب سابق یہاں بھی جملوں اور مکالمات کی سطح پر مختلف طبقے یک جا دکھائی دیتے ہیں۔ شہری تہذیب کا اشرافیائی مکالمہ، متمدن اور تعلیم یافتہ سماج کی فکری و فلسفیانہ موشگافی اور عام بول چال کا لہجہ، فقرہ، محاورہ سب یک جا ہیں۔ اگر چہ فلسفیانہ خیال آرائی اور تعلیم یافتہ طبقے کی ترجمانی کے پہلو افسانے میں غالب ہیں لیکن عام زندگی بالکل غائب بھی نہیں۔ تہذیبی اور مذہبی سر گرمی کے بطن سے ہندو مسلم کے معاشرت کے روحانی طریقہ کار اور ان کے مادی مظاہر اپنی شکل دکھاتے ہیں۔ تاریخ کے ناپخت تصور سے ذہنی و فکری آلود کاری کا عمل انجام پاتا ہے، جس سے تنافر کی کھیتی، ملکی تقسیم کی منطق، دو الگ تہذیبی بیانیے اپنا جواز پاتے ہیں۔ اور یہ سب فرقہ وارانہ ایندھن بن کر جلتے بھبھکتے اور دوئی کی خلیج اور خندق دہکاتے نظر آتے ہیں۔ کرداروں کی ذہنی سطح اور تعلیمی پس منظر کو افسانہ نویس نے اس طور سے بنا ہے کہ کردار طبعی انداز میں سفیر دانش وری کا فرض ادا کرتے ہیں۔ اور بے کیف ہونے کے بجائے اس اندوہ کو دو آتشہ کرتے ہیں جسے اجتماعی اور انفرادی جلا وطنی کے احساس نے پیدا کیا ہے۔ تاریخ کے نیم پخت اور مریضانہ تصور سے پنپنے والے تفریقی زاویہ ہائے نگاہ کا تجزیہ مصنفہ نے بہتر انداز میں کیا ہے۔ کشوری مسلم کردار ہے خود کو کٹر مسلم لیگی مانتی ہے۔ وہ کہتی ہے:
”یہی ایک مثال میری اور کھیم کی دیکھ لو اور کیا دوستی اور یگانگت کا عالم تھا، پر تھے ہم ان کے لیے ملیچھ، ان کے چوکے کے قریب نہ پھٹک سکتے تھے۔ اور ہماری اماں کا یہ سلسلہ تھا کہ اگر ہندو کی دکان سے کوئی چیز آتی تو اسے فورا غوطہ دے کر پاک کیا جاتا تھا۔ ایک قوم اس طرح بنتی ہے؟ تقسیم کا مطالبہ ہند کی ساری تاریخ نہایت فطری اور نہایت منطقی نتیجہ ہے۔
‘‘(صفحۃ، 70، پت جھڑ کی آواز )

دوسرا رخ بھی دیکھتے چلیے جس کی ترسیل کا ذریعہ ڈاکٹر آفتاب رائے کا ایک شاگرد ہے، جو ان سے تکرار کرتے ہوئے کہتا ہے ”آزادی کا مطلب ڈاکٹر صاحب مکمل سوراج ہے۔ ہند کی دھرتی کو پھر سے شدھ کرنا ہے۔ ساری ان قوموں کے اثر سے آزاد ہونا ہے جنھوں نے باہر سے آ کر حملہ کیا۔ یہی تلک جی نے کہا تھا، جی ہاں‘‘۔
(ایضا:73)

ایک تاریخی عمل کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تکثیریت و تنوع سے دھرتی ماتا کو پاک کرنے کا رجحان ہے تو دوسری طرف پوتر استھان کی طلب، دونوں بچکانی فکریں ہیں جس کے خونچکاں انجام کا خوف اس دانش وری کو لاحق ہے جو تاریخ کے الٹے پاوں لوٹائے جانے اور تہذیبی زمین کے دو لخت ہونے کی تباہ کاریوں سے بخوبی واقف ہے۔ ملک کی تقسیم کے بعد ان قوم پرست مسلمانوں کی صورت احوال دیکھیے جو دھرتی پریم میں خوف و ہراس کا خوں چکاں ماجرا گزرنے پر بھی ٹس سے مس نہ ہوئے لیکن ان کی صلابت اور پختگی کی داد یوں ملی کہ ان کے اپنے ہم نشینوں نے انھیں شک کی نگاہوں سے دیکھا اور ان پر بد طینتی کا اندیشہ ظاہر کیا۔

افسانے کے انجام پر غور کیجیے۔ کنول کماری کے رکھ کھاو اور ظاہری متانت اور علمیت کے نیچے موج زن اس فشار کا اندازہ کیجیے جو آفتاب رائے کے تامل اور جھجک کا نتیجہ ہے۔ کشوری کے اس لمحۂ خود آگہی کے بارے میں سوچیے، جب اس پر اپنی بد دماغی روشن ہوئی۔ غلطیوں کا سا یہ آگے آگے چلتا ہے، رات پیچھا کرتی آتی ہے، زمان و مکان، منظر و بنجر سب سناٹا بنتے اور سناٹا پہنتے اوڑھتے ہیں۔ موت کے پاوں کی دھپ دھپ سنی جاتی ہے اس سے چھٹکارے کے لیے یقین کا وہ ستون تھاما جاتا ہے، جو محبت کا تعمیر کردہ ہے۔ کیسی محبت جو غداری سے عبارت ہے۔ اپنے مہان کاریوں کے کرتوت ثابت ہونے پر پھر سے زندگی کی طرف واپسی ہے۔ ان حالات میں جینے کا حوصلہ ہے کہ زندگی موت سے عبارت ہے اور موت کا خوف ہی پناہ گاہ اور تحفظ کا خالق ہے۔

”یاد کی ایک دھنک جلے‘‘۔ انچاس صفحے کا افسانہ ہے۔ افسانہ کہیے یا سوانحی افسانہ؛ افسانہ نویس بطور واحد متکلم راوی یہاں موجود ہے۔ افسانے کا دورانیہ دس بارہ سال سے کیا کچھ کم ہو گا۔ معاون کردار بھی کئی ہیں مگر وقفہ ان کے کہانی میں ٹھہرنے کا معمولی ہے۔ راوی کا باپ سجاد، باپ کا دوست ناصر، ناصر کی خادمہ گریسی جو بعد کو ناصر کی بیوی بن جاتی ہے اور ناصر کی فوت شدہ بیوی سے ان کا بیٹا علی اصغر۔ علی اصغر، ناصر اور گریسی کے کردار ایسے ہیں جو باقاعدہ ترقی کرتے ہیں۔ ناصر کی دوسری شادی کے امکانات روشن ہو رہے ہوتے ہیں، تو گریسی کے معصوم جذبات، علی اصغر کے لیے اس کی فکر مندی اس کے باطن میں موجود عدم تحفظ کا احساس اس گھر اور بچے سے علاحدہ کیے جانے کا خوف، کس طرح اسے کنواری مریم کے رو برو کرتا اور وہ کس بے تکلفی سے ان سے ہم کلام ہوتی ہے۔ اس پوری کارروائی سے نسائی نفسیات کے اندرون میں جھانکنے کی سعی ہو تی ہے۔ کہانی فقط کہانی نہیں ہے ماجرا بھی ہے اور محاکات بھی کہ چیزیں باقاعدہ دکھائی گئی ہیں، بتائی نہیں گئیں۔ وقت کے چھوٹے سے لمحے میں نسائی نفسیات اور چچا ناصر کی متوقع دولہن سے متعلق خواتین کی جلد بدلتے رائے کے ذریعے گھریلو عورتوں کے تسلی کے بہانے جملوں، محاوروں اور مکالموں کا روپ پا کر معاشرت کی ایک نئی جہت سامنے لاتی ہے۔

افسانہ بمبئی کی سر زمین سے اٹھتا ہے، یادوں کی دھنک کچھ لمحوں کے لیے دہرہ دون لے جا تی ہے۔ افسانہ پھر بمبئی واپس لوٹتا ہے اور آخر کار لاہور جا کر مرکزی کردار انجام کو پہنچتے ہیں۔ گریسی جو ممتا اور محبت اور ہم دردی اور جاں نثاری کا مجسم پیکر ہے۔ لڑکے علی اصغر کی زندگی کے لیے اپنی زندگی کے عشرے خرچ کرتی، صلے میں بے اعتنائی اور بے التفاتی لے کر مخدوش مستقبل کے اندھکار میں گم ہو جاتی ہے۔ افسانہ نویس کا تخیل پھر سے بمبئی کو حاضراتی اسلوب میں آئنہ کرتے ہوئے، عورت کے وجودیاتی کرب اور اس کے مختلف اشکال پر اظہار خیال کرتا ہے۔ اور خدا یا ان دیکھی قوت میں اس کے یقین پر سوالیہ نشان قائم کرتا ہے۔ طرز نگارش میں مقامی لہجے کی آویزش بھی اس افسانے کا اہم خاصہ ہے۔ گریسی کی مذہبیت ایک معنی خیز پہلو۔ کنواری مریم سے اس کی بے تکلف گفت گو میں معصومیت اور قربت کی کتنی جہتیں ہیں۔ افسانے کی معنی خیزی اس وقت دو چند ہو جاتی ہے، جب گریسی کی طرف سے افسانہ نویس یہ مکالمہ ادا کرتی ہے۔
”دیکھو ماں! ہم تمھارے کو ایک بات بولتا ہے، کان کھول کر سن لو، تم نے ہمارا وِش پورا کیا، ہمارے بچے کے لیے گھر کا سیکورٹی بنائے رکھا، ہمارا صاحب ورلڈ کا گریٹسٹ فائنیسٹ مین تھا، مگر وہ ہمیں اس دنیا میں اکیلا چھوڑ کر چلا گیا۔ اب ہم پھر تمھارے پاس آیا ہے، بتاؤ اب ہم کیا کرے، ایک دم جلدی بولو، ورنہ ہمارا تمھارا دوستی ختم‘‘۔
اخیر تک پہنچتے پہنچتے افسانہ گریسی کی کہانی بچتا ہے اور ہمارے لیے بڑا سوال اور گہرے سوچ بچار کا بہانہ۔

ہم نے ان تین افسانوں کے تجزیے میں دیکھا کہ طویل افسانہ کیوں کر کسی تخلیق کار کے لیے ناگزیر ہو جاتا ہے۔ اس کی کہانی کا موڈ اور جہتیں مختصر افسانے سے نہ تو نبھ سکتیں ہیں، نہ سنبھل سکتیں ہیں، کیوں کہ ایجاز و اختصار کسی ایک نکتے پر ارتکاز، ارتقا و انجام اور شدت تاثر کی عائد کردہ شرائط طویل افسانے کے لیے تو پیر کی بیڑیاں ثابت ہوتیں ہیں۔ جب کئی پہلو کسی ایک نکتے کے گرد گھوم کر انجام کو پہنچنا چاہیں یا ایک مختصر واقعہ کرداری کیفیات و نفسیات کے مکمل اظہار کا متقاضی ہو کہ لمحہ لمحہ اور منظر منظر شرح و بسط سے رقم کیا جائے یا کہانی کے ابعاد متعدد ہوں تو ان صورتوں میں طویل افسانہ تخلیق کار کے لیے کارگر وسیلہ بنتا ہے۔ اور زیر تجزیہ افسانے اس کی بین شہادتیں ہیں۔ ایسی کئی شہادتیں قرۃ العین حیدر کے یہاں موجود ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).