مامی کے مقدر میں رونا لکھ دیا گیا ہے


آج مامی فرحت پھر رو رہی ہے۔ اب تو یہ معمول ہی بن گیا ہے۔ پتا نہیں کیوں اس کا نام ماں باپ نے فرحت رکھا تھا۔ نام بعض اوقات الٹ اثر رکھتے ہیں۔ مگر کیا نام میں کچھ ہوتا ہے، یا نصیب ہی سب کچھ ہوتا ہے۔ مامی کا نام کچھ بھی ہوتا، اب اس نے رونا ہی تھا۔ اس کے مقدر میں رونا لکھ دیا گیا ہے۔ پکے اسٹامپ پیپر پر، ان مٹ سیاہی سے۔ اور سیاہی ایسی کہ خشک ہی نہیں ہوتی، مامی کے آنسووں کے مانند سالہا سال سے گیلی۔

مامی کو پچھلے پانچ سال سے میں نے مسلسل روتے ہی دیکھا۔ پانچ سال سے پہلے بھی وہ روتی تھی مگر سب کے سامنے نہیں۔ اس کی آنکھیں بتاتی تھیں کہ وہ روتی ہے۔ آنکھیں بھی بچوں کی طرح ہوتی ہیں، کچھ چھپا نہیں سکتیں، سب بتا دیتی ہیں، بنا پوچھے، بغیر کسی سوال کے، کسی معصوم کے مانند۔ زبان جھوٹ بھی بولے تو آنکھیں سچ بول رہی ہوتی ہیں۔ اور مامی کی آ نکھیں؛ مامی کی آنکھیں تو ویسے بھی الگ تھیں، بڑی بڑی، اپنی طرف کھینچتی۔ جب میں نے اُسے پہلی دفعہ دیکھا تھا تو دیکھتا رہ گیا تھا۔ اور ویسے بھی یہ اُس کی شادی کا دن تھا، اور میں شادی کا سربالا۔ جب دولہا دولہن کو ساتھ بٹھایا گیا تھا، تو سربالا مڑ مڑ کر دولہن کی آنکھوں کو دیکھ رہا تھا۔ اُس کی آنکھوں میں چمک تھی، اپنی طرف کھینچتی۔ سرمے سے سیاہ ہوئی آنکھیں، لمبی لمبی پلکیں اور بڑی بڑی آنکھیں۔ مامی کی آنکھیں اب بھی سیاہ تھیں مگر اب وہ سرمے سے نہیں بلکہ رو رو کر سیاہ تھیں۔ اس کی بڑی بڑی آنکھوں کے گرد حلقے تھے، صبح شام کے گریہ کا عطیہ۔

ہم فیصل آباد سے اعجاز ماموں کی بارات لے کر کمالیہ گئے تھے۔ وہی کمالیہ جہاں کا کھدر مشہور ہے۔ دستی کھڈی کا بنا ہوا کھدر، اپنی الگ باس رکھتا، اپنی طرف کھینچتا، گرمائش کا احساس دیتا، اوڑھے بغیر صرف دیکھنے پر بھی گرمائش کا احساس دیتا۔ اور مامی بھی کسی مل کی مشین سے نکلے کپڑے کے انبار کا حصہ نہ تھا، وہ دستی کھڈی کا شاہ کار تھی، اونچی لمبی جٹی، کسی دست کار کا کمال۔

مامی گرہستن تھی، وہ فیصل آباد بیاہ کر آئی تو اس نے جلد ہی سب کو اپنا گرویدہ کر لیا۔ اور تو اور نانی جو اتنی آسانی سے خوش نہ ہوتی تھیں، وہ بھی فرحت فرحت کہتی نہ تھکتی تھیں۔ مامی کی شادی شدہ زندگی کے بیس سال خوشی سے گزرے، اور پھر اس کی زندگی ایسی بدلی کہ سب بدل گیا۔ اور یہ سب کس وجہ سے ہوا، کوئی اس کا جواب نہیں جانتا۔ اصل وجہ بیان کرنا مشکل ہے، اور مشکل یوں بھی کہ کوئی سننا نہیں چاہتا، جاننا نہیں چاہتا۔

ہاں، مگر اس کہانی کا ایک کردار میرا ماموں زاد ارسلان تھا۔ ارسلان ماموں اور مامی کا اکلوتا بیٹا تھا۔ زرعی یونیورسٹی میں پڑھ رہا تھا کہ جہادی تنظیموں کے روابط میں آ گیا۔ جوانی دیوانی ہوتی ہے، اور اس دیوانگی میں تو فلک شگاف نعرے بھی تھے، اسلحہ، گاڑیاں، تھرل اور نعرے۔ جب تک ماموں کو پتا لگتا ارسلان افغانستان میں تھا۔ اُس کو افغانستان سے واپس لانا ایک جتن تھا، ماموں ایک تنظیم سے دوسری تنظیم کی طرف بھاگ رہے تھے، اور مامی کی آنکھیں دور دیکھ رہی ہوتیں، دور بے سمت دیکھتیں۔ ان کی آنکھوں کے گرد ہلکے نمودار ہونے لگ گئے۔ ان کی نمازیں لمبی اور دعائیں لمبی ترین ہوتی چلی گئیں۔

چھہ ماہ کی کوشش اور بے بہا پیسے کے خرچ کے بعد ارسلان واپس آیا۔ ماموں اور ممانی اس کے پیچھے تھے، اُس پر نظر رکھے۔ حالات بدل گئے تھے، کل کے ساتھی آج کے دشمن تھے۔ اور چھہ ماہ بعد ارسلان پھر غائب تھا، کسی خبر کے بغیر۔ کبھی پتا چلتا کہ وہ وزیرستان میں ہے، کبھی افغانستان میں۔ پھر خبر آئی کہ وہ پکڑا گیا ہے۔ دو سال ماموں در بدر پھرتے رہے، اور مامی مصلے پر کھڑی رہیں۔ مصلے پر کھڑی، مگر ان کی نگاہیں کہیں دور دیکھ رہی ہوتیں، دور ان جان سمت دیکھتیں۔

دو سال بعد کہیں سے خبر ملی کہ ارسلان میانوالی جیل میں ہے۔ ماموں نے عدالت میں درخواست ڈال دی، اور درخواست کے ٹھیک ایک ماہ بعد ارسلان گھر آ گیا، کبھی نہ جانے کے لیے۔ اُس کے جسم میں تین گولیاں پیوست تھیں۔ اس خبر کے ساتھ کہ اس کے ساتھیوں نے اُسے چھڑوانے کے لیے حملہ کیا تھا اور ارسلان مارا گیا۔ اکیس سال کے جوان جسم کو تین آدھے اونس کی گولیوں نے گرادیا تھا، ہمیشہ کے لیے۔ ماموں کی در بدری ختم ہو گئی۔ مامی نے مصلہ لپیٹ کر رکھ دیا، اور اس کی آنکھوں کے حلقے مستقل ہو گئے۔

آج پھر مامی رو رہی ہے۔ آج کہ ایک فوجی آپریشن کے دوران تین فوجی مارے گئے، کیپٹن جنید، حوالدار سمیع اور سپاہی اللہ رکھا۔ مامی فرحت اس غیر شادی شدہ کیپٹن جنید کو رو رہی ہے، مامی فرحت چار بیٹیوں کے باپ حوال دار سمیع کو رو رہی ہے، مامی فرحت سپاہی اللہ رکھے کو رو رہی ہے۔ نام بعض اوقات الٹ اثر رکھتے ہیں۔ مگر کیا نام میں کچھ ہوتا ہے، یا نصیب ہی سب کچھ ہوتا ہے۔ مامی فرحت ان فوجیوں کے مخالف اپنے اکلوتے بیٹے ارسلان کو رو رہی ہے۔ اور یہ سب کس کی وجہ سے ہوا، کوئی اس کا جواب نہیں جانتا۔ اصل وجہ بیان کرنا مشکل ہے، اور مشکل یوں بھی کہ کوئی سننا نہیں چاہتا، جاننا نہیں چاہتا۔

مامی کے مقدر میں رونا لکھ دیا گیا ہے۔ پکے اسٹامپ پیپر پر، ان مٹ سیاہی سے۔ اور سیاہی ایسی کہ خشک ہی نہ ہوتی ہو، مامی کے آنسووں کے مانند سالہا سال سے گیلی۔

عاطف ملک
Latest posts by عاطف ملک (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عاطف ملک

عاطف ملک نے ایروناٹیکل انجینرنگ {اویانیکس} میں بیچلرز کرنے کے بعد کمپیوٹر انجینرنگ میں ماسڑز اور پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کی۔ یونیورسٹی آف ویسڑن آسڑیلیا میں سکول آف کمپیوٹر سائنس اور سوفٹ وئیر انجینرنگ میں پڑھاتے ہیں ۔ پڑھانے، ادب، کھیل اور موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ طالبعلمی کے دور میں آپ نے اپنی یونیورسٹی کا400 میٹر کی دوڑ کا ریکارڈ قائم کیا تھا، جبکہ اپنے شوق سے کے-ٹو پہاڑ کے بیس کیمپ تک ٹریکنگ کر چکے ہیں۔

atif-mansoor has 74 posts and counting.See all posts by atif-mansoor