کرایے دار مرنے سے باز رہیں


بے گھروں کیلئے پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر شروع ہونے والی ہے۔ ہر برس دس لاکھ گھر تعمیر کئے جائیں گے۔ نئی حکومت بے گھر افراد کو گھروں کی فراہمی کے وعدے کی تکمیل کیلئے پرعزم ہے۔ پڑوسی ملک ہندوستان سے ناول نگار ارون دتی رائے نے اپنے ایک ناول کا انتساب ”جن کا دکھ نہیں بانٹا گیا “ کے نام کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا دکھ بانٹنے والی نہیں۔ ان گھروں کی تعمیر میں برطانوی سرمایہ کار انیل مسرت کے ذکر سے ارون دتی رائے کا کہنا کچھ اور بھی سچ لگتا ہے۔ انیل مسرت کی آمد پرمسرت ہرگز نہیں۔ یہ برطانوی سرمایہ کار ڈاکٹر محمد امجد ثاقب کے قبیلے سے نہیں کہ اس کے مقاصد غیر کاروباری ہوں۔ ایک سرمایہ کار صرف مزید سرمایہ کے حصول کیلئے سرمایہ کاری کرتا ہے۔ اس کی خیرات بھی دنیاوی منفعت سے خالی نہیں ہوتی۔ ادھر ہمارے لکھ لٹ حکمرانوں کے باعث ہمارے ملک پر پہلے سے ہی بہت قرضے چڑھے ہوئے ہیں۔ ہمیں اپنے قرضوں کے سود کی مد میں چھ ارب روپے روزانہ ادا کرنے پڑتے ہیں۔ اب کیا ہم چھ ارب روپوں کے ہندسے کو بڑھانا چاہتے ہیں ؟ بے گھروں کی خالی جیبیں ٹٹولنے میں کیا نکلے گا؟ بے گھری اک مرض سہی۔ لاعلاج مرض ہرگز نہیں۔ صرف ہمارے چارہ گروں کو چارہ گری سے گریز رہا ہے۔  

” اخوت“ والے ڈاکٹر محمد امجد ثاقب نے اپنی این جی او کے ذریعے ضرورت مندوں میں پچاس ارب روپے بلا سود بانٹے ہیں۔ پھر اس قرضہ کی واپسی بھی سینٹ پرسینٹ ہے۔ ان سے بہت سے لوگوں کے مسائل حل ہوئے ہیں۔ بہت سے بیروزگارں کو روزگار ملا ہے۔ گوجرانوالہ میں ایک صنعتکار گھرانے سے نوعمر زین اشرف مغل امریکہ کی یونیورسٹی آف میانمی سے پڑھ لکھ کر لوٹا ہے۔ اس نے خدمت خلق کی اک عجب راہ ڈھونڈ نکالی ہے۔ اس کی این جی او کا نام ہے ”سیڈ آﺅٹ“۔ وہ خیرات نہیں دیتا۔ ضرورت مندوں کوبلا سود قرض مہیا کرتا ہے۔ پانچ سو پچاس آدمیوں میں پانچ کروڑ روپیہ بٹ چکا ہے۔ سارا روپیہ محفوظ۔ واپسی سو فیصد یقینی۔ رکشے، ہتھ ریڑھی، اخباری ہاکروں کے لئے سائیکل، موٹر سائیکل، عورتوں کیلئے اپنے گھر کی ڈیوڑھی میں عام سودا سلف کی دکان کے لئے سرمایہ۔ اوربہت کچھ ان کے بلا سود قرضوں نے مہیا کیا ہے۔ عمران خان برطانوی سرمایہ کار انیل مسرت کی بجائے ایسی مقامی دانش سے رابطہ کریں۔

ہمارے رہائشی مسائل کی وجوہات ہماری اپنی پیدا کردہ خالصتاً مقامی ہیں۔ رہائشی پلاٹوں کی قیمتیں آسمانوں پر پہنچ چکی ہیں۔ کیا رہائشی پلاٹوں کا خام مال ہم امریکہ سے بائی ایئر امپورٹ کرتے ہیں؟ زرعی زمینوں کی قیمتوں سے رہائشی پلاٹوں کی قیمتوں کا تقابل کیجئے اور ٹاﺅن ڈویلپروں کے نفعے کا اندازہ لگائیے۔ اب اس ایک سوال کے جواب سے کالم آگے بڑھے گا۔ کیا کوئی ریاست غلہ کی ذخیرہ اندوزی کی اجازت دے سکتی ہے ؟ اس طرح ایک تاجر آنے والی تمام دس فصلوں کا غلہ خرید لے گا اور بازار میں اپنی مرضی کی قیمت کا تقاضا کریگا۔ پھر بھلا قحط کو کون روک سکتا ہے ؟ہمارے ہاں دکاندارغیر مناسب قیمت بتاتے ہوئے شرمندہ شرمندہ سے اکثر یہ کہتے پائے گئے ہیں کہ گاہک اور اللہ سے تھوڑا نہیں مانگنا چاہئے۔ جہاں تک اللہ تعالیٰ سے مانگنے کا تعلق ہے، یہ خالق اور مخلوق کے درمیان کا معاملہ ہے۔ باقی رہا گاہک سے غیرمناسب قیمت مانگنے کی کہانی۔ یہ دکاندار کی بے پایاں حرص کا ایک بھونڈا سا اظہار ہے۔ ورنہ سید قطب شہید غیر منصفانہ شرح منافع کو بھی سود کی طرح ہی حرام قرار دیتے ہیں۔ ایسا غیر معمولی منافع سوسائٹی کو بہت ڈسٹرب کرتا ہے۔ آج کل ریاست مدینہ کا بہت ذکر ہو رہا ہے۔ ریاست مدینہ میں نفع کی غرض سے غلہ کی ذخیرہ اندوزی کی ممانعت تھی۔ رہائشی پلاٹوں کی اس سادہ معیشت میں ایسی اہمیت نہ تھی کہ ان کے بارے دربار رسالت سے کچھ احکامات کی ضرورت پیش آتی۔ یہ سونے چاندی، اونٹ، بھیڑ، بکری اور جنس کی طرح منڈی میں ’حیثیت دار ‘نہ تھے کہ ان پر زکوٰة کا نفاذ کیا جاتا۔

آج رہائشی پلاٹ بھی انسانی زندگی میں غلہ کی طرح ناگزیر ہو چکے ہیں۔ کیا ان کی نفع کی غرض سے ذخیرہ اندوزی جائز ہے ؟کیا فرماتے ہیں علمائے دین بیچ اس مسئلہ کے۔ پاکستان میں رہائش کا مسئلہ بہت گھمبیر صورت اختیار کر چکا ہے۔ ایک سروے کے مطابق رہائشی سہولتوں کی قلت کے سبب پاکستان میں ایک کمرے میں 3.5 افراد رہائش پذیر ہیں۔ جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ ریشو 1.1 ہے۔ کچھ بنیادی مسائل ہیں، انہیں حل کئے بغیر رہائشی مسائل کا حل ممکن نہیں۔ پہلا مسئلہ زمین کی حد ملکیت مقرر کرنا ہے۔ ہندوستان اس مسئلہ سے آزادی کے پہلے دنوں میں ہی نپٹ چکا ہے۔ دوسرا زمین کی ملکیت میں ان بے مالک لوگوں کے حقوق کا تعین ہے جن کے نام کاغذات مال کے خانہ ملکیت میں درج نہیں ہوتے۔ تیسرا یہ کہ ریاست کو یہ طے کرنا بہت ضروری ہے کہ وہ ایک فرد کو رہائشی مقاصد کیلئے کتنی زمین استعمال میں لانے کی اجازت دے سکتی ہے۔

اکنامک سروے آف پاکستان کے مطابق ملک بھر میں کم آمدنی والوں کیلئے رہائشی سکیموں کی مد میں مختص 597 ملین روپے 2008-09 میں کم کر کے 583 ملین روپے کر دیئے گئے۔ پھر حیران کن بات یہ ہے کہ 2010-11میں 2008-09کے مقابلہ میں کم آمدنی والوں کیلئے رہائشی سکیم کی مد میں ڈیڑھ سو فیصد سے زائد فنڈز کی کمی کی گئی۔ اب یہ رقم صرف 67 ملین روپے رہ گئی ہے۔ رہائشی سکیموں کا کاروبار کرنے والے افراد نے اپنے اثر رسوخ سے کام لے کر کم آمدنی والے لوگوں کیلئے سرکاری رہائشی سکیموں کو بند کروا دیا ہے۔ اب اس بزنس پر ان کا مکمل کنٹرول ہے۔ اب تو پنجاب میں ہاﺅسنگ کے محکمہ کی وزارت بھی ایک ٹاﺅن ڈویلپر نے پوری ضد کر کے حاصل کرلی ہے۔ ہمارے ٹاﺅن ڈویلپروں کی بے پناہ حرص نے بوڑھوں سے پارک اور بچوں سے کھیل کے میدان چھین لئے ہیں۔ اب ہم اپنے بوڑھوں کو سڑکوں پر گرد پھانکتے اور اپنے بچوں کو ون ویلنگ کی راہ مرتے بے بسی سے دیکھتے رہتے ہیں۔ مرزا غالب زندہ ہوتے تو انہیں بتاتا کہ قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک نہیں۔ مسائل مرنے کے بعد بھی کہاں ختم ہوتے ہیں۔ غریب مردے کو بہت خجل خراب ہونا پڑتا ہے۔

جیتے جی آپ کرایے کے مکان میں رو دھو کر جی لیں گے۔ لیکن اگر آپ کرایہ دار ہیں تو آپ کی میت کو دفن کیلئے کہیں جگہ نہیں ملے گی۔ ٹاﺅن ڈویلپرز قبرستان کیلئے بہت تھوڑی جگہ چھوڑتے ہیں۔ اب دفن کیلئے کرایہ کی رسید نہیں ملکیت کا ثبوت چاہئے۔ گوجرانوالہ میں آخری سرکاری رہائشی کالونی پیپلز کالونی تھی۔ بھٹو کے دور حکومت میں محکمہ ہاﺅسنگ اینڈ فزیکل پلاننگ نے 469 ایکڑ رقبہ پر کم آمدنی والے لوگوں کیلئے چھ ہزار سے زائد پلاٹ بنا کر برائے نام قیمت پر سرکاری ملازموں اور عوام کو تین سال کی آسان قسطوں پر دیئے۔ اس کالونی میں ساڑھے تین مرلے کے پلاٹوں کی تعداد دو ہزار تھی۔ لیکن ان کے لئے درخواست گذار صرف بارہ سو نکلے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک رہائشی کالونی میں اگرصرف تمام کمرشل پلاٹ اور صرف ایک ایک کنال کے رہائشی پلاٹ نیلام کر دیئے جائیں تو باقی ماندہ چھوٹے پلاٹ کم آمدنی والے لوگوں کوحکومت برائے نام قیمت پر دینے کا اہتمام کر سکتی ہے۔ بے گھری کا مسئلہ ایک بہت پیجیدہ، گھمبیر قومی مسئلہ ہے۔ اسے صرف چند سینئر بیورو کریٹس اور برطانوی سرمایہ کار انیل مسرت کے سپرد نہیں کرنا چاہئے۔ یہ سب مل جل کر آپ کی چھ ارب روپے روزانہ سود کی قسط بڑھا دیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).