وکیل صاحب نے ساتھی لڑکی کو پیسے کی بجائے ناقابل بیان خوشی بخشی


اس نے مسٹر نارٹن سے کہا، کہ وہ ایک ہفتہ کے لئے ساتھ جانے کا معاوضہ پانچ ہزار روپیہ لے گی۔ مسٹر نارٹن بہت تجربہ کار، خرانٹ اور دلچسپ شخصیت تھے۔ آپ نے جواب دیا” بہت اچھا“۔ چنانچہ یہ لڑکی مسٹر نارٹن کے ساتھ انبالہ چلی آئی۔ مسٹر نارٹن دن بھر عدالت میں رہنے کے بعد شام کو جب ہوٹل واپس آتے، آپ تھوڑی دیر کے بعد مقدمہ کی تیاری میں مصروف ہو جاتے۔ ہر روز کی طرع ایک رات میں ایک بوتل وہسکی اور ایک درجن سوڈا اور کی بوتلیں ختم کر دیتے۔ یہ لڑکی کرسی پر ان کے سامنے بیٹھی وہسکی پیتی رہتی، اور مسٹر نارٹن جب مقدمہ کے کا غذات سے اکتا جاتے، تو تھوڑی دیر کے لئے اس لڑکی سے بات چیت کر لیتے، اور آپ ہمیشہ کی طرح علی الصبح چار بجے اپنے بیڈ روم میں چلے جاتے۔

اسی طرح جب ایک ہفتہ ختم ہوا، تو اس نے پانچ ہزار کا مطالبہ کیا، اور کہا، کہ واپس لاہور جانا چاہتی ہے۔ مسٹر نارٹن نے کہا ” بہت اچھا“۔ چنانچہ آپ نے ایک سو روپیہ تو ٹکٹ وغیرہ کے مصروف کے لئے نقد اور پانچ ہزار روپیہ کا لاہور کے بنک کا چیک پر دستخط غلط کر دیے۔ ، جو پڑھے ہی نہ جا سکتے تھے۔ لڑکی بہت خوش کہ اس کو پانچ ہزار روپیہ مل گیا۔ یہ اس چیک کو لے کر لاہور پہنچی، اور دوسرے یا تیسر ے روز روپیہ لینے بنک گئی، تو بنک کے اکاؤنٹنٹ نے چیک دیکھ کر، اور دستخطوں کے نمونے کے دستخطوں سے ملا کر کہا:۔
” میڈم! اس چیک کے دستخط اصلی دستخطوں سے نہیں ملتے۔ آپ دستخط درست کرا کر لائیے، تو آپ کو روپیہ مل سکتا ہے“۔

بنک والوں کا یہ جواب سن کر لڑکی حیران۔ یہ رات کی گاڑی پھر انبالہ واپس آئی۔ مسٹر نارٹن سے ملی، تو اس اور مسٹر نارٹن کے درمیان یہ بات جیت ہوئی :۔
لڑکی :۔ مسٹر نارٹن! بنک والے کہتے ہیں، چیک پر دستخط غلط ہیں۔ آپ نیا چیک لکھ دیں۔

مسٹر نارٹن :۔ نہیں! میں نے جان بوجھ کر دستخط غلط کیے، کیونکہ تمہاری ایک ہفتہ کی دوستی کی قیمت پانچ ہزار روپیہ نہیں ہو سکتی۔
یہ جواب سن کر لڑکی کچھ تیز ہوئی، تو مسٹر نارٹن نے کہا:۔

”دیکھو، اگر شور پیدا کرو گی، تو میں تمہیں بلیک میلری میں گرفتار کرا دوں گا۔ میں وکیل ہوں، اور قانون کو جانتا ہوں۔ ہاں اگر تم معقولیت کے ساتھ بات چیت کرنے کو تیار ہو، میں تمہارا معاوضہ ادا کر دوں گا“۔

چنانچہ پھر بات چیت شروع ہوئی، تو مسٹر نارٹن نے کہا :۔
” دیکھو، تم معقولیت کی بات کرو۔ یہ درست ہے، کہ میں ایک ہفتہ تمہاری رفاقت سے محظوظ ہوا، مگر یہ بھی درست ہے۔ کہ میرے اس پانچ ہزار روپیہ کے چیک سے تمہیں کئی روز تک ناقابل بیان خوشی اور مسرت نصیب ہوئی۔ جس صورت میں، کہ ہم دونوں نے ہی مساوی طور پر حظ اور لطف حاصل کیا، پھر تمہیں ایک روپیہ بھی نہ لینا چاہیے“۔

یہ سن کر لڑکی بہت ناراض اور بد دل ہوئی، اور آخر بات چیت کے بعد مسٹر نارٹن نے لڑکی کو ایک سو روپیہ روزانہ کے حساب سے سات سو روپے نقد دیتے ہوئے کہا، کہ:۔
” یہ معاوضہ مناسب اور موزوں ہے“۔

چنانچہ لڑکی سات سو روپیہ لے کر امید کے ساتھ واپس لاہور چلی گئی، کہ ہر اتوار کو مسٹر نارٹن لاہور آیا کرتے ہیں۔ مستقل گاہک ہیں، فیاض ہیں، ایسے اچھے گاہک کو ہاتھوں سے نہ جانے دینا چاہیے، میں نہیں کہہ سکتا، کہ مسٹر نارٹن نے اس کے بعد بھی لاہور جا کر کبھی اس لڑکی کو بلوایا، یا نہیں مگر یہ واقعہ انبالہ کے نابھ کیمپ میں کئی روز تک دلچسپی کا باعث رہا۔ کیونکہ جس صورت میں، کہ مسٹرنارٹن اس لڑکی کی رفاقت سے ایک ہفتہ محظوظ رہے، اور لڑکی کو اس چیک کی رفاقت سے کئی روز نا قابل بیان مسرت اور خوشی نصیب ہوئی، اور دونوں مساوی طور پر فائدہ میں رہے۔

لڑکی کے لئے مناسب تھا، کہ وہ روپیہ طلب نہ کرتی، اور اگر مسٹر نارٹن نے اس کو سات سو روپیہ دیا، تو یہ بھی مسٹر نارٹن کی انتہائی فیاضی اور غیر ضروری فراخدلی کا ثبوت تھا۔ مگر بعض حلقوں میں اسے وعدہ شکنی ہی قرار دیا جائے گا۔

دیوان سنگھ مفتوں

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

دیوان سنگھ مفتوں

سردار دیوان سنگھ مفتوں، ایڈیٹر ہفتہ وار ”ریاست“ دہلی۔ کسی زمانے میں راجاؤں، مہاراجوں اور نوابوں کا دشمن، ان کے راز فاش کرنے والا مداری، صحافت میں ایک نئے خام مگر بہت زور دار انداز تحریر کا مالک، دوستوں کا دوست بلکہ خادم اور دشمنوں کا ظالم ترین دشمن۔ سعادت حسن منٹو کے الفاظ۔

dewan-singh-maftoon has 26 posts and counting.See all posts by dewan-singh-maftoon