وہ آنگن، پرندے اور مہمان


میں آج جہاں کھڑا ہوں وہ کبھی میرا بسیرا تھا،مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں ہورہا تھااسی آنگن میں برسوں پہلے رینگتے رینگتے میں چلنے لگا تھا۔ دروازے سے اندر داخل ہوکر ایک کھلا صحن جس کی بائیں جانب امرود کا درخت اور اس کے پہلو میں جیسے چھوٹے بہن بھائیوں کی طرح بڑے باآدب کھڑے موتیے اور رات کی رانی کے پودے ہر آنے والے مہمان کو جیسے خوش آمدید کہتے دکھائی دیتے، اینٹوں کے صحن میں مٹی میں ان تین جانداروں کی موجودگی کچھ بھلی لگتی۔

ان پر چڑیا اور لالی کا آکر بیٹھنا ،زندگی کا بھرپور احساس دلاتا۔ انہیں ہاتھ میں لینے کی خواہش اور اسی شوق میں کبھی اچھل کر انہیں پکڑنے کا جتن یہ سب اس وقت بھی اور اب بھی بے معنی بے مقصد سا لگتا لیکن جب کبھی سوچا تو جیسے اندر سے اک آواز آتی قدرت نے ہمیں کسی انجان تعلق میں جوڑ رکھا ہے ۔

میں تب بھی خیالوں میں اس سوال کا جواب تلاش کرتا ہمارا ان پرندوں سے کیا رشتہ ہے یہ کیوں اتنی اپنائیت سے ہمارے آنگن میں آکر بیٹھتے ہیں۔

کیا یہ بھی دوسروں کی طرح ہمارے مہمان ہیں یہ کون سا انس تھا جو انہیں کھینچ لاتا تھا کچھ تو تھا کہ جب نہیں آتے تو اک انتظار رہتا تھا۔میرا معصوم سوال پختگی کی عمر بھی وہیں ہے مجھے وہ دن بھی یاد ہے جب ایک زخمی چڑیا زمین پر گری میں اس کو اتنے قریب سے دیکھوں گا میں بھاگتا امی کے پاس اس کی ببتا لے کر گیا۔

اس کے زخم پر مرہم رکھا پھر بوند بوند پانی دیا وہ کچھ دیر یونہی نڈھال رہی۔ میں امی کے ہاتھوں میں اس کو غور سے دیکھتا رہا پھر اک تشکر بھری نگاہ ڈالنے کے بعد وہ اُڑ گئی۔

میری نظریں اک عرصے تک اسے ڈھونڈتی رہیں امی نے کہا وہ مہمان تھی چند گھڑیوں کی خدا نے اسے ہمارے پاس بس اتنی دیر کو بھیجا تھا۔ہمیں ان انجانے مہمانوں کا ساری عمر انتظار کیوں رہتا ہے۔

منڈیر پر بیٹھا کوا جب بھی کائیں کائیں کرتا دادی اماں کہتی کوئی مہمان گھر آنے والا ہے۔ پھر جیسے یہ بات سچ ہو جاتی اور کوئی آتا لیکن پھر ذھن اس سوال پر کام شروع کردیتا اسے کس نے بھیجا پیامبر بنا کر ہمارے ہاں کیا دوسرے پرندوں کا آنا بھی کسی آمد کا سندیسہ ہے۔ بڑوں سے سنتے آئے ہیں ان کے بارے میں یہ کچھ نہ کچھ اپنے ساتھ لاتے ہیں۔ کوئی خوش بختی، کوئی رزق کوئی اچھے دنوں کا یقین ساتھ لاتے ہیں۔

میں آج اتنے برسوں بعد اس آنگن میں آیا ہوں یہاں اب نہ وہ درخت ہے اور نہ اس کے ساتھی پودے یہاں اب ایک عالیشان گھر بنا ہے۔ جس میں کسی پودے کی کوئی جگہ نہیں یہاں اب کوئی ایسا مقام نہیں۔جہاں پہ کوئی پرندہ آکر پل بھر سانس لے۔ اب یہاں کے رہنے والے سب بڑے اور چھوٹے کسی انجان مہمان اور اس سے وابستہ رشتے سے انجان ہیں۔

انہیں معلوم بھی نہیں کہ کبھی کوئی ایسا تعلق ہوا کرتا تھا.انہیں بتانے والے بھی ان رشتوں سے شاید ناآشنا ہیں۔ ہمیں محبتوں کے ان جذبوں کو اب ڈھونڈ کر لانا ہوگا، مگر پہلے ایک پودا ایک درخت لگاناہوگا۔ وہاں کسی پرندے کا بسیرا بنانا ہوگا،یہ رشتہ بے مول ہے مگر ہمیں کچھ سرگوشی کرتا ہے کہ ایک دوسرے کا خیال رکھو۔ کسی کو دکھ میں اکیلا نہ چھوڑو۔ وہ بچپن کے آنگن ہمیں پھر آباد کرنا ہوں گے۔ وگرنہ ہم آنے والی نسلوں کو محبت کاانمول سبق نہ سیکھا سکیں گے۔

نعمان یاور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

نعمان یاور

نعمان یاور پرنٹ اور الیکٹرانک صحافت میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور ان دنوں ایک نجی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں

nauman-yawar has 140 posts and counting.See all posts by nauman-yawar