کیا پاکستان چین کی کالونی بننے کو ہے؟


عمران خان کے دورہ سعودی عرب کے بعد دس ارب ڈالر کی رقم کے ساتھ سعودی عرب کو سی پیک کا تیسرا عالمی پارٹنر بنانے کی باتیں سامنے آ رہیں ہیں۔ شنید ہے کہ اس سرمایہ کاری کے بدلے سعودی عرب گوادر میں آئل سٹی قائم کرے گا، اگر ایسا ہوتا ہے تو اس فیصلے کے پاکستان کی خارجہ پالیسی پر کتنے دور رس نتائج سامنے آئیں گے ؟ ایران، شام، عراق، یمن سمیت وہ ممالک جن کا سعودی عرب سے معاندانہ رشتہ ہے، وہ اس فیصلے کے بعد پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظر ثانی کرتے ہیں یا اس فیصلے کو قبول کرتے ہیں ؟ یہ وہ سوالات ہیں جو اس وقت ہر باشعور پاکستانی کے ذہن میں کلبلا رہے ہیں۔ ادھر پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ جسے اول دن سے گیم چینجر کہا جا رہا ہے کا مبینہ ماسٹر پلان سامنے آنے کے بعد اگرچہ مسلم لیگی حکومت نے موقف اختیار کیا تھا کہ اس ماسٹر پلان سے متعلقہ سامنے آنے والی تمام دستاویزات پرانی ہیں، مگر انہوں نے اصل منصوبے سے پھر بھی آگاہ نہیں کیا تھا۔ اس وقت تحریک انصاف والے سی پیک کے حوالے سے جہاں کے پی کے حصے کو لے کر تحفظات کا اظہار کرتے تھے، وہاں شروعات سے ہی لیگی حکومت کی جانب سے سی پیک منصوبوں کی تفصیلات کو خفیہ رکھنے کی کوشش پر تحریک انصاف خصوصاً عمران خان کا سخت موقف تھا اور وہ سی پیک سے متعلقہ تمام معاملات قوم کے سامنے رکھنے مطالبہ بڑی شد مد سے کرتے رہے، اب تحریک انصاف کی حکومت ہے خان حکومت کو وعدے کے مطابق سی پیک کے معاملات افشا کرنا چاہیے تھے الٹا انہوں نے سی پیک کو دھند کی مزید دبیز تہووں میں چھپا دیا ہے۔ خان حکومت کا یہ رویہ ناقابل فہم ہے اور معاملات کو مشکوک بناتا ہے۔

سی پیک منصوبہ دونوں طرف کے ملکی مفادات کی بنیاد پر وجود میں لایا گیا، چین نے سی پیک میں اپنے مفادات کا تعین پاکستان میں مختلف شعبوں میں بھاری شرح سود پر قرض کی صورت میں سرمایہ کاری اور چینیوں کے لیے رعایتوں کے ذریعے کر لیا ہے۔ گو پاکستان اک زرعی ملک ہے، مگر ہماری زراعت اس وقت مسائل کا شکار ہے۔ ہماری زرعی اجناس کی عالمی منڈیوں تک آسان رسائی اور سرد خانوں کا نظام نہ ہونے کے سبب پیداوار کا اک بڑا حصہ ضائع ہو جاتا ہے، جس سے ہمارے کسان کی حالت روز بروز ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ چین نے دیکھا کہ دنیا کا بہترین نہری نظام چاروں موسم اور زرخیز زرعی رقبہ رکھنے کے باوجود پاکستانی زراعت زبوں حالی کا شکار ہے، وہ مناسب اقدامات کر کے اس سیکٹر میں معقول جگہ بنا سکتے ہیں۔ اس لیے مبینہ طور پر زراعت سی پیک کا ترجیحاتی شعبہ ہے۔ چین یہاں ہزاروں ایکٹر زرعی رقبہ لیز پر حاصل کرے گا، پھر چینی حکومت اپنے باشندوں کو بلاسود قرضے اور مشینری فراہم کرے گی۔ اس ضمن میں سب سے پہلے این پی کے فرٹیلائزر پلانٹ تعمیر کیا جائے گا، جس سے چینی سالانہ آٹھ لاکھ ٹن کھاد تیار کریں گے۔ چینیوں کو لیز پر ملنے والی مشینری میں ٹریکٹر، پودوں کے تحفظ کی مشینری، توانائی بچانے والے پمپ، کھاد دینے والے آلات، سمیت اگائی اور کٹائی والے آلات شامل ہیں۔

چین نے گوشت کا پراسیسنگ پلانٹ لگا کر سالانہ دو لاکھ ٹن پیدوار کے حصول کا منصوبہ بنایا ہے، اس طرح ملک پلانٹس لگا کر اس سے بھی سالانہ دو لاکھ ٹن دودھ حاصل کیا جائے گا۔

سبزیوں اور پھلوں کے پلانٹس لگائے جائیں گے جس سے سالانہ بیس ہزار ٹن سبزیاں اور پھل پراسیس ہوں گے، دس ہزار ٹن پھلوں کا جوس اور جام حاصل کیا جائے گا اور دس لاکھ ٹن اناج پروسیس ہو گا۔ زرعی مصنوعات کے سٹوریج کی سہولیات کو بہتر بنایا جائے گا اور اس مقصد کے لیے چین بڑے شہروں میں گودام تعمیر کرے گا۔

اس کے علاوہ کپاس کی پروسیسنگ کے پلانٹ کے ساتھ ساتھ کھادیں، کیڑے مار ادویات، ویکسین اور فیڈ وغیرہ بنانے کے کارخانے لگائیں جائیں گے، اس زرعی سرمایہ کاری کے علاوہ شہروں میں نگرانی کا نظام اور چینیوں کا پاکستان میں ویزے کے بغیر داخلہ خاص طور پر نمایاں ہے۔

ان سارے زرعی منصوبوں میں چینی سرمایہ کاروں کو ویزے کی شرط کا خاتمہ صنعتی یونٹوں میں صرف چینی افراد اور اداروں کو کاروبار کی اجازت سے چینی مفاد تو نظر آتا ہے، مگر پاکستان میں کسانوں کے مفادات کا تحفظ کیسے ہو گا؟ یہ سوال اپنی جگہ اب بھی موجود ہے۔

علاوہ ازیں چین بلوچستان اور کے پی کے میں کان کنی کرے گا اور یہاں سے کچ دھات، کرومیم، سونے اور ہیرے نکالے جائیں گے۔ پاکستان سے پہلے سے ہی اسی ہزار ٹن سالانہ سنگ مرمر درامد کرنے والا چین، گلگت اور کوہستان سے لے کر خضدار تک سنگ مر مر اور گرینائیٹ کے درجن بھر کارخانے لگائے گا، آدھا درجن سیمنٹ کے کارخانے سمیت الیکٹرانکس، پیٹروکیمیکلز، لوہے، سٹیل سمیت انجینئرنگ مشینری اور ٹیکسٹائیل کے کارخانے بھی لگائے جائیں گے۔

پاکستان میں اس وقت انٹرنیٹ ٹریفک کے لیے چار سب میرین ہیں اور لینڈنگ کے لیے اک سٹیشن ہے۔ چین خنجراب سے اسلام آباد تک تین سطحی فائبر آپٹکس بچھائے گا اور اک لینڈنگ سٹیشن بنائے گا، جسے سکھر سے منسلک کر دیا جائے گا، پھر اسے بڑے شہروں تک وسعت دی جائے گی اس سے ٹیکنالوجی کو تو فروغ ملے گا ہی مگر اس سے دونوں ممالک ثقافتی طور پر بھی اک دوسرے کے قریب آئیں گے۔ تاہم اس میں کچھ سیکیورٹی خدشات بھی موجود ہیں۔ ادھر بڑے شہروں میں چوبیس گھنٹے ویڈیو ریکارڈنگ کی جائے گی اور سکینر بھی نصب کیے جائیں گے، جس سے دہشت گردی کنٹرول کرنے میں مدد ملے گی۔ پھر پاکستانی کی ساحلی پٹی پر کروز کلب، گولف کورسز، سٹی پارکس، ہوٹل، تھیٹر اور پرآسائش کشتیوں کے لیے گودیوں کی تعمیر کی جائے گی، پاکستانی بیچز پر بنگلے، کار کیمپ، گرم غسل خانے اور ریفریشمنٹ پوائنٹس کی تعمیر سے سیاحت کو فروغ دے کر زرمبادلہ کمانے کا منصوبہ بھی سی پیک کا حصہ ہے، چین سے سیاح نہ صرف بغیر ویزے کے پاکستان آ سکیں گے بلکہ یہاں انہیں مزید سہولیات بھی میسر ہوں گی۔

کیا پاکستانیوں کو بھی سی پیک میں ایسی سہولیات اور رعایتیں میسر ہوں گی، جو چینی اداروں اور افراد کو پاکستان میں حاصل ہوں گی؟ یا انہیں چینی اداروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے گا ؟ یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے، چین نے اس منصوبے میں اپنے مفادات کا پورا پورا تحفظ کیا ہے، جبکہ پاکستان نے لگتا ہے عجلت سے کام لیا ہے، کیونکہ پاکستان کا معاشی نظام، حکومتی خسارہ، کمرشل بینکوں کی حالت اور ملک کی مجموعی صورت حال اس سے مطابقت نہیں رکھتی۔ چین منصوبے کے تحت پاکستان میں پچاس ارب ڈالر سے زائد منصوبے شروع کرے گا جن کے عوض پاکستان کو نوے ارب ڈالر سے زائد رقم واپس کرنا ہو گی۔

سمندر سے گہری اور ہمالیہ سے بلند دوستی اپنی جگہ مگر معاشی تعلقات کی نوعیت کو بھی مد نظر رکھنا ہو گا۔ اوپر بیان کیے گئے سب منصوبوں میں بظاہر چین کا ہی زیادہ مفاد نظر آتا ہے۔ ہماری قومی بقا کا دارومدار گوادر پورٹ کی کامیابی سے جڑا ہو گا جہاں اب سعودی عرب کا بھی اثر ہو گا، خدانخواستہ اگر گوادر پورٹ فلاپ ہوئی تو ہمارا حال سری لنکا سے کچھ زیادہ مختلف نہ ہو گا۔ سری لنکا میں چین کی سرمایہ کاری سے بننے والی بندرگاہ کا منصوبہ ناکام ہونے کے بعد اب ان کی کل ملکی آمدنی کا پچانوے فیصد صرف اور صرف چین کے قرضہ جات ادا کرنے پر خرچ ہو رہا ہے۔اب پاکستان تحریک انصاف کو سی پیک کے تمام پوشیدہ منصوبے سامنے لانا ہوں گے، مزید پاکستان کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ہنر و تکنیک کی پاکستان کو حوالگی کے علاوہ ریاستی خود مختاری علاقائی ہم آہنگی اور مساویانہ تجارتی لین دین کو یقینی بنانا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).