نیا پاکستان بھینسوں سے ریڈیوپاکستان تک


نئے پاکستان کی نئی عمرانی حکومت کی پالیسیاں ابھی تک سمجھ سے بالاتر ہیں۔ اس حوالے سے میرا ایک نقطہ نظر تو یہ ہے کہ ابھی تک نئے پاکستان کے سونامی زدہ سیاسی لوگوں کو یہ سمجھ نہیں آرہی کہ حکومت چلائی کیسے جاتی ہے؟ حکومت چلانے کے کیا اصول و ضوابط ہیں؟ دوسرا نقطہ نظر اسی سے جڑا ہوا یہ ہے کہ عمران صاحب کے دماغ میں جو رات کو جو اچھا برا خیال آتا ہے، وہ صبح اٹھتے ہی کہہ دیتے ہیں کہ ایسا کردیا جائے۔ اسی وجہ سے نئے پاکستان کی نئی حکومت مسائل اور مصائب میں پھنستی چلی جارہی ہے۔

نئے پاکستان کی نئی حکومت بچت کرنے یا فضول خرچی سے بچنے کی پالیسی انتہائی فضول اور احمقانہ دیکھائی دے رہی ہے۔ سمجھ دار سیاسی و غیر سیاسی شخصیات کے ساتھ ساتھ عوام بھی اب نئے پاکستان کی عمرانی حکومت پر مسکرا رہے ہیں اور سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں کہ کہیں عمران خان کو موقع دے کر عوام اور اسٹیبلشمنٹ نے بہت بڑی غلطی تو نہیں کردی۔ اعلان ہوا کہ وزیر اعظم ہاوس کو یونیورسٹی میں بدلا جائے گا۔ کہا گیا کہ چاروں صوبوں کے گورنر ہاوسز کو میوزیم، آرٹ گیلری اور ہوٹلز میں تبدیل کردیا گیا۔ اب ریڈیو پاکستان کی شامت آگئی ہے۔ عمرانی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ریڈیو پاکستان کے قومی ہیڈ کواٹر اسلام آباد کی کوئی ضرورت نہیں۔ کیونکہ چار ایکڑز پر مبنی ریڈیو پاکستان ہیڈ کواٹر اسلام آباد کی سات منزلہ عمارت ریڈزون میں ہے۔ بڑی قیمتی زمین ہے، اس لئے اس نایاب زمین و عمارت کو لیز پر دے دیا جائے۔

عمرانی حکومت کے اس فیصلے کی وجہ سے ریڈیو پاکستان کے پچیس سو ملازمین پریشان ہیں اور بیچارے اسلام آباد میں احتجاج کررہے ہیں۔ ریڈیو پاکستان کی یہ تاریخی عمارت بھٹو دور میں تعمیر کی گئی تھی۔ یہاں پر صرف ایف ایم ریڈیو کا کام نہیں چلتا بلکہ اور بھی بہت کچھ ہورہا ہے۔ ایک نجی ٹی وی کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق اس عمارت میں 25 اسٹوڈیوز ہیں جن میں سے پانچ ڈیجیٹل اسٹوڈیوز ہیں جو ڈیڑھ ارب روپے کی لاگت سے تعمیر کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں پر نیوز ونگ ہے جہاں پر کرنٹ آفئیرز آپریشن کا ایک مکمل نظام ہے۔ اس کے علاوہ اس تاریخی عمارت میں پروگرامنگ کا ایک جدید سیکشن ہے جس میں نو علاقائی اور 12 انٹر نیشنل زبانوں میں پروگرام سروس چل رہی ہے۔ اس کے علاوہ سیٹلائیٹ کے ذریعے ٹرانسمیشن کا اسٹیشن بھی اسی عمارت میں موجود ہے۔ انجینئیرنگ برانچ، سنٹرل پروڈکشن یونٹ، اور سوشل میڈیا آرکائیو کا تمام نظام اسی عمارت میں نصب ہے۔ اس کے علاوہ یہاں پر زیڈ اے بخاری ایڈیٹوریم ہے جہاں پر ایک ہزار سے زائد افراد کے بیٹھنے کی جگہ ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایک مکمل جدید نشریاتی نظام جس پر اربوں روپے خرچکیے گئے ہیں۔ اس نظام کو کہاں شفٹ کیا جائے گا اور کیسے شفٹ کیا جائے گا۔ یہ کیسی بچت ہے، کیسے کہا جائے کہ حکومت فضول خرچی سے بچنے کے لئے ایسا کررہی ہے؟

پہلے کہا گیا کہ اس پورے نظام کو جس پر اربوں روپے خرچ کیے گئے ہیں پاکستان براڈ کاسٹنگ اکیڈمی میں شفٹ کیا جائے گا۔ اس اکیڈمی میں تو پہلے ہی اکیڈمی کا ہاسٹل ہے، اس کے علاوہ پرائیویٹ اسکول چل رہا ہے۔ چین کا ریڈیو سسٹم بھی وہاں سے آپریٹ کیا جارہا ہے۔ اربوں روپے بچانے کے لئے اربوں روپے کے نظام کو تباہ کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ یہ کیسی بچت ہے؟ یہ کہاں کی گڈ گورننس ہے؟ حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ یہاں پر یعنی ریڈیو پاکستان ہیڈ کواٹر کی عمارت میں میڈیا یونیورسٹی بنانا چاہتی ہے۔ اب یہ بھی کہا جارہا ہے کہ حقیقت میں ریڈیو پاکستان کی زمین ایک حساس ادارے کو حکومت دینا چاہا رہی ہے اسی وجہ سے سب کچھ ہورہا ہے۔ یہ بھی بات گردش کررہی ہے کہ جو میڈیا یونیورسٹی بن رہی ہے اس کو ایک نجی نیوز چینل کا مالک چلائے گا اور یہ زمین لیز پر اس نجی نیوز چینل کو الاٹ کی جائے گی۔

چلو یہ سب سازشی نظریات ہیں۔ لیکن سوال یہ کہ بنے بنائے ادارے کو تباہ کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ اب سنا ہے کہ ریڈیو پاکستان کے ملازمین کے احتجاج کے بعد کہا گیا ہے کہ ریڈیو پاکستان کی زمین کو لیز پر دینے کا فیصلہ ابھی تک نہیں کیا گیا۔ یہ تو محض ایک تجویز تھی۔ واہ کیا تجویز تھی؟ پاکستانی کی تاریخی عمارتوں کو اس طرح برباد کرنا عقلمندی نہیں ہے۔ ایسے احمقانہ اقدامات سے ملک نہیں چلتے اور نہ ہی ترقی کرتے ہیں؟ قومی اثاثوں کو قبضے میں لینا یا انہیں بیچنا یہ ظاہر کررہا ہے کہ عمرانی حکومت ملک کو آگے کی بجائے پسماندگی کی طرف لے جارہی ہے؟ ادھر کراچی کے ریڈیو ہیڈ کواٹر پر کون قابض ہے؟ یہ بھی تو سب کو معلوم ہے؟ اسلام آباد کی نایاب زمین پر کون قابض ہونا چاہتا ہے یہ بھی ہم سب جانتے ہیں؟ یہ حکومت تو انسٹی ٹیوشن بلڈنگ کے لئے آئی تھی؟ کیا ایسے انسٹی ٹیوشن بلڈنگ کی جاتی ہے۔

کیا چند بھینسیں بیچنے سے بچت پالیسی تعمیر کی جاتی ہے؟ کیا چار ناکارہ جہاز فروخت کرنے سے فضول خرچی پر قابو پایا جاتا ہے؟ کیا گورنر ہاوسز کو ہوٹلز یا میوزیم میں بدلنے کے لئے عوام نے عمران خان کو اقتدار پر بٹھایا تھا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).