اچھی عورت + بری عورت


مشرقی معاشرے ہمیشہ اچھے اور برے کے تضاد میں الجھے رہتے ہیں۔ جن میں جھوٹ اور غلط بیانی مصلحت کی آڑ میں سانس لیتی ہے۔ اور اچھائی کا تصور جانبدار رہا ہے۔ قدیم زمانے میں عورت اور زمین کو زرخیزی کی علامت سمجھا جاتا تھا، ڈیڑھ ہزار سال پرانی منو مہاراج کی کتاب منو سمرتی کے مطابق:
”دیوتا ان گھروں پر خوش ہوتا ہے، جن میں عورت کی عزت کی جاتی ہے۔ “

موئن جودڑو کی کھدائی سے عورتوں کے بت ملے جو اس بات کے گواہ ہیں کہ اس دور میں عورت کو دیوی کا درجہ حاصل تھا۔ عورت کی عزت، ایک ماں یا تخلیق کار کی حیثیت سے کی جاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ قدیم زمانے کے انسان نے دھرتی کو ماں سے مشابہت دی ہے۔

کلاماتھ کے وحشی قبیلے کا کہنا ہے کہ ’دھرتی، ماں کی طرح ہے، پہاڑ اس کا سینہ ہیں اور ان پہاڑوں سے بہتی ندیاں اس کا دودھ ہیں۔ ‘ سندھ میں آریا قبیلے کی آمد کے بعد عورت روایتی سوچ کا شکار ہونے لگی۔

عورت کے حوالے سے روایتی سوچ یونان کے مفکر ہوں یا دور جدید کے یورپی فلسفی یکساں دکھائی دیتی ہے۔ ایک طرف شوپنہار عورت کو کم عقل گردانتا ہے تو دوسری جانب ٹوائن بی کہتا ہے کہ :
‘لڑائی کے مختلف ادوار میں ساری تباہی عورت کی وجہ سے آئی ہے۔ ‘

یونانی مفکر بھی عورت سے خاصے خائف نظر آتے ہیں۔ سقراط کا کہنا ہے ’دنیا میں عورت سے بڑھ کر کوئی اور فتنہ و فساد نہیں ہوسکتا۔ ‘ بقول افلاطون ’ظالم مرد دوسرے جنم میں عورت کا روپ دھار لیتا ہے۔ ‘ یہی وجہ ہے کہ صدیوں سے روایتی سوچ نے عورت کو سطحی اور کمتر بنا کر پیش کیا ہے۔ اس لیے عورت ہر دور میں مرد کے ذہنی و جسمانی تشدد کا شکار بنی ہے۔

عیسائیت کے مرکز روم میں معمولی غلطی کی وجہ سے عورتوں کو قتل کردیا جاتا تھا۔ ایلزبتھ اور جیمس اول کے دور میں ہزاروں عورتوں کو جلایا گیا۔ انگلینڈ بھی عورتوں پر مظالم ڈھانے میں پیش پیش رہا اور عورتوں پر ظلم ڈھانے کے لیے نئے قوانین کا اجرا کیا گیا۔ یورپ میں عیسائیوں نے تقریباً 90 لاکھ عورتوں کو زندہ جلایا۔ والٹیئر، روسو، ڈرٹیلا اور مونٹیسکو عورتوں کا استحصال کرنے والوں میں سرفہرست تھے۔ ڈیڈرو نے یہ تک کہہ دیا کہ ’عورتیں فقط جسمانی لذت حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں‘ اور غالباً یہی سوچ آج تک چلی آرہی ہے کہ عورت کو کموڈٹی یا شوپیس کے طور پر لیا جاتا ہے۔

یہ تو بات ہورہی تھی قدیم زمانے کی۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جدید دور میں عورت کے حوالے سے روایتی تصور کیوں نہ بدل سکا۔ یا اسے کیوں بدلنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ ڈرامے، فلمیں، شاعری و ادب اس کی صحیح ترجمانی کیوں نہ کرسکے؟ سماج ورثے میں عورت کے لئے نفرت منتقل کرتا رہا نسل در نسل!

یہ برے رویے ماحول کی پیداوار بھی ہیں۔ جس میں عورت کو استعمال کی چیز سمجھا جاتا ہے، اور سماج ایک صارف کا روپ دھار لیتا ہے۔ رجنیش نے اپنی کتاب میں اس رویے کی نشاندہی کچھ اس طرح سی کی ہے کہ عورت کی آزادی کو مرد اپنے فائدے میں استعمال کرتا ہے۔ اسے شمع محفل بھی بناتا ہے تو اشتھاری دنیا کی ضرورت بھی۔ یہ حقیقت ہے کہ عورت کو پتا نہیں چلتا کہ کس طرح اس کا استحصال کیا جاتا یے۔ وہ پروڈکٹ بننے میں فخر محسوس کرتی ہے۔ کیونکہ مارکیٹ ویلیو بڑھنے میں اس کی انا کو تسکین ملتی ہے۔ جبکہ اسے سراہنے والے بھی اس سے خائف رہتے ہیں۔ سماج کے مطابق، کیریئراورئنٹیڈ عورت گھر اور بچوں کو نظر انداز کردیتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ مرد اسے پابند رکھنے کی کوشش کرتا یے تاکہ وہ خود آزاد رہے۔ مرد کو آزادی چاہیے گھر میں اور باہر بھی۔ پابندی پر مصر تکرار کرنیوالی عورت سے وہ دور بھاگتا ہے۔
پچاس اور ساٹھ کی دہائی کی عورت مصلحت پسندی سے کام لے کر خود کو نظرانداز کردیا کرتی تھی۔ اس اچھی عورت کے چرچے دور دور تک سنائی دیتے۔ وہ کم گو، خذمت گذار، کم میں خوش رہنے والی اور شوہر کی بے وفائی برداشت کرنیوالی صابرین عورت تھی۔

ستر کی دہائی کی عورت قدرے خودمختیار ہوئی۔ علمی طور پر پیش رفت اور ملازمت کے بعد، عورتیں اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانے لگیں۔ طلاق و خلع کی شرح میں ضافہ ہوا۔ بعض نے شادی کرنے سے انکار کردیا۔ اس زمانے میں شہزوری قسم۔ کے کردار پسندکیے جاتے۔ گو کہ سوشل میڈیا نہیں تھا مگر ٹیلی وژن ڈرامے، فلموں اور ڈائجسٹ کے مطالعے کا دور دورہ تھا۔ جس میں ایک ایسی عورت متعارف کی گئی جو خواب دیکھنے والی حساس عورت تھی جو مرد سے وفا اور توجہ کی متقاضی تھی۔

کالج کے زمانے میں، میں بھی ڈائجسٹ پڑھنے کی رسیا تھی۔ جن کے توسط سے ایسی عورتوں سے ملاقات ہوئی جو کانچ کی بنی ہوئیں تھیں اور محبت پتھر کی مانند انہیں توڑ کے رکھ دیتی۔ محبت، توجھ اور وفا کی خاطر جان دیتی ہیروئن سے مجھے وحشت محسوس ہوتی۔ بھرکیف یہ سحر اس وقت ٹوٹا جب ان ہی دنوں ڈائجسٹ میں لکھنے والی مشھور ادیبہ نے انٹرویو میں کہا کہ : یہ محبت محض خودفریبی ہے۔ ایسی محبت کا وجود ہی نہی جسے ہم افسانوں میں دکھاتے ہیں۔ مرف کبھی، عورت سے بے لوث محبت نہیں کرسکتا۔

اس کے بعد میں نے ڈائجسٹ پڑھنے ترک کردئے اور سنجیدہ ادب پڑھنے لگی۔ گو کہ ڈائجسٹ نے مایہ ناز قلمکار متعارف کروائے مگر ڈائجسٹ کی کہانیوں کو تخلیقی ادب کے دائرے میں شامل نہیں کیا جاتا۔

دنیا بھر کے ادب میں بھی عورت خواب دیکھتی رہی، حقیقت سے دور ہوکر! مرد ادیب نے اسے اپنی سوچ کے رنگ میں جانا جیسے شیکسپیئر کے اکثر ڈراموں میں عورت کو متنازعہ دکھایا گیا ہے۔ موپاساں کی اکثر کہانیوں میں وہ خود غرض، ۔ بے وفا اور سطحی پن کا شکار یے تو انگریزی کے شاعر جان ڈن کی شاعری میں وہ شخصی کمزوریوں سے بھرپور نظر آتی ہے۔ ڈی۔ ایچ۔ لارنس نے اسے ہوس کی دیوی کے طور پر پیش کیا یے۔ اس دوڑ میں سارتر بھی پیچھے نھیں رہے۔ البتہ عورتوں نے اسے کموڈٹی کے بجائے حساس انسان کے طور پر بیان کیا۔ سماجی بندھن میں جکڑی، گومگو کی کیفیت میں مبتلا ادھوری عورت جسے من چاہا مرد مکمل بنا سکتا تھا۔ عورت مرد کی ذہنی قیدی بنی رہی، فقط مرد کو سوچتی رہی۔ اس کی بے وفائی پر مرتی مٹتی رہی۔ دور بدل گیا مگر عورت کی جذباتی پیاس وہی رہی۔

اسی اور نوے کی دہائی میں تانیثی ادب کو فروغ ملا۔ سائمن دی بوار اور سارتر زیر بحث آنے لگے۔ سارہ شگفتہ کی نظموں نے بھونچال برپا کردیا۔ اس نے ایک ایسے مرد کی، نظموں میں تصویر کشی کی جس کی سوچ عورت کے ازاربند میں الجھی رہتی ہے۔ جو جسموں کا صارف ہے۔ اس سچائی سے عورت منہ موڑ نہیں سکتی کہ مرد اس کے احساس کی نزاکت کو نہیں سمجھ سکتا۔ وہ کچن سے لے کر بیڈروم تک پرفیکٹ عورت کا متلاشی ہے۔ جو اس کی خامیوں کی پردہ پوشی کرتی رہے!

دونوں کی تلاش الگ ہے۔ ایک کو محض جسم کی تلاش ہے اور دوسرے کو جسم کے ساتھ روح کی۔ بقول رجنیش کے کہ مرد میں اگر آدھی عورت موجود ہے تو وہ ذہنی و روحانی طور پر مکمل مرد کہلاتا ہے۔ یعنی اسے عورت کی داخلیت پسندی کا حصہ نہ ملے تو وجود میں مکمل نہیں ہوپاتا۔ بقول مصنف جان گرے کے کہ مرد تبدیل نہیں ہونا چاہتا اور عورت اسے اپنی سوچ کے سانچے میں ڈھالنا چاہتی ہے اور یہ کوشش تباہ کن ثابت ہوتی ہے۔ وہ جب اپنا اسپیس مانگتی ہے تو بری عورت بن جاتی ہے!

جہاں تک فیمینزم کا تعلق ہے تو اسے تحریک کے طور پر تین ادوار میں میں تقسیم کیا جاسکتا یے۔ پہلے دور کا آغاز انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کی دہائی سے ہوتا ہے۔ دوسرا دور 1960/1970 میں سیلابی لہر کی مانند نمودار ہوتا ہے۔ تیسرا دور 1990 سے تاحال جاری ہے۔ فیمینزم نے مغربی معاشرے کی سوچ کو قدرے بدل دیا۔ ثقافت سے قانون تک عورت کے حقوق کی بات ہونے لگی۔ جس میں گھریلو تشدد، ہراسانی، ریپ، کام کی جگہ پر تحفظ، میٹرنٹی لیو اور مردوں جتنی اجرت کا مطالبی شامل تھا۔

آمریکا میں آزادی نسواں کا تذکرہ 1964 سے ہونے لگا۔ 1960 میں وومن لبریشن موومینٹ نے اہم کردار ادا کیا۔ اور عورتوں کی زندگی کے اہم مسائل پر کام ہونے لگا۔ آمریکا میں 1920 کے دوران اسے ووٹ دینے کی اجازت ملی۔

لیکن آزادی کے باوجود آج بھی عورت کا جذباتی طور پر استحصال جاری ہے۔ جس کی وجہ اس کی اندر کی طاقت اور وجدانی صلاحیت کو دبانا ہے تاکہ وہ احساس محرومی اور عدم تحفظ کے اندھیروں میں بھٹکتی رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).