عورتوں کی امامت والی مغربی مساجد کا بڑھتا ہوا رواج


مغربی ممالک میں مساجد میں عورتوں کو بیسمنٹ میں نماز کے لئے جگہ دی جاتی، نماز کی امامت سے ان کو ممانعت ہے، اور بعض مساجد میں تو ان کو فرنٹ ڈور سے اندر جانے کی اجازت بھی نہیں ہوتی۔

ان پابندیوں سے تنگ آ کراعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین نے یورپ کے متعدد شہروں(کوپن ہیگن، برلن) اور امریکہ (لاس اینجلس ) میں اپنی الگ مساجد بنا لی ہیں جہاں عورتیں ہی نماز میں امام ہوتیں، جبکہ مقتدی دونوں مرد اور عورتیں ہوتی ہیں۔ ایسی مساجد ڈنمارک، جرمنی، کینیڈا، اور امریکہ میں شروع ہوئی ہیں۔

ڈنمارک کی مریم مسجد

شیرین خانکن Sherin Khankan کوپن ہیگن میں پہلی عورتوں کی مسجد کی بانی اور امام ہے۔ یہ مسجد پہلی منزل پر ایک کپڑے کی دکان کے برابر میں واقع ہے جو نیچے بازار میں سے نظر نہیں آتی ہے۔ مسجد کا نام کہیں نہیں لکھا ہوا، مگر سلیٹی رنگ کے دروازے کے پیچھے خاموش انقلاب جنم لے رہا ہے۔ خانکن کا کہنا ہے کہ اس دیرینہ رسم و رواج کو تبد یل کیا جا سکتا ہے جو صدیوں سے قبائلی چلا آرہا تھا۔ یہ امر قابل ذکر ہے بی بی سی نے شیریں کو 2016 کی ایک سو اہم خواتین میں شامل کیا تھا۔

پچھلے دو سال سے عورتیں کو پن ہیگن کی مریم مسجد میں نمازوں میں امامت کر رہیں، خطبات دے رہیں اور اس کے انتظامات بخوبی کر رہی ہیں۔ خانکن کا کہنا ہے کہ وہ قرآن کو چیلنج نہیں کر رہیں بلکہ مردوں کی آمریت والے طریقہ عبادت کو چیلنج کر رہی ہیں۔ ہم مردوں اور عورتوں میں مساوات gender equality پر فو کس کرتے ہوئے ایک نئی روایت کو جنم دے رہے ہیں۔ یہ ہرگزریفارم نہیں ہے بلکہ ہم اسلام کے صحیح پیغام اور روح کی جانب مرکوز ہیں۔ اگر پیغمبر اسلام ﷺ کے مبارک دور میں حضرت عائشہ اور حضرت ام سلمہ ؓ عورتوں کی نماز میں امامت کر سکتی ہیں تو اکیسویں صدی میں ڈنمارک میں عورت امام کیوں نہیں بن سکتی۔

ہفتے کے دوران مریم مسجد میں اگرچہ مرد حضرات اور خواتین اگرچہ نمازیں اکٹھے ادا کرتے ہیں مگر مہینے میں ایک بار جمعہ کی نماز میں صرف عورتیں شر کت کر سکتی ہیں۔ 43 سالہ شیرین خانکن نے بتایا۔ نماز کے لئے چھوٹے سے ہال میں جس میں موم بتیوں کے علاوہ گاؤ تکئے بھی ہیں، صرف 150 افراد نماز ادا کر سکتے ہیں۔ یہ عبادت گاہ Femimam کے تعاون و مدد سے وجود میں آئی تھی جو کہ ڈنمارک میں مسلم سپر یچوئیل لیڈرز کی تنظیم ہے۔

بریڈ فورڈ برطانیہ

عورتوں کی مختلف تنظیموں اور ریسرچرز کا کہنا ہے کہ عورتوں کے لئے عبادت کے مقامات کم ہیں نیز خواتین پر مشتمل اسلامک لیڈرز کی شدت سے کمی اور اکثر مساجد میں عورتوں اور مردوں میں علیحدگی ہونے کے ساتھ نماز کے لئے بڑی جگہ پر مرد حضرات کا قبضہ ہوتا ہے۔ اس لئے پندرہ سال کی کوششوں کے بعد لاس اینجلس اور برلن میں عورتوں کی مساجد کے بعد مریم مسجد وجود میں آئی جہاں مردوں عورتوں دونوں کو خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ برطانیہ کے شہر بریڈ فورڈ میں خاص عورتوں کے لئے مسجد بنانے کا پلان ہے جو کہ 2020 تک مکمل ہوجائے گا۔ بریڈ فورڈ میں بننے والی برطانیہ کی پہلی مسجد ہوگی جہاں عورتیں امامت کریں گی۔

ابن رشد گوئٹے مسجد برلن

برلن کی ابن رشد گوئٹے مسجد ایک پر و ٹسنٹ چرچ کی تیسری منزل پر شہرکی Moabit district میں واقع ہے۔ اس مسجد کا افتتاح2016 میں ہوا تھا اور پہلا خطبہ جمعہ ترکش جرمن ہیومن رائٹس اکٹیوسٹ Seyran Ates نے دیا تھا۔ یمن کی رہنے والی پو لیٹیکل سائنس کی سوٹزر لینڈ میں پروفیسر الہام مانیا جس نے صبح کی نماز کی امامت کی تھی کا کہنا ہے کہ یہ مسجد سوشل حقیقت کا آئینہ دار ہے کہ مرد اور عورت برابر کے ہیں۔ یہ پیغام ہمارے دھرم اور ہماری سوسائٹی سے محبت کا ہے۔ یہ بات اس نے عربی زبان فر فر بولتے ہوئے کہی۔ اس مسجد میں ہر قسم کے مسلمانوں کا عبادت کا حق ہے چاہے وہ گے ہوں، یا موسیکوئیل ہوں۔ برقعہ پہننے کی یہاں سخت ممانعت ہے۔ مرد اور خواتین اکھٹے نمازیں ادا کرتے۔

برلن کے مسلمانوں میں اس مسجد کے افتتاح پر یورپین سوسائٹی میں اسلام کے رول پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ نیز یہ نکتہ بھی زیر بحث ہے کہ اسلام کو کس حد تک روشن خیال کیا جائے۔ مسجد کے افتتاح کے24 گھنٹوں کے اندر اندر Seyran Ates کو قتل کر دینے کی اتنی دھمکیاں موصول ہوئیں کہ پولیس نے اس کو 24 گھنٹے تحفظ دے دیا۔ 2015 سے جرمنی نے اسلامی ممالک سے دس لاکھ سے زیادہ ریفیوجیز کو پناہ دی ہے اور اب ان کا جرمن معاشرے میں انٹگریٹ کرنا بڑا کٹھن مسئلہ بن گیا ہے۔ نئے آنیوالوں نے شہروں میں اپنی بستیاں آباد کر لی ہیں جن کا جرمن سوسائٹی سے رابطہ نہ ہونے کے برابر ہے۔

مصر اور ترکی میں علماء نے برلن کی عورتوں کی مسجد پر لعن طعن کی ہے۔ یہی نقطہ نظر یہاں آنے والے ریفیوجیز کا ہے۔ مگر مسلمانوں کی قلیل تعداد نے اس قدم کو سراہا ہے۔ یمن سے ہجرت کر کے آنیوالی46 سالہ پی ایچ ڈی کی طالبہ عروہ الخطابی امید کرتی ہے کہ اس مسجد کی بنیاد سے کنزرویٹو ار ہارڈ لائن ملاؤں کا زور کم ہو جائے گا اور سوشل سروسز مہیا کرنے سے روشن خیال اسلام کو تقویت ملے گی۔ الخطابی کا کہنا ہے کہ شہر میں موجود اکثر مساجد پر اخوان المسلمون اور سلفیوں کا قبضہ ہے۔ ایسی مساجد میں بنیاد پرستی کی تعلیم دی جاتی اور لوگوں کو برین واش کیا جاتا۔ ان مساجد میں پرانے رہنے والے مسلمان بہت کم جاتے، تا ہم اگر ایسی مساجد ریفیوجیز کو امداد مہیا کریں گی تو نئے آنیوالے مہاجر ان مساجد میں جانا شروع کردیں گے۔ یوں انٹگریشن بہت ہی مشکل کام ہو جائے گا۔ شام سے پچھلے سالوں میں آنیوالے ریفیوجی ابن رشد مسجد میں نہیں جاتے بلکہ بڑی تعداد کسی مسجد نہیں جاتی ہے۔ کیونکہ یا تو وہ جرمن زبان سیکھ رہے، ملازمت تلا ش کر رہے یا رہائش کی تلاش میں مگن ہیں۔

نیویارک میں امام عورت غزالہ انور نے سب سے پہلی بار امریکہ میں نیویارک میں الفاتحہ کانفرنس میں1999میں منعقدہ مکسڈ جینڈر نمازیوں کی امامت کی تھی۔

پروفیسر امینہ ودود متعدد کتابوں کی مصنف ہیں۔ انہوں نے پہلی بار کیپ ٹاؤن ساؤتھ افریقہ1996میں خطبہ جمعہ دیا تھا۔ مارچ 2005میں انہوں نے یہودیوں کی مین ہٹن میں عبادت گاہ میں میں جمعہ کی امامت کی جس میں ایک سو کے قریب مرد اور عورتیں تھیں جنہوں نے بغیر تفریق کے ا کٹھے مل کر نماز ادا کی۔ اذان بھی ایک عورت سہیلہ العطار نے دی تھی جس نے سر پر سکارف بھی نہیں پہنا ہوا تھا۔ ۔ اس کے بعد پر وفیسر ودود نے سپین اور آکسفورڈ میں بھی نمازوں کی امامت کی تھی۔ اس انقلابی قدم کی ٹیلی ویژن اور اخبارات میں بہت تشہیر ہوئی اور ہر ایک نے بحث کرنا شروع کردی کہ مساجد میں عورتوں کا کیا رول ہونا چاہیے؟

اس کا ایک اثر womensmosque.com ہے۔ الازھر کی مسجد کے امام شیخ سید طنطاوی نے اس فعل کی مذمت کی جبکہ امریکی پر وفیسر خالد ابو الفضل نے اس کو شدت پسندعلماء کی شکست قرار دیا تھا۔ نیویارک میں مسجد میں عورت کی امامت میں نماز ادا کرنے میں پروفیسراَسرا نعمانی نے اہم کردار ادا کیا تھا جو مولانا شبلی نعمانی کی پوتی ہیں۔ پروفیسر نعمانی پہلی عورت ہیں جس نے 2003میں ویسٹ ورجینیا کی مسجد میں مردوں کے ہال میں نماز اد ا کی تھی۔ اس کی خبر نیویارک ٹائمز نے شائع کی اور نعمانی کو امریکن سول رائٹس لیڈر، روزا پارکس Rosa Parks کا لقب دیا تھا۔

امریکہ کے مختلف شہروں میں عورتیں میڈیا کوریج کے بغیر نمازوں میں امامت کر وا رہی ہیں۔ مثلاً 2006/2007میں نا کیا جیکسن نے عید کی نماز کی امامت کی اور عید کا خطبہ لوری سلورز Laury Silversنے دیا تھا۔ ویسٹ ہالی ووڈ میں مسلمز فار پرو گریسو ویلیوز کے تحت پچھلے دس سال سے عورتوں اور مردوں پر مشتمل نمازوں کی امامت کی جارہی اور دونوں ہی باری باری خطبہ دیتے ہیں۔ نماز کے دوران عورت جہاں چاہے کھڑے ہو کر نماز ادا کرسکتی ہے ان کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا۔ امام پامیلا ٹیلر نے2010 میں واشنگٹن ڈی سی میں آل سولز چرچ میں عید کی با جماعت نماز کی امامت کی تھی۔ ۔ امام پامیلا ٹیلر نے کو لمبس (اوہایو) میں2012 میں مسجد کے افتتاح کے موقعہ پر خدا کی محبت پر خطبہ دیا تھا۔

توحید جمعہ سینٹر ٹورنٹو

کینیڈا میں نماز کی امامت سب سے پہلی بار2003میں غزالہ انور نے کی تھی جس کا انتظام بیر سٹر فاروق الخاکی نے کیا تھا۔ اگلے سال ٹورنٹو کی ایتھو بی کوک مسجد میں بیس سالہ مریم مرزا نے عید کا خطبہ دیا تھا۔ 2005میں راحیل رضا نے مکسڈ جینڈر جمعہ نما ز کاخطبہ دیا اور امامت ایک گھر میں کی تھی۔ نو ر کلچر سینٹر نے دس سال قبل اپنے خطیبوں کے رجسٹر میں عورت خطیبوں کو بھی شامل کیا تھا۔ یہاں عورتیں اور مرد باری باری ہر ہفتے اذان دیتے ہیں۔ 2012 سے یہاں عورتیں جمعہ کا خطبہ بھی دیتی ہیں۔ اٹاوہ شہر میں مسلمز فار پروگریسو ویلیوز کے زیر انتظام جمعہ کی با جماعت نماز ادا کی جاتی جس میں فرحت رحمان امامت کے فرائض سر انجام دے چکی ہیں۔

توحید جمعہ سینٹر کی بنیاد یو نیورسٹی آف ٹورنٹو کے ریلجس سٹڈیز سکالور ی سلورزLaury Silvers اور گے رائٹس اکیٹو ے ٹسٹ بیر سٹرفاروق الخاکی نے مئی2009 میں رکھی تھی۔ شروع میں اس قدم کو سراہا نہیں گیا مگر دھیر دھیرے لوگوں نے آنا شروع کر دیا۔ کچھ سال قبل اس سینٹر کے ممبران کی تعداد200 کے قریب تھی۔ جمعہ کی نماز ٹورنٹو کے ڈاؤن ٹاؤن کے ایک آفس ٹاور میں ادا کی جاتی جس کا پتہ خفیہ رکھا جاتا ہے کیونکہ LGBTQکے افراد کو بھی یہاں خوش آمدید کہا جاتا ہے۔

مریم مسجد کیلی فورنیا

برکلے یو نیورسٹی (کیلی فورنیا)کے کیمپس پر واقع مسجدقلب مریم Qal’bu Maryam کا آغاز2017میں ہوا تھا۔ مسجد کی انتظامیہ کے ایک فرد رابعہ کیبل کا کہنا ہے کہ اس مسجد میں عورت امامت کے فرائض سر انجام دیتی۔ یہ اسی طرح ہے جس طرح روزا پارک بس میں پیچھے بیٹھ کر سفر کرنے سے تنگ آگئی تھی۔ ہماری عورتیں مسجد میں پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھنے سے تنگ آگئی ہیں۔ کسی عبادت گاہ کو ہر ایک کے لئے کھلی جگہ ہو نا چاہیے اور یوں لگے جیسے وہ اپنے گھر میں ہی ہے۔ کسی دور میں عورتوں کو کہا جاتا تھا کہ وہ جمعہ کی نماز کے لئے مسجد نہیں آئیں۔ جو آ جاتیں ان کو الگ بیٹھنا پڑتا، الگ دروازے داخل ہو نا پڑتا اور بعض دفعہ تو وہ خطبہ سننے سے بھی محروم رہتی تھیں۔ عموماً مساجد میں عورتوں کو نشانہ تنقید بنایا جاتا، لباس سے لے کر حجاب تک، یوں ان کو ذلیل اورشرمندہ کیا جاتا تا وہ جا ن لیں کہ مسجد کے کلچر میں ان کو اچھی نگاہوں سے نہیں دیکھا جاتا ہے۔

مسجد کا نام قلب مریم (مریم کا دل) حضرت مریم ؑ کے نام پر ہے تا یہ واضح ہو کہ اسلام میں والدہ حضرت عیسیٰ ؑ کا کتنا افضل اور اعلیٰ مقام ہے۔ قلب مریم مسجد میں پہلا خطبہ تارزانہ(کیلی فورنیا) کی رہنے والی ثریا دین نے دیا تھا جو مسلم ویمن سپیکرز کی بانی بھی ہے۔ انٹر فیتھ ڈایا لاگ کے لئے مسجد میں اسلامی تعلیمات پر کلاسز شروع کی جا ئیں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).