وزیر اعلی عثمان بزدار ہمارے لئے مشعل راہ ہیں


ایک تو یہ ہم ہم کر کے بات کرنا بڑا مشکل ہے۔ لیکن بھلا ہو وزیر اعظم پاک و ہند کا جن کی ’میں‘ کی گردان نے ہمیں یہ باور کرایا کہ یہ کس قدر مضحکہ خیز حرکت ہے۔ ہم تو وزیر اعظم بھی نہیں کہ کوئی ہماری بے تکان باتوں پر بھی سر دھن لے۔ اور رہنے کے لئے ویسے بھی سب سے اچھی جگہ اپنی اوقات ہی ہوتی ہے۔ ہم بھی دل پر یہ پتھر رکھ لیں گے۔ کوئی مسئلہ نہیں۔

ہمارا ایک ہی بھائی ہے جو ہمیں بچپن سے یہ بات سمجھانے میں سرگرداں ہے کہ غریب انسان نہیں اس کی سوچ ہوتی ہے۔ مانا کہ ہماری جیب ویسے بھی تقریباً خالی ہی رہتی ہے لیکن ہماری سوچ تو اس سے بھی گئی گزری ہے۔ خاصا لولا لنگڑا تخیل ہے۔ کبھی ٹھوکر نیاز بیگ سے آگے بھی نہیں جا پاتا۔ اپنی اس کمزوری کو ہم پیار سے قناعت کہتے ہیں۔ یہ اس کا نک نیم ہے۔

حالانکہ سننے میں آیا ہے کہ حقیقت یہی ہے کہ انسان جو سوچے وہ ممکن ہے۔ اڑن قالین اور کھٹولے کی کہانیاں گھڑنے والا انسان آج زمین سے آگے کی دنیائیں بھی ماپ رہا ہے۔ خدا چاہے تو کیا ممکن نہیں۔ نظام سقہ بادشاہ بن گیا تھا۔ بھلے ڈھائی دن کو ہی سہی لیکن مزہ تو چکھا ہے نا۔ سب ممکن ہے۔ بس وژن ہونا چاہیے۔

تاریخ کے اتنے صفحے کیا کھولنے اپنے وزیر اعلی جناب عزت ماب عثمان بزدار صاحب کو ہی دیکھ لیجیے۔ خدا جانے کہ یہ بادشاہت کتنے دن کی ہے لیکن صاحب تو بن گئے نا۔ تین مہینے پہلے ہی پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے بزدار صاحب آج ملک کے سب سے بڑے صوبے کے (بظاہر) سب سے طاقتور شخص ہیں۔ اسی لئے اقتدار میں آتے ہی سب سے پہلا کام یہی کیا کہ اپنے علاقے کا ایس ایچ او بحال کروایا۔ وزیر اعلی بن گئے تو کیا ہوا۔ اپنے کونسلری کے دن تو نہیں بھولے نا۔ وہی کام کیا جو کوئی بھی کونسلر کرنے کو لپکتا۔ خان صاحب نے ان کی تعریف میں یہ بھی کہا تھا کہ عثمان صاحب شریف اور غریب ہیں۔ لیجیے ثبوت حاضر۔

ع بڑا پیارا حرف ہے۔ عشق میں بھی آتا ہے اور تقریبا پوری حکومت کے ناموں میں بھی۔ عثمان صاحب بھی شاید اسی کی برکت کا کھا رہے ہیں۔ ایک انتہائی شفیق باپ ہیں۔ بیٹیوں کو نہ صرف سرکاری ہیلی کاپٹر کا جھولا دلایا بلکہ ان کا فوٹو شوٹ بھی کروایا۔ اس سے پہلے کہ ڈھائی دن ختم ہوں بچوں کے پاس فیس بک پر لگانے کی کوئی یادگار تو ہو۔ سند رہے تاکہ بوقت ضرورت کام آئے۔ وزیر اعلی صاحب ایک انتہائی تابعدار داماد بھی ہیں۔ سسرال بھی اپنی نئی سواری یعنی ہیلی کاپٹر دکھا لائے کہ کہیں وہ اس شرف سے محروم نہ رہ جائیں۔

عثمان صاحب ایک محبت کرنے والے بھائی بھی ہیں۔ اسی لئے بہن کے سروسز ہسپتال آتے ہی ان کو وی وی آئی پی روم میں منتقل کیا اور تمام عملے کو ہدایت کی کہ عام شہری کی خدمت میں کوئی کسر نہ رہے۔ خاموش طبع ہیں اس لئے گفتگو سے گریز کرتے ہیں اور صرف سنی سنائی پر اکتفا کرتے ہیں۔ سنی کو مدہم سی آواز میں آگے سنا دیتے ہیں وہ بھی صرف تب جب وٹس ایپ سے گزارہ نہ ہو اور بولنا ناگزیر ہو۔

اس بلاگ کے ذریعے ہم اپنے وزیر اعلی صاحب کو کہنا چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ زمانہ جو بھی کہے انہوں نے ہمارے دل میں یہ بات ڈال دی ہے کہ انسان کی سوچ بھی بڑی نہ ہو تو بھی وہ بڑا بلکہ سب سے بڑا آدمی بن سکتا ہے اور جو چاہے کر سکتا ہے۔ جس ایس ایچ او کا چاہے تبادلہ کر سکتا ہے۔ ہیلی کاپٹر میں چاہے تو آئس کریم کھا آئے۔ کرسی پر جوتوں سمیت پیر بھی اوپر کر سکتا ہے۔ ستاروں پر کمند ڈالنے کے خواب دیکھنے والے پاگلوں کو اس لگژری کا کیا پتہ۔

عثمان صاحب سے اچھا وزیر اعلی تو شاید بلکہ یقینا مل جائے گا لیکن رول ماڈل ملنا مشکل ہے۔ ہمارا ارادہ خالی خولی ناز کرنے کا نہیں بلکہ وزیر اعلی صاحب سے ملنے کا ہے۔ ان سے آٹو گراف لینے کا ہے۔ ایک تصویر کھنچوانے کا ہے۔ یوں تو ہمارا بلاگ ہم، ہمارے ایڈیٹر صاحب اور ہمارے گنتی کے دوستوں کے علاوہ کوئی نہیں پڑھتا۔ لیکن پھر بھی کسی بڑے بندے کی نظر پڑ جائے تو التماس ہے کہ ہمارا یہ خواب پورا کر دیں تاکہ ہم کسی اور خواب کو دیکھنا چھوڑ دیں۔ اوکے بائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).