دھیمے لہجے والے صحافی کا تلخ سوال


فرخ شہباز وڑائچ کو ہم سب کئی برسوں سے جانتے ہیں، ہم نے ہمیشہ ان کو ہنستے مسکراتے دیکھا۔ ان کا یہ دھیما لہجہ ہی ان کی شخصیت میں اضافہ کرتا ہے۔ دو روز قبل ایک وِڈیو دیکھی جس میں ایک صحافی کی طرف سے وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار سے سوال کیا جارہا تھا کہ ’’سر! کہا جا رہا ہے کہ آپ چار مہینے مزید رہیں گے، اس کے بعد آپ کو ہٹا دیا جائے گا، کیوں کہ آپ کے سینئیر وزرا کہہ رہے ہیں، کہ آپ فائلیں نہیں پڑھ سکتے؟ اس پر آپ کا مذاق اڑایا جاتا ہے، اس حوالے سے آپ کیا کہیں گے‘‘؟ اس کے بعد میں نے صرف ایک سیکنڈ کے لیے عثمان بزدار کی جگہ شہباز شریف کو رکھا اور خیال کیا کہ کیا شہباز شریف کے سامنے یہ سوال کرنے کی کوئی جرات کر سکتا تھا؟ کیوں کہ وزیر اعلی پنجاب سے تو پہلے ہی ہم بخوبی واقف ہیں، ابھی تک ہمیں اس بات کی سمجھ نہیں آئی، کہ سردار عثمان بزدار جیسے نہ تجربہ کار انسان کو عمران خان نے پنجاب کا وزیر اعلیٰ کیسے بنا دیا۔ اب ہمیں یہ بھی سمجھ نہیں آر ہا، کہ فرخ شہباز وڑائچ جیسے انسان نے اتنا تلخ انداز کب سے اپنا لیا؟

حالیہ دنوں میں سردار عثمان بزدار کے پیچھے کئی صحافی پڑے ہوئے ہیں، لیکن بہرحال وہ تمام صحافی عثمان بزدار پر مہذب انداز میں مناسب الفاظ کے چناو کے ساتھ تنقید کرتے ہیں، جو کہ ہر صحافی کا حق ہے۔ تاہم وزارت اعلی کے عہدے پر فائز ایک “خاموش” شخص کے سامنے اس طرح کا لہجہ کسی صحافی کو زیب نہیں دیتا۔ کیا ماضی میں کسی صحافی نے اس انداز میں سابق وزرائے اعلی سے اس طرح کا سوال کرنے کی جرات کی؟ یقینا نہیں٬ کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ ایسا کرنے کی صورت میں ان کی وِڈیو تو وائرل ہو جائے گی، تاہم اس کے ساتھ ساتھ انھیں نوکری سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب میں ابھی تک ہمیں ایک ہی خوبی نظر آئی ہے اور وہ ہے ان کی “شرافت”۔ مجھے تو وہ کبھی کبھی پرانے پاکستان کے “ممنون حسین ” لگتے ہیں۔ ایک ماہ کے عرصے میں، میں نے سردار عثمان بزدار کا کوئی قابل تعریف کام نہیں دیکھا۔ وہ اب تک پنجاب میں کوئی ایک ڈھنگ کا فیصلہ نہیں کر سکے۔ یہاں تک کہ پنجاب میں بڑے بڑے فیصلے کرنے کے لیے بھی وزیر اعظم عمران خان کو لاہور آنا پڑا۔

عثمان بزدار خود بھی تنقید کی زد پر رہتے ہیں۔ کبھی ان کے پروٹوکول کی خبریں سامنے آتی ہیں، تو کبھی ان کے قریبی رشتے دار کی وی آئی پی وارڈ میں مفت علاج کی خبریں سامنے آتی ہیں۔ ہر صحافی کا حق بنتا ہے کہ وہ ایسے اقدامات پر تنقید کرے۔ تاہم کسی بھی صحافی کو کسی بھی شخص چاہے وہ سیاست دان ہوں، یا پھر کوئی عام شخص، تذلیل کی اجازت نہیں دیتا۔ فرخ شہباز وڑائچ کے مطابق اب انھیں دھمکیاں بھی دی جارہی ہیں۔ یہ کوئی پہلے صحافی نہیں ہیں، جن سے غلطی سرزد ہوئی ہو۔ یہاں تو بڑے بڑے صحافیوں کی بڑی بڑی خبریں بھی غلط ثابت ہو جاتی ہیں۔ صحافت کے اصولوں اور اخلاقیات کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ کبھی ایدھی صاحب کی قبر میں لیٹ کر رپورٹنگ کی جاتی ہے۔ کبھی بشریٰ بی بی کے لباس پر رپورٹنگ کی جاتی ہے۔ کبھی بیگم کلثوم نواز کی بیماری کو ڈراما کہہ کر پروگرام کی ریٹنگ بڑھائی جاتی رہی۔ ایسا لگتا ہے کہ صحافت کا اصل مقصد ہی ختم ہوگیا ہے۔ یہ محض اپنے نمبر بڑھانے اور ریٹنگ بڑھانے تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے۔

صحافی معاشرے کی آواز ہوتا ہے۔ فرخ شہباز وڑائچ آج جس مقام پر ہیں، اس کو حاصل کرنے کے لیے انھوں نے بہت محنت کی ہے۔ میرے خیال سے فرخ شہباز وڑائچ کو بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب سے معافی مانگ لینی چاہیے، تا کہ آنے والے نوجوان صحافیوں کو یہ یاد رہے، کہ ریٹنگ بڑھانے والی ہر غلطی قابل تعریف نہیں ہوتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).