حبیب جالب کی ’’مشیر‘ ‘


حبیب جالب صاحب جب ترنم کے ساتھ نظم پڑھتے تو سارے مجمع پر سحر طاری ہو جاتا ، یہ موسیقی کا بھی اپنا اعجاز تھا اور شاعری کی بھی بدولت تھا ۔
حبیب جالب سٹیج پہ آ ئے اور یہ نظم پڑھنے لگے کہ ،

ـ ’’میں نے اس سے یہ کہا
یہ جو دس کروڑ ہیں
جہل کا نچوڑ ہیں ‘‘

جالب صاحب کی یہ نظم ردعمل کی نفسیات کاعین مظہر اور اشارات سے بھرپور ہے ۔اس نظم کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ جالب صاحب کی پاکستان کے پہلے مارشل لائی عہد میں یعنی عہد ایوب میں حفیظ جالندھری صاحب سے ملاقات ہوئی ، ملاقات میں یہ آشکار ہوا کہ جالندھری صاحب اب صدر پاکستان کے مشیر بن چکے ہیں اور یہ مشورہ دے چکے ہیں کہ صدر صاحب آپ اپنے خلاف بولنے والے کالے کوٹ والوں کو بھی اندر ڈالیے ، یہ عوام ہے ہی ڈنڈے لائق ، آپ ان سب پہ ڈنڈہ رکھیے ،اس شاعر پہ بھی ڈنڈہ رکھیے جو یہ کہتا پھر رہا کہ ’’ میں نہیں مانتا ،میں نہیں مانتا(حبیب جالب) ‘‘
یہ انتہائی زیرک مشورہ سننے کے بعد جالب صاحب نے ایک مشیر کی حیثیت میں یہ نظم لکھی ، یعنی ایک مشیر اپنے آمر حکمراں کو عوام کے بارے میں کیا رائے دیتا ہے اور مشیر کس طرح ڈکٹیٹر کو اپنی حاکمیت بچانے واسطے عوامی آواز کچلنے کے مشورے دیتا ہے ۔۔ لہذا حبیب جالب نے نظم کا عنواں ’’ مشیر ‘‘ ہی رکھا ۔

’’بولتے جو چند ہیں
سب یہ شر پسند ہیں
ان کی کھینچ لے زباں
ان کا گھونٹ دے گلہ
میں نے اس سے یہ کہا ‘‘

اس نظم میں اس رویے کی طرف بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ سرمایہ دار طبقے کے نمائندہ لوگوں کے نزدیک کمزور افراد کی کیا اہمیت ہوتی ہے ۔

وہ ان کے لیے زرخرید غلام ہوتے ہیں جن کی فکر سو گئی ہوتی ہے ، بے شعوری غالب آئی ہوتی ہے ،زندگی کا روگ ہوتے ہیں ، الغرض یہ کہ ان کی موت ہو جانی چاہیے وگرنہ یہ سرمایہ داروں کی راہ میں پتھر بنتے رہتے ہیں۔
آوازوں کو کچلنے کی روایت نئی نہیں ہے ۔حق پرست ہمیشہ پہلے معتوب ٹھہرتا ہے ،پھر مرنے کے بعد اس کا ہی مزار بنتا ہے ۔ حق کو کربلا میں بھوکا رکھا جاتا ہے ، حق کو سولی پہ لٹکایا جاتا ہے ، حق کو مذہب کا گستاخ کہہ کر شہر میں دفن نہیں ہونے دیا جاتا اور پھر بعد میں سارا قصور اس کی قبر کے گرد شہر بسا لیتا ہے(بابا بلھے شاہ) ۔ حق کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ یہ تلخ ہوتا ہے ، اس کی کاٹھ بہت تیز ہوتی ہے ،باطل اس کو برداشت کرنا تو کجا ، اس کی آواز سے بھی ڈرتا ہے ، اس لیے کبھی مذہب کا سہارا ، کبھی قبیلے کا سہارا لے کر حق کو تنہا کر کے اس کی آواز کچل دیتا ہے ۔
مخالفین رسولؐ اپنے ساتھیوں کو کہا کرتے تھے کہ محمد ؐکی محفل میں نہ جانا ، اس کی بات بھی نہ سننا ، اس کی آواز سے تمہارے دل نرم پڑ جائیں گے۔ یہ حقیقت ہے کہ حق کی آواز بہت مختلف ہوتی ہے ، اسی لیے محمدؐ کو جان سے مارنے کی بھی سازش ہوئی ، حالانکہ اس وقت محمدؐ صرف اپنے انداز بیاں اور لذت تقریر سے لوگوں میں حق کاپرچار کررہے تھے ، پس ثابت ہوا کہ کسی کے سچ بولنے کی اہلیت کو دبانے کے لیے باطل نے ہمیشہ دلیل کی بجائے ڈنڈے کو ترجیح دی ، سلام کرنے کے بجائے گالی دی اور جنازے پہ بھی آوازیں کسیں ، یہ روایت آج بھی مختلف رنگ میں مرے ملک میں رائج ہے۔
سوال کبھی بھی بے معنی نہیں ہوتا ، سوال زرخیز دماغ کی پیداوار ہوتا ہے ۔سوال کا جواب نہ ہو نا قدرتی امر ہے مگر سوال کو دبانا آمرانہ امر ہے۔
یزید بھی تو ایک آمر تھا ۔ میری بیعت کرکے میری شوری میں شامل ہوجاؤ یا تمہاری اور تمہارے کنبے کے ہر افراد کی آواز کچل دی جائے گی جو مری خلافت کے خلاف بولا ۔ غور کیجیے اس یزیدی نعرے کی جدید تشریح ہر مطلق العنائیت میں مجذوب بادشاہ کرتا آیا ہے اور وقت کا حسین بجائے بیعت کرنے کے ہمیشہ دار کو منتخب کرتا ہے اور شکر ادا کرتے ہوئے مصائب و صعوبتیں برداشت کرتا ہے ۔

’’اپنے خرچ پہ ہیں قید
لوگ ترے راج میں ‘‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).