اور دل کہتا ہے ٹھہرو، ابھی ٹھہرو، عینی


 

نومبر کی شام رات کے اندھیرے سے گلے مل رہی تھی۔ ڈاکٹر کی کہی ہوئی بات کی بازگشت اس کے کانوں کی دیواروں سے ٹکرا ٹکرا کر ارتعاش پیدا کر رہی تھی۔ اس کے جگر پہ ٹیومر ہے۔ فرار ہوتا وقت سوچوں کی لہروں میں پتھر پھینکے جا رہا تھا۔ مہد سے لحد تک کی مسافتیں اتنی جلدی طے ہو جائیں گی ایسا سوچا نہ تھا۔ اسے اپنے سے زیادہ پسماندگان کی فکر تھی۔ ابوذر اور اسامہ ابھی چھوٹے تھے۔ خیالات کے ایک پلڑے میں جگر پاروں کے ننھے ننھے کندھے اور دوسرے پلڑے میں یتیمی کا پہاڑ، موازنہ کرتی کا دل نوک خار پہ لرزتے شبنمی قطرے کی طرح دھڑکنے لگا۔ ادھر جیسے موت دبے پاؤں اس کی طرف بڑھ رہی تھی۔ یک لخت فیصلہ کن آواز ابھری۔

ابوذر، ابوذر، بستر علالت پر جگر کے عارضے میں مبتلا درد جگر کی اٹھتی ٹیسوں کو اپنے ہاتھوں کے لمس سے سنبھالتی اپنے جگر گوشے کو بلا رہی تھی۔ ابوذر کی سماعتوں میں جگر فگار صدا ایسے محسوس ہوئی جیسے تاریک سکوت میں دور کوئی کراہ رہا ہو۔ جیسے ہی ابوذر قریب آیا، ممتا کے ہاتھوں نے درد جگر بھول کر لخت جگر کے گلے میں کلائیوں کے ہار پرو دیے۔ حیات و موت کی کشکمکش سے کھسک کر اپنے لخت دل کے کانوں میں ملتجیانہ انداز میں ایسے سرگوشی کی جیسے پھولوں پہ شبنم گرتی ہے۔۔ میرے لال ، میں اپنی زندگی میں تیرے ماتھے پہ سہرے کی چمکتی کلیاں دیکھنا چاہتی ہوں۔ اَدھر بی ایس کے طالبعلم نوخیز جوان حیرت و استعجاب اور خوف میں کہیں کہیں مسرت کے ملے جلے جذبات کی فضاؤں میں غوطہ کھاتے ہوئے اپنی ہم جماعتوں کے گروہ میں اپنی دلہنیا کو ٹتولنے لگا ادھر چشم تصور میں اپنے بیٹے کی شادمانی کی ڈھولک کی تھاپ پہ اس کی سماعتیں جھومنے لگیں۔ آنکھوں کے پپوٹے پھڑک پھڑک کر نمکین پانیوں کو سنبھالنے میں ناکام ہونے لگے۔ نتھنے گلاب کی پتیوں کی طرح تھرتھرانے لگے۔ جگر سوز ہچکیوں میں مامتا کی فریاد عرش معلیٰ پہ درجہ قبولیت کو چھونے میں جیسے کامیاب ہوئی، آئی اجل موجل ہو گئی۔ کپکپاتے لبوں سے نحیف صدا نے جب کہا، بیٹا سنا ہے بیٹیاں ماؤں کی موت پہ دھاڑیں مارتی ہیں تو بیٹوں کے سینوں میں رکے کرب کے پہاڑ دھارے بن بن بہتے ہیں۔ اور یوں درد بٹ جاتا ہے، میری تو کوئی بیٹی ہی نہیں۔ یہ سنتے ہی بیٹے کی چھلکتی آنکھوں نے ہاں میں ہاں ملا دی۔ بڑا جگر کرتی بستر بیماری چھوڑتی ست رنگی کمان کی طرح کھکھلانے لگی جو پس منظر میں آسمان کے آنسوؤں کے دھاروں کو روکے ہوتی ہے۔ بہو بٹیا کو گھر لانے کی تیاریوں میں ایسی مصروف ہوئی کہ گھونگھٹ اٹھنے تک اڑی اڑی پھرتی رہی۔

رازق کی تقسیم نے شیخ نصیر الدین کا نام سرزمین میانوالی جو نو منتخب وزیر اعظم کا آبائی وطن بھی ہے، کے دانوں پہ لکھ دیا تو باٹا پور فیکٹری میں خدمات کی انجام دہی کے دوران 13 جون 1966 کو باغیچہ خانہ میں کھلنے والی کلی نے پرائے دیس کی اجنبیتوں کو شادمانیوں میں بدل ڈالا۔ بابا کی تخلیق کاریوں نے ایسی آبیاری کی کہ تعلیمی مسافتیں طے کرتی خود بھی نہ جان پائی کہ قرطاس پہ آڑی ترچھی پڑتی لکیروں نے کب منظم ہو کر شاعری کا روپ دھار لیا۔ گندھارا تہذیب کے صدیوں قائم رہنے والے مرکز ٹیکسلا سے میٹرک کیا۔ تاریخی ادبی شہر لاہور میں سخنوروں کی صحبت نے وہ رنگ نکھارا کہ میانوالی کی معطر فضاؤں میں کھلتے شگوفے کا شمار چمن ادب کے اشجار میں ہونے لگا۔ حتیٰ کہ یہ شجر ادب ثمر آور ہوا تو منفرد لب و لہجے کی مالک گویا ہوئی

یہ پرندے نہیں اڑتے ہوئے

یہ میرے خواب ہیں بکھرتے ہوئے

اور یوں عینی راز صاحبہ صاحب کتاب ہو گئیں۔

لاہور کے تمام حلقہ ہائے ادب کی سجائی گئی محافل کی رونقوں کو کبھی اپنے مخصوص لہجے کی حلاوتوں سے شیریں کرتی تو کبھی کومل سریلی صدا سے اہالیان محفل کی سماعتوں میں اترتی، کبھی احباب کو ادبی لطافتوں سے محظوظ کرتی، جہاں شمشاد ادب کی چھاؤں میں استراحت سے سرشار ہوتی وہاں نوواردان کے تھپکیاں لگا لگا کر حوصلے بھی بڑھاتی، کبھی جذبہ حب الوطنی سے سرشاریوں کا اظہار منظوم کرتی، تو کبھی صوفیانہ رنگ میں بارگاہ نبوت میں عقیدتوں کے پھول نچھاور کرتی، اندر سے ٹوٹی کشتی کی طرح لیکن چہرے کے خد و خال پہ مسکراہٹیں سنبھال سنبھال رکھتی ادبی مسافتیں ناپتی رہی

28 ستمبر کی شام جگر سوز خبر نے تمام تر اداسیاں جیسے ایک دم دل میں اتار دیں کہ محترمہ عینی راز صاحبہ حق رحمت سے جا ملی ہیں۔ معروف ادیبہ محترمہ رابعہ رحمٰن نے پوسٹ لگائی جس میں مرحومہ کے کمرے میں لٹکتی تصاویر بھی تھیں۔ ساتھ میں مصنفہ مغفورہ کا شعر رلا گیا۔

وہ میرے درد کو کب سمجھے گا

جب میں اس درد سے مٹ جاؤں گی

قلم قبیلے کی اس فرد کا داغ مفارقت دینا جہاں ایک صدمہ ہے وہاں اہل قلم کی جنازے میں عدم موجودگی ہم سب پہ ایک سوالیہ نشان ؟ درد شناسی کو پیٹتے نظموں غزلوں مقالوں کی صورت کاغذ پہ منقش کرنے والوں کے رشتے اس قدر کاغذی ہیں۔ ان کی پوسٹ پہ تعزیتی پیغامات کا سلسلہ بلا تشکیک درد آشنائی کے تقاضے کسی حد تک پورے کر رہا ہے۔ لیکن ہم سوشل میڈیا کے تیز ترین رابطوں کے باوجود کس قدر فاصلوں کا شکار ہیں کہ ایک ادیبہ چپ چاپ راہ عدم سدھارنے سے پہلے تقریبا ایک ہفتہ وینٹیلیٹر پہ خاموشیوں کے سمندر میں مستغرق اپنے دل کی دھڑکنیں گن گن کے کہتی گزر گئی۔

کرتے رہے طبیب میرا ہر طرح علاج

مجھ کو تو اس کے ہجر کا بس عارضہ رہا

اللہ پاک سے دعا ہے کہ مرحومہ عینی راز صاحبہ کی اپنے حبیبؐ اور ان کی آل اطہارؑ کے صدقے میں مغفرت فرمائے، اور یقیناً ایسا ہی ہو گا۔ جیسا کہ اپنی ماہ ستمبر کی پہلی اور آخری پوسٹ لگانے والی کا ایک ایک لفظ عشق اہلبیتؑ سے سرشار ہے۔

 قطعہ بحضور عالی مقام علیہ السلام

ہر پھول غمزدہ ہے تو گلشن میں خزاں ہے

سب طائران شوق کے ہونٹوں پہ فغاں ہے

ہر آنکھ میں غم کے آنسو بھرے ہوئے

ماتم کا ایک شور بپا کون و مکاں ہے

آخر میں تمام سخن سنج شخصیات اور ادبی حلقوں سے درخواست کہ مرحومہ کی یاد میں تعزیتی ریفرینس کا قیام عمل میں لایا جائے۔ عینی راز صاحبہ کے ایک شعر کے ساتھ اجازت  چاہتا ہوں

شدت درد سے پھٹنے کو جگر ہے بے تاب

اور دل کہتا ہے ٹھہرو ابھی ٹھہرو عینی

 

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).