بشریٰ بی بی اور پاکستانی عورت کو پڑنے والی گالی


تو پاکستان میں یہ رسم ٹھہری کہ مرد کے حصے کی گالی ہمیشہ عورت ہی کھائے گی۔ چاہے کسی مرد کا قتل ہو، کسی عورت کا ریپ ہو، کسی کے گھر ڈاکہ ڈکیتی ہو، یا کوئی ذاتی، سماجی اور سیاسی دشمنی ہو سزا کے لئے عورت کو ہی چنا جائے گا۔ الہٰی تو نے برصغیر کی عورت کو تاوان بنا کر کیوں پیدا کیا؟ وہ عورت چاہے ماڈرن ریحام خان ہو (ان کے موقف سے اختلاف کے باوجود) باوقار کلثوم نواز ہو یا انتہائی باپردہ بشری بی بی! سب کو سزا مردوں کے حصے کی ہی ملے گی۔

یہ ”پردہ پردہ، نجات کا باعث“ کا شور مچانے والے اگر باپردہ عورت کو بھی اس معاشرے میں تعظیم نہیں دے سکتے تو عورتوں کے لباس پر انگلی اٹھانے کی جرات کیسے کر لیتے ہیں؟ پاکستانی معاشرے کے تنزل کی وجہ یہی ہے کہ ہماری آنکھ کے ساتھ ہمارے دل سے بھی حیا اور لحاظ کا پردہ ہٹ چکا۔ ہر عورت کو چاہے وہ کسی بھی پہناوے میں ہو سر تا پا دیکھنے والے مردانہ معاشرے میں پھر اب کوئی حیرت نہیں کہ عورتیں گھروں میں محرم رشتوں کے ہاتھوں بھی جنسی استحصال کا شکار ہونے لگی ہیں۔

اس کا ادراک مجھے ایک چائلڈ ابیوز کی این جی او ”سٹاف“ (سیو دی اینجلز اینڈ فئیریز) کے ساتھ کام کرنے سے ہوا جب قالین اٹھانے پر نیچے سے گند ہی گند نکلا۔ خبر ہوئی کہ کس طرح ہمارے قریب ترین موجود خواتین بھی اپنے گھروں کی محفوظ دیواروں کے اندر محرم رشتوں کے ہاتھوں جنسی استحصال کا شکار ہو رہی ہیں۔ اگرچہ اس کا تناسب کم ہے مگر ایک ایسے معاشرے میں جہاں اسلام کو ماننے، سمجھنے اور اوڑھنے کا بلند و بانگ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے اور ہر شخص اپنے خود ساختہ اسلامی عقاید کو سچائی کا سرچشمہ بھی سمجھتا اور دوسرے پر ٹھونسنے کا بھرپور حق رکھتا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ انسان جب بے حیائی پر گرفت مضبوط کرنے لگتا ہے تو وہ شہر سے ہو کر بالآخر اس کے گھر ضرور لوٹتی ہے۔ اٹھی ہوئی نگاہ اور لمبی ہوئی زبان پھر اپنی بہن بیٹوں پر بھی رکتی اور تھمتی نہیں۔ اعمال عادتوں سے سرزد ہوتے ہیں، رٹے ہوے اسباق سے نہیں۔ اگر آپ کی آنکھ کو بے حیائی کی عادت ہے تو وہ محرم رشتوں سے دیر تک پردہ کرنے سے قاصر ہے، جلد یا بدیر اس کو وہاں تک پہنچنا ہی ہے۔

یہ سب باتیں اس لئے لکھنی پڑیں جب بشری بی بی نامی ایک عورت کو ایک سیاستدان کے نام سے دنیا جہان میں بدنام ہوتے، مذاق اور تماشا بنتے دیکھا اور اس میں بڑے بڑے افلاطونوں اور ارسطووں کو بھی حصہ ڈالتے دیکھا۔ ایک ایسی عورت جو خود کو گھر کی چار دیواری میں ہی نہیں بلکہ پردے کے سو گھیروں کے بھی اندر محفوظ رکھنا چاہتی ہے اسے اس چادر چار دیواری سے آگے، پردے میں بھی امان نہ ملی صرف اس لئے کہ اس کے مجازی خدا کے ساتھ ہمارے ذاتی اور سیاسی اختلافات ہیں۔ ایک ایسی عورت جس کا سیاست سمیت کسی بھی عالمی اور نیشنل لیول پر کوئی کردار نہیں ماسوائے یہ کہ وہ منتخب شدہ وزیراعظم کی بیوی ہے اور اس درجے کی بنا پر خاتون اوّل کہلاتی ہے۔

بشریٰ بی بی کے انٹرویو نے بجا طور پر ان تمام لوگوں کو جو پی ٹی آئی کے ساتھ جذباتی وابستگی رکھتے ہیں کو مایوس کیا چونکہ وہ کوئی بہت ہی اعلیٰ و ارفع، ذہین فطین قسم کی، دلائل اور تشریحات سے مزین، دبنگ خاتون دیکھنے کے خواہاں تھے اور عمران خان کے مخالفین کو شاید اس لیے کہ ان کو بھی جنات پر قابو پانے والی اور بشارتیں دینے والی خاتون نہ دکھائی دے سکی۔ اس کے برخلاف ایک بہت بے ضرر سی، روایتی سی، محدود سے پس منظر میں رہنے والی ایک عبادت گزار عورت سامنے آئی جو در حقیقت زندگی کی بہت عام عام سی چیزوں سے بھی خاصی پرے رہی تھیں۔

جس نے خود کو شاید پردے میں لپیٹ کر جائے نماز تک محدود کر کے دنیا کو اپنے لئے مختصر کر لیا تھا۔ جسے یہ تک خبر نہ تھی کہ کون سی بات پر سوشل میڈیا پر اس کے پرخچے اڑا دیے جائیں گے اور کس بات پر اس پر انگلیاں اٹھا دی جائیں گی۔ اس انٹرویو میں میں نے اس اٹھارہ سالہ لڑکی کو دیکھا جسے کم عمری میں ہی محدود سی تعلیم کے ساتھ ایک مذہبی گدی نشین گھر میں بیاہ دیا گیا اور پھر وہ گدی سنبھالنے کے جتن میں میاں کی ہدایات پر چلتی اپنے محدود سے علم اور شعور، جسے تعلیم اور زندگی نے ابھی بالیدگی نہ بخشی تھی، کے ساتھ اپنے گھر کی حدود میں طے کیے گئے عقائد اور عبادت کے راستے پر گامزن ہو گئی اور اسی قطرے میں ساری عمر سمندر تلاشتی رہی۔ شاید اس لڑکی نے عورت میں ڈھلتے بدلتے آہستہ آہستہ وقت کے ساتھ ساتھ عبادت کو اس قدر اوڑھ لیا جتنا کہ شاید اس کے مجازی خدا کو درکار تک نہ تھا۔ چنانچہ پانچ جوان بچوں کی ماں کو بے دریغ اس کے گھر سے، زندگی سے بے دخل کر دیا۔

ہمارے مرد پرود معاشرے میں سے کسی مائی کے لال نے جرات نہ کی کہ اک انگلی اس طاقتور مرد کی طرف بھی کی جائے جس نے سالوں کی رفاقت کی رعایت تک نہ دی۔ سب کے نشتر، انگلی، زبان اور پتھر اس عورت کی طرف اٹھے جس کے پانچ جوان بچے بھی اس کی طاقت نہ بن سکے۔ میں نے اپنے آس پاس فیمنزم پر دن رات تقریر کرتی خواتین، دن رات انسانیت کے دکھ میں رونے والے لوگ تک بے دریغ اس عورت کی طرف انگلی اٹھاتے دیکھے اور اس عورت کو قصور وار ٹھہرانے والے معاشرے میں وہ ایک مرد صاف بچ نکلا جس کا پہلا مواخذہ بنتا تھا۔ مہذب معاشروں میں پہلا سوال طاقتور سے ہوتا ہے لیکن ہمارے جیسے زوال پزیر معاشرے میں ہر لاٹھی کمزور پر توڑی جاتی ہے۔ اس عورت کی زندگی میں آنے والے دوسرے مرد کی بھی سیاست کی ساری میلی چادر بشری بی بی کو اکیلے لپیٹنی پڑی۔ یہاں بھی میاں کی تمام تر غلطیوں، کوتاہیوں اور سیاست کا سارا بوجھ اسی ایک عورت کے سر پر ڈال دیا گیا۔

اگر ملک کی ایک طاقتور ترین خاتون کے ساتھ پاکستان میں یہ ہوتا ہے تو ذرہ بے نشان بن کر رہنے والی لاکھوں کروڑوں عورتوں کا ان کی زندگیوں میں، گھروں میں اور اس معاشرے میں کیا حشر نہ ہوتا ہو گا؟ کیا یہ اسلامی معاشرہ صرف عورت کے استحصال کا ہی بوجھ اٹھا سکتا ہے اس دنیا کے سامنے یا اس دنیا کو چلانے والے رب کے سامنے؟ ہر حکومت نیا اسلامی خاکہ لے کر آتی ہے مگر عورت کی گالی، اس کے استحصال، اور زیادتی کو کوئی نہیں روک سکی۔ نہ نواز شریف کا اسلام کلثوم نواز کو بچا سکا نہ عمران خان کی اسلامی ریاست بشری بی بی کو!

جناب وزیراعظم! جہاں آپ نے اور اتنے اقدام اپنے دوستوں پر اعتماد کا اظہار کر کے کیے ہیں وہاں پر ایک قدم کم سے کم اپنی عورت کی حفاظت کا بھی اٹھائیں۔ شاید کہ اس کے بل پر اس ملک کی کمزور اور بے بس عورت کو بھی کچھ انصاف مل سکے، وہ بھی کچھ ظلم و زیادتی سے بچ سکے۔ اپنی عبادت گزار بیوی کی خاطر ہی کچھ قوانین، کچھ ضابطے، کچھ پابندیاں اس معاشرے کو ایسی دے جائیں جو اس ریاست کی عورت کو گھر کے اندر کے ظلم اور باہر کے استحصال سے کچھ تو نجات دے۔

انٹرنیٹ، سوشل میڈیا، گھر، بازار، ہر گلی میں مذاق اور تماشا بننے والی عورت کو کچھ حفاظت دے دیں یا اس کا تماشا بنانے اور استحصال کرنے والوں کو تھوڑی سی عبرت۔ کچھ سبق سکھا دیں پاکستان میں عورت کو نشانہ بنانے والوں اور مرد کے نام کی گالی دینے والوں کو! کیا گالی کھانے کے لیے اس ملک میں باپ، بھائی اور بیٹے ختم ہو چکے جو ہر ظلم سہنے کے لئے ایک عورت کو آگے کر دیا جاتا ہے، پھر چاہے وہ مختاراں مائی ہو، کہ بشری بی بی۔ اور کچھ نہ کریں تو ریاست مدینہ کے عورتوں کے حقوق ہی نکال کر ان کو اس ملک کا قانون بنا جائیں۔ پیارے نبیؐ کی ہر بات کا حوالہ دینے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ خطبہ الوداع پر پیارے نبی نے خبردار کیا تھا ”عورت کے معاملے میں خدا سے ڈرو!“۔ وزیراعظم صاحب اس نئی ریاست مدینہ میں اس عورت کا کوئی حصہ ہے کہ نہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).