سندھ میں یہ سب کیا ہو رہا ہے؟


جمعرات کو سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیاں صوبائی بجٹ اور وسائل کی تقسیم کے معاملے پر کشیدگی نظر آئی ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی محمد حسین نے پیپلز پارٹی کے گذشتہ حکومتوں پر شدید تنقید کی جس کے ردعمل میں صوبائی وزیر سہیل انور سیال نے بھی سیر پر سوا سیر والا کام کیا۔ دونوں فریقین کی جانب سے جو زبان استعمال کی گئی وہ کسی (سندھی و اردو بولنے والوں) کے لیے بھی قابل قبول نہیں ہے، کیوں کہ رہنمائوں کے لب و لہجے میں لسانیت و تعصب کا رنگ نمایان نظر آ رہا تھا جو کہ سندھ جیسے حساس صوبے کے قطعی طور پر حق میں نہیں۔

میرے ان بھائیوں ایم کیو ایم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے منتخب نمائندگان کو بخوبی ادراک ہے کہ ان کی مرکزی قیادت دہائیوں تک ایک دوسرے کی آنکھ کا تارا بنی رہی اور متحدہ و پیپلز پارٹی لازم و ملزوم سے کم نہیں تھے تو اب ان ہی کی طرف سے ایسی متعصبانہ زبان کا استعمال کسی صورت فائدہ مند ثابت نہیں ہوگا الٹا یہ ناعاقبت اندیشی سندھ کے پرامن ماحول میں ایک بار نفرتوں کی آگ بھڑکانے کا باعث بن سکتی ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ سندھ کے مستقل باسیوں کا اصل مسئلہ متحدہ یا پیپلز پارٹی کی غیرضروری شعلہ بیانی اور لوگوں کے جذبات بھڑکانے سے نہیں بلکہ خلوص دل اور سچی نیت کے ساتھ عمل کرنے سے حل ہوں گے وگر نہ ہر دوسرے تیسرے مہینے کوئی ایم کیو ایم سے اٹھے گا اور کوئی پیپلز پارٹی سے تو معاملات خراب سے خراب تر ہوتے جائیں گے کم سے کم منتخب نمائندگان کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور ان کو سمجھنا چاہیے کہ بس اب بہت ہوچکا، کراچی سے کشمور تک سندھ کے لوگ ماضیء قریب میں متحدہ اور پیپلز پارٹی کے درمیاں قربتوں کی انتہا دیکھ چکے ہیں وہ یہ نہیں بھولے کہ جب دونوں جماعتوں نے دونوں ہاتھوں سے مل کر تمام وسائل کو لوٹا اور عوام صحت،تعلیم،روزگار جیسے مسائل حل ہونے کا انتظار کرتی رہی۔

کیا سندھ کے عوام یہ بھلادیں کہ 2008ء سے 2013ء تک کیسے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نہ صرف سندھ بلکہ وفاق میں بھی ایک دوسرے کے بازو بنے رہے، یہاں تک کہ جب 2011ء میں سابق صدر آصف علی زرداری پر کڑا وقت آن پڑا تو ایم کیو ایم کی جانب سے کراچی میں ان کی حمایت میں ایک بڑی ریلی نکالی گئی اور جلسہ منقعد کیا گیا تو کیا اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت سندھ یا وفاقی حکومت کے وسائل کی منصفانہ تقسیم کر رہی تھی؟

سب کو پتہ ہے سب سمجھتے ہیں کہ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیاں جو بھی اختلافات ہیں وہ سیاسی ہیں اندرونی طور پر دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چلتی ہیں پر صرف میڈیا پر آنے کا شوق بہت سے لوگوں کو شعلہ بیانی پر بھڑکاتا ہے اور جوش خطابت میں انہیں یہ تک احساس نہیں ہوتا کہ وہ کس مسئلے پر کیا بات کر رہے ہیں اور انہیں الفاظ کا چنائو کس طرح کرنا چاہیے؟

بہرحال ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کو یہ فرسودہ، بوسیدہ اور پرانا طرز سیاست اب ختم کرنا چاہیے، معاشرے میں تفریق اور تقسیم کی بنیاد رکھنے والے تمام سیاستدانوں اور منتخب نمائندوں کو ان کی قیادت کی جانب سے ڈسکریج کرنا ہوگا،جس طرح بلاول بھٹو زرداری نے اپنی جماعت کے وزیر سہیل انور سیال کی سرزنش کی، یہ ایک اچھا عمل ہے اسے سراہنا چاہیے بلکل اسی طرح ایم کیو ایم کی مرکزی قیادت کو بھی محمد حسین کی کلاس لینی چاہیے تھی کی آیا انہیں سندھ اسمبلی کے ایوان میں ایسے الفاظ استعمال کرنے کی اجازت کس نے دی؟

اب میں آتا ہوں اس معاملے پر میڈیا کی جانب سے کی گئی کوریج پر جس سے بہت لوگوں کو بڑی حیرت ہوئی ہے، اس معاملے پر کچھ میڈیا چینلز کے کردار کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک کا قومی میڈیا ایسا نہیں ہوتا جیسا پاکستان میں ہے۔

قومی میڈیا کے دائرہ کار میں آنے والے چینلز کو یہ بات اب سمجھنا ہوگی کہ میڈیا کسی بھی مخصوص کمیونٹی،سیاسی جماعت یا فرقے کو سپورٹ نہیں کرتا بلکہ میڈیا مکمل طور پر غیرجانبدار ہوکر اپنے فرائض سرانجام دیتا ہے۔

معذرت کے ساتھ اس دن جب میں اس معاملے پر میڈیا کوریج کا اپنے ٹی وی اسکرین پر جائزہ لے رہا تھا تب مجھے غیرجانبداری کہیں پر نظر نہیں آئی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے بدقسمتی سے پاکستان کا قومی میڈیا فریق بنا ہوا ہو،جیسے میڈیا میں بیٹھے لوگوں کے پاس نفرت،شرانگیزی اور تقسیم کو بڑہاوا دینے کا لائسنس ملا ہوا ہو۔ جیسے چینلز کے پالیسی ساز لوگ سوئے ہوئے ہوں یا جیسے پیمرا کا کوئی چیک اینڈ بیلنس نظام ہی نہ ہو جو (قومی میڈیا کے زمرے میں آنے والے) ان تمام نیوز چینلز کو متنبہ کرتا کہ کسی بھی حساس ایشو پر ایسی متعصبانہ اینگلنگ یا چیزوں کو ایکسپلائٹ کرنا، ایک فریق کو ذمہ دار قرار دے نا یہ حق کم از کم کسی میڈیا چینل کو نہیں دیا ریاست نے۔

مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ایک طرف جب یہ ہی نام نہاد قومی میڈیا کے چینلز اپنے کئی پروگرامز میں قومی و ملی اتحاد کے بڑے بڑے بھاشن دے رہے ہوتے ہیں، جب ،مسٹر جیم، بانکے میاں کی قوالی، یا اس جیسے دیگر کونسپیٹس کے ذریعے بھی قوم،ملک،سلطنت اور اخوت کے پاٹ پڑہائے جاتے ہیں تو انہی تمام مشوروں پر عمل کے وقت یہ میڈیا والے عقل کے اندھے کیوں بن جاتے ہیں، کیوں تصویر کا ایک رخ دکھاتے ہیں یا کیوں پوری تصویر کو ہی الٹا کرکے پیش کیا جاتا ہے؟

آخر میڈیا کے ایسے طرز عمل سے کس کی جیت ہوتی ہے کیوں صرف بڑے شہروں کے مسائل تک محدود رکھتا ہے قومی میڈیا خود کو؟ کیوں دیہی علاقوں میں بسنے والے اکثر پاکستانیوں کا پرسان حال نہیں بنتا ہمارا نیشنل میڈیا؟

بہرحال میں اپنی بات کو یہیں پر ختم کرنا چاہتا ہوں اس امید پر کہ ہمارے تمام سیاسی،لسانی،معاشرتی،سماجی و مذہبی معاملات اور تنازعات پر قومی میڈیا کی سوچ بھی قومی ہو تا کہ کسی کو بھی یہ محسوس نہ ہو کہ نیشنل میڈیا میری آوز نہیں بن رہا۔ آمین !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).