ٹائٹس کی ٹائٹ کہانی


ٹائٹس ایک قسم کا غلاف ہیں جو بالعموم انسانی ٹانگوں پر پایا جاتا ہے بالخصوص خواتین کی ٹانگیں (بقول شخصے) ان سے زیادہ محفوظ، دیرپا اور خوب صورت دکھائی دیتی ہیں۔ ہر انسان کو اپنی مرضی کا لباس منتخب کرنے کا اختیار ہے بشرطیکہ انسان کی مرضی دوسرے انسان کے اندر ہیجان نہ پیدا کردے۔ دنیا میں کئی ممالک (تہذیب یافتہ) میں لباس کے معاملے میں بہت آزادی ہے۔ دیگر آزادیوں کی طرح لباس بھی مختصر ہوتا ہوا چند ایک ” نقاط‘‘ ( نکات نہیں) تک ہی مرکوز ہو کر رہ گیا ہے۔ پچھلے دنوں می ٹو کے حوالے سے مجھ جیسے خود ساختہ سماجی نیم” دانش وروں‘‘ نے خوب واویلا کیا۔ ظاہر ہے اس کے علاوہ کیا بھی کیا جا سکتا تھا۔ می ٹو کے حوالے سے ہمیں لبرل طبقے کی طرف سے کھری کھری سننا پڑیں، ہمیں قدامت پسند کیا گیا، تنگ نظر کہا گیا وغیرہ وغیرہ کہا گیا۔

بہ ہر حال ہم نے ان ”الزامات‘‘ کو تمغائے امتیاز کی طرح سے سینے پر سجایا۔ کچھ عرصہ قبل میں نے ہماری فیس بک کے بانی مارک ذکر برگ کی فیس بک وال کا” نجی دورہ‘‘ کیا۔ اس نجی دورے میں میں نے نوٹ کیا کہ مارک ذکربرگ نے یہ تسلیم کیا کہ می ٹو کی تحریک شروع ہونے کے بعد اس کی کمپنی کے مرد ملازمین خواتین ملازمین کے ساتھ پیشہ ورانہ امور کی سرانجام دہی کے حوالے سے اب کافی ڈرے ہوئے اور محتاط ہوگئے ہیں۔ گویا مرد و خواتین کے خالصتاً پیشہ ورانہ تعلقات میں بھی یہ خوف بہ ہر حال مرد کو ہی لاحق ہے کہ ” نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہوجائے‘‘۔ اس مثال کو متن کرنے کا پہلا مقصد تو یہ تھا کہ جس طرح اب تک جنسی ہراس پن کی کوئی واضح ” تعریف‘‘ نہیں ہوپائی۔ اسی طرح جنسی ہیجان خیزی کی بھی کوئی واضح تعریف موجود نہیں۔

پچھلے دنوں بھارتی اداکارہ تنوشری دتہ نے الزام عائد کیا کہ ان کے ساتھ ایک شوٹ کے دوران حدود سے تجاوز کیا گیا۔ انہوں نے فرمایا کہ ان کے ساتھ جو ” معاہدے‘‘ میں طے تھا اس سے زیادہ کی طلب کی گئی۔ تو دوستو! بھلے اس کا تعلق رقص کی جمالیات سے تھا یا جنس سے، خلاف ورزی تو خلاف ورزی ہوتی ہے، میری آنکھوں کے سامنے نانا پاٹیکر بھی آئے اور ہندوستان پاکستان کو عاشق بنانے والے محترم عمران ہاشمی بھی آئے، لیکن بے چارے نانا پاٹیکر۔ میں سوچ رہا تھا کہ کل کلاں معروف کینیڈین اور حالیہ بھارتی اداکارہ کرن جیت کور وہرہ نے بھی یہ دعوٰی کردیا کہ فلاں موقع پر حدود پھلانگی گئیں اور انہیں ہراساں کیا گیا تو میرا تو ہاسا ہی نکل جائے گا۔

خیر بات ہورہی تھی ٹائٹس کی۔ جی بالکل وہی ٹائٹس جنہیں اڑھائی سو روپے سے ایک ہزار روپے یا شاید اس سے بھی زیادہ رقم میں بازار سے خریدا جاسکتا ہے۔ ٹائٹ کا میرے خیال میں وزن دو چھٹانک ہوگا۔ اس کے بہت سے فوائد میں سے ایک فائدہ تو یہ بھی ہے کہ ایک عاشق اپنی محبوبہ کو اگر یہ تحفہ دینا چاہے تو اسے کسی بہت بڑے صندوق یا لفافے میں ڈالنے کی بھی ضرورت نہیں آپ بآسانی اپنی جیب میں بھی تہہ کر کے رکھ سکتے ہیں اور آنکھ بچا کر مناسب موقع پر اپنی محبوبہ کو دے سکتے ہیں۔ میں چونکہ قدامت پسند ہوں لیکن کہلوانا پسند نہیں کرتا لہٰذا اپنے درجہ ہائے حیاکی پیمائش کے لیے بازار سے ایک ٹائٹ خرید لایا۔ کافی ترد کے بعد اسے پہن لیا۔ پہننے کے بعد میں نے خود کو کافی ہلکا پھلکا اور بادلوں میں اڑتاہوا محسوس کیا۔ آئنے میں اپنا سراپا دیکھا تو اوپر والا دھڑ مولانا کا تو نچلا دھڑ بیمار کرینہ کپور کا دکھائی دیا، چونکہ میں ایک سماجی تجربہ کررہا تھا اس لیے اس ہائبرڈ اختراع کو برداشت کیا۔

ٹائٹ پہن کر سوچا کہ سب سے پہلے والد صاحب کے کمرے میں حاضری دی جائے کہ اگر وہاں سے قبولیت مل گئی تو سمجھو کہ قبولِ دوام مل گیا۔ بالآخر کافی دیر بعد حوصلہ پڑا تو ان کے کمرے کی دروازے پر دستک دی جواب ندارد! جھانک کر دیکھا تو والد صاحب سوئے ہوئے تھے۔ سوچا کہ گھر سے باہر کا چکر لگایا جائے۔ لیکن بخدا میں اس مشن میں بری طرح ناکام رہا۔ بیگم کو منہ دکھائی نہ کروا سکا کہ عین ممکن ہے وہ مجھ پر queer theory کا اطلاق نہ کردے۔ پندرہویں اور سولہویں صدی عیسوی میں ٹائٹس مرد اپنی زینت کے لیے استعمال کیا کرتے تھے۔ اور مستزاد یہ کہ اپنی مردانگی کی وضاحت کے لیے Codpiece بلکہ دھاتی کوڈ پیس بھی استعمال کیے جاتے تھے۔

یہ کوڈ پیس کیا ہوتے تھے ہم سب کے قارئین خود ہی تلاش کرلیں کیونکہ مجھ میں تو جسارت نہیں کہ میں ایک قدامت پسند آدمی ہوں۔ تاہم کوڈ پیس آج بھی کسی نہ کسی صورت میں لباس کا حصہ ہیں۔ افسوس کہ بازار سے خریدا میرا واحد ٹائٹ کچرے میں گیا۔ تاہم میں ان معزز خواتین کی جرات کو دونوں ہاتھ سے سلام پیش کرتا ہوں تو اس مردانہ سماج میں نہ صرف ٹائٹس پہنتی ہیں بلکہ گلی، محلے، بازار، جامعات غرضیکہ ہر جگہ دکھائی دیتی ہیں۔

یقیناً ٹائٹ پہننا آسان کام نہیں۔ ایک ایسا سماج جو برقع میں ملبوس خاتون کے ہاں بھی جنسی جزئیات تلاش کرلیتا ہے اس میں یہ ٹائٹس یقینا انسان کی حقیر اور کم تر جبلی صلاحیتوں کو سدھانے میں سود مند ثابت ہوں گے۔ خاص کر ایسے ٹائٹس جن سے ٹشو پیپر کا بھی کام لیا جاسکتا ہو یقینا نوجوانوں کو بہت سے معاملات میں خود کفیل کرنے میں سود مند ثابت ہوں گے۔ دنیا کی وہ تمام خواتین جو ٹائٹس پہنتی ہیں وہ میرے نزدیک قابلِ احترام ہیں۔ کیونکہ میں پہلے بھی عرض کرچکا ہوں کہ ماضی میں یہ لباس مردوں کا ” مان ‘‘ رکھتا رہا ہے اور اس زمانے میں اس کی خاصی توقیر بھی ہوتی تھی۔ ہمارے ہاں چونکہ خواتین کم زور ہیں اور پدرسری سماج میں ان کی آواز کوئی نہیں بنتا لہٰذا میں نے اپنے حصے کی ذمہ داری ادا کردی۔

اس کالم کا بنیادی مقصد ان مرد حضرات کی تربیت ہے جو اس لباس کو واہیات سمجھتے ہیں، ان کے نزدیک بعض اوقات تو ٹائٹ اتنا ٹائٹ ہوتا ہے کہ گمان ہوتا ہے کہ موصوفہ نے ٹانگوں پر محض رنگ کروایا ہوا ہے لیکن یہ سب ذہنی خلجان ہے، یہ سب گندی اور واہیات باتیں ہیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ایسے ٹائٹس جن سے دو طرفہ نظارگی کا خدشہ ہوتا ہے انہیں بین ہونا چاہیے تو آپ کو اخلاقی تربیت کی ضرورت ہے دنیا چاند پر پہنچ چکی ہے اورآپ ٹائٹس پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔ خاک ترقی کریں گے آپ؟ آئیے آج سے ٹائٹس کا استعمال شروع کریں کہ اسی میں ہم سب کی بقا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).