انٹرنیشنل ٹرانسلیشن ڈے


ہر سال 30/ستمبر کو دنیا بھر میں ٹرانسلیشن ڈے منایا جاتا ہے، اس دن مختلف تعلیمی و نشریاتی اداروں میں ترجمہ کی اہمیت و ضرورت کو اجاگر کرنے کے لیے پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں جن میں ترجمہ کی تکنیک و مسائل پر گفتگو کی جاتی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر یوم الترجمہ منانے کی رِیت انجیلِ مقدس کے پہلے ترجمہ کیے جانے کے بعد اس مترجم کی یاد میں 1953ء میں پڑی۔ ترجمہ نے ہر دور میں اپنی اہمیت، ضرورت اور آفاقیت قائم رکھی یہاں تک کہ جو کچھ ہم بولتے ہیں وہ بھی دراصل ہمارے خیالات کا ترجمہ ہوتا ہے۔ یہ نہ صرف دو زبانوں کو آپس میں جوڑتا ہے بلکہ دو تہذیبوں کے اشتراک کا باعث بھی بنتا ہے۔

اس دور میں عمومی طور پر دو طرح کے تراجم کیے جاتے ہیں، اول مشینی تراجم اور دوم تخلیقی تراجم۔ موجودہ وقت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مشینی ترجمہ قابلِ قبول ہوتا ہے مگر دوسرے ادب کی روح تک پہنچنے کے لیے تخلیقی ترجمہ اشد ضروری ہے کیونکہ کسی بھی ایک زبان کو جب دوسری زبان میں ترجمہ کیا جاتا ہے تو دونوں زبانوں میں استعاروں، تلمیحات، اوہام اور محاورہ جات کو اس زبان کی ثقافت اور تقاضوں کے عین مطابق ڈھالنا لازم ہو جاتا ہے۔

البیرونی جب ہندوستان آئے تو یہاں سنسکرت زبان سیکھی پھر کتاب الہند کے عنوان سے وہ لازوال کتاب لکھ ڈالی کہ جس کی بدولت ہندو آج اپنی تاریخ سے واقفیت رکھتے ہیں، چونکہ ہر زبان اپنے اندر مختلف استعارے، تلمیحات، محاورے اور اوہام سموئے ہوتی ہے اس لیے ترجمہ کرتے وقت یہ تو ممکن نہیں رہتا کہ آپ اصل سے سو فیصد نقل کر لیں مگر ساٹھ سے ستر فیصد تک درست تراجم کیے جا سکتے ہیں، اگر کسی بھی معاشرے یا ثقافت کا دقیق مطالعہ مقصود ہو تو اس کے لیے آپ کو وہاں کی مقامی زبان سیکھنی چاہیے جیسا کہ البیرونی نے کیا کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ ترجمہ کرتے ہوئے مترجم اصل تخلیق کار کے نقطۂِ نظر کو سو فیصد سمجھ سکے۔

ترجمہ اور علومِ ترجمہ دو مختلف اصطلاحات ہیں، آجکل بعض جامعات میں علومِ ترجمہ میں باقاعدہ کورسز کروائے جاتے ہیں جن میں گجرات یونیورسٹی سرفہرست ہے، وہاں باقاعدہ ایک دارالترجمہ قائم کیا گیا ہے۔ اسی طرح گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں 1937ء سے سوندھی ٹرانسلیشن سوسائٹی قائم ہے جس نے ترجمے کے میدان میں کارہائے نمایاں سرانجام دیے ہیں۔ یہ سوسائٹی ہر سال تراجم پہ مبنی ایک رسالہ بھی نکالتی ہے جس کا نام ”تخلیقِ مکرر“ رکھا گیا ہے۔ فنِ ترجمہ کو مہذب دنیا میں ترجیحاتی بنیادوں پر فروغ دیا گیا ہے۔ شاہِ ایران کے دور میں وہاں تراجم کی نگرانی کے لیے باقاعدہ ایک شعبہ قائم کیا گیا تھا جو دنیا بھر میں شائع ہونے والی کسی بھی نئی اہم کتاب کا فورا ترجمہ کر کے مارکیٹ میں بھیج دیتے تھے۔ اسی طرح آج کل بھی کینیڈا اور جاپان جیسے جدید ممالک میں مراکز ترجمہ قائم ہیں جو دنیابھر میں شائع ہونے والے معیاری ادب کو فی الفور ترجمہ کر کے اپنے عوام کی دسترس میں لے آتے ہیں۔

اردو ادب کے کئی نامور ادیب ایسے ہیں جنہوں نے اپنے ادبی کیرئیر کا آغاز ہی تراجم سے کیا، غلام عباس اور منٹو اس کی واضح مثال ہیں جنہوں نے دوسری زبانوں سے اردو میں تراجم کیے۔ دیگر زبانوں سے اردو میں ترجمہ کی روایت کافی پرانی ہے بلکہ یہ تو فورٹ ولیم کالج سے چلی آ رہی ہے مگر اکیسویں صدی کے اس تیز رفتار دور میں ضرورت اس امر کی ہے کہ جہاں دنیا گلوبل ولیج کا درجہ اختیار کر چکی ہے وہیں ہمیں چاہیے کہ اپنے ما فی الضمیر کے اظہاریے اور پرچار کے لیے اپنی زبان اردو سے دیگر بین الاقوامی زبانوں میں تراجم کریں تا کہ ایک تو ہم اپنی زبان کی خدمت کا فریضہ سرانجام دیتے رہیں نیز دنیا کی دیگر اقوام کو ہماری ثقافت اور تہذیب سے آگاہی حاصل ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).