کیا عمران سیاستدان نہیں بڑے لیڈر ہیں؟


آج سرزمین پاکستان کی تاریخ لکھنے پر مامور مورخین نے قرطاس پر جلی حروف میں سوالیہ نشان کے ساتھ لکھ دیاہے کہ نئے وزیراعظم عمران خان نے اپنی حکومت کے ابتدائی سو روزہ اقدامات کا اعلان کرتے ہی کشکول اُٹھا کر توڑ دیاہے؟ قرضوں، امدادوں سے نجات دلانے کا بیڑا اُٹھا لیا ہے؟ اِس اقدام سے اَب نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ کیو ں کہ یہی کشکول ہی تھا، جو اپنے پرائے کے سامنے امداد اور بھیک مانگنے پر اُکسایاکرتاتھا۔ اِس طرح قرضوں او ر امدادوں سے قوم کی جان چھوٹ گئی ہے۔ مگر کیا اُمیدکی جاسکتی ہے کہ حکمرانواور سیاستدانوں اور قوم کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی اُمید بھی پیدا ہو گئی ہے کہ نہیں؟

بہرحال، اَب کیا قوم کو اپنے پیروں پر چلنے، آگے، بڑھنے اور دنیا کو فتح کرنے کا عادی بنا لینا چاہیے؟ آخرقوم کب تک کشکول اُٹھا کرامدادوں اور بھیک مانگ کر اپنا دال دلیہ چلاتی رہے گی؟ ہاں! کیا واقعی وزیراعظم عمران خان نے اُس کشکول کو توڑے کا فریضہ ادا کردیاہے۔ جس نے ستر سال سے پوری پاکستا نی قوم کو فقیربنا رکھا تھا؟ پاکستانی قوم سمیت پوری دنیا مخمصے میں مبتلاہے۔
تعجب ہے، مگراِس پرکہ چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول زداری کا کہنا ہے کہ سلیکٹ وزیراعظم نے کشکول اُٹھا کر حکومت کا آغازکیا، لیکن یہ مُلک چندے سے نہیں چل سکتا، حکومت غلط فیصلوں سے مُلک کو تباہی کی جانب لے جارہی ہے“آج بلاول کے کہے میں کون سی سیاست پوشیدہ ہے؟ یہ بھی سب جانتے ہیں۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اَب اِس کا ساتھ دینے کو کوئی تیار نہیں ہے؟
تب ہی آج وفاق سمیت چاروں صوبائی حکومتوں اور اداروں میں بڑے چھوٹے، ظاہر وباطن رکھے ہوئے۔ کشکول کو توڑنے کا سلسلہ زور و شور سے جاری ہے، مگرآج یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ کشکول کو اپنی کمائی کا ذریعہ بنانے والی ماضی کی حکمران اور اپوزیشن جماعتیں کشکول توڑے جانے کے حکومتی اقدام کوشدید تنقیدوں کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ اور حکومت کے چہرے پر تنقیدوں کے زہریلے نشتر سے چیرہ سازی میں مصروف ہیں۔ خود سے کشکول کو جدا ہونے پر دردر سینہ گوبی اورآہ و فغاں کرتی پھررہی ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کے اِس رویئے کو مُلک کا ایک بڑا باشعور اور سلجھا ہوادانش مند طبقہ معیوب سمجھ رہا ہے۔

تاہم بقولِ خاتونِ اول بشری بی بی “بیشک! عمران سیاستدان نہیں بہت بڑے لیڈر ہیں۔ اِن جیسا دوسرا اردگان ہے“ اللہ کرے، ایسا ہی ہو، جیسا کہ خاتونِ اول نے فرمایا ہے، جبکہ بشریٰ بی بی نے یہ بات کہہ کر یقینی طور پر ایک وفاشعار بی بی ہونے کا ثبوت دے دیاہے، اِس میں شک نہیں ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے بعد اِس صدی کے عمران خان عظیم لیڈر ہیں۔ اور جہاں تک اردگان جیسے ہیں؟ تو اِس میں بھی لگ بھگ کو ئی دو رائے نہیں ہونی چاہیے کہ وزیراعظم عمران خان ا پنی حکومت کے اقتصادی اور کفایت شعاری کے ابتدا ئی سوروزہ اقدامات کو عملی جامہ پہناتے ہوئے، اندرونی اور بیرونی طور پر شہرت کی بلندیوں پر پہنچ چکے ہیں؟ اورسیاسی اور معاشی و اقتصادی لحاظ سے اربوں کے قرضوں کے بوجھ تلے دبی پستی اور کسمپرسی کے دلدل میں دھنسی اپنی قوم کو غربت اور کرپشن سے نکالنے کے لئے وزیراعظم ہاوس کی لگژری گاڑیاں اور منوں دودھ دینے والی بھینسوں کی نیلامی جیسے اقدامات کررہے ہیں۔ کیا اِس طرح عنقریب عمران خان اردگان اور مینڈیلا اور مہاتر محمد کو بھی مات دے کر نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ پوری دنیا کے عظیم لیڈر کا درجہ پا لیں گے؟

جبکہ یہاں یہ نقطہ جاننا بہت ضروری ہے کہ ہر زمانے کی ہر تہذیب کے ہر معاشرے کے اہل علم اِس پر متفق ہوئے ہیں کہ ہجوم کی بیجا تنقید سے باہمت میرکارواں اپنا راستہ نہیں بدلتا ہے، اور کُتے کے بھونکنے سے ہاتھی نہیں ڈرتا۔

جیسا کہ پی ٹی آئی سے وابستہ مخصوص تبدیلی کا ما ئنڈ سیٹ رکھنے والے خاص طبقے اور حکومتی وزراءاور اراکین پارلیمنٹ کا قوی خیال یہ ہے کہ بیشک! آج وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے سترسال سے اپنے اور اغیار کا تھمایا ہوا بھیک مانگنے والا کشکول توڑ دیا ہے اور قوم کو بیساکھیوں کے بغیر دھیرے دھیرے ہی سہی مگر اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا عادی بناکر چلنے دوڑنے اور آگے بڑھ کر دنیا فتح کرنے کا حوصلہ دے دیاہے۔ راقم الحرف کا پی ٹی آئی کی اِس خاص سوچ اور عزم پر کہنا ہے کہ مگر اَب دیکھنا یہ ہے کہ قوم اور ادارے اِس پر متفق بھی ہیں کہ نہیں؟ جس کا حکومتی اراکین اور پاکستان تحریک اِنصاف والے دعوے کررہے ہیں۔ یا ابھی عیاش پسند قوم اور ادارے کشکول ہاتھ میں تھامیں بھیک اور امدادوں سے پیٹ بھر کر کمر پر ہاتھ صاف کرنے کی عادت نہیں چھوڑیں گے؟ آپ بھی اِس کا انتظار کریں اور میں بھی کرتا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).