تھر کا نوحہ


سندھ کے مشرق میں واقع، بھارت کی سرحد سے جڑا تھرپارکر دنیا کا چھٹا بڑا صحرائی علاقہ ہے۔ ریت کے ٹیلوں اور بھٹوں پہ موجود اس صحرا نے اپنے اندر کئی تاریخوں کے ادوار دفن کر رکھے ہیں۔ فطرتی حسن سے بھرپور کارونجھر پہاڑ کی چوٹی، اور وہاں سے بہتی ندیاں سرحدی علاقے کی خوبصورتی کو دوگنی کر دیتی ہے۔ ننگرپارکر میں موجود پرانے مندر ابھی بھی یہ بات ظاہر کرتے ہیں کہ، یہاں زیادہ تر ہندو آبادی آباد ہے، پہلے بھی یہ ہندوؤں کا کثریتی علاقہ تھا۔ یہ علاقہ گرمی کی مون سون کی بارشوں پہ سرسبز ہوجاتا ہے، اور ایک بڑا سیاحتی مرکز بن جاتا ہے، جہاں پہ قدرت کے حسین نظارے دیکھنے کے لیے ملک بھر سے سیاح چلے آتے ہیں۔

جیسے ہی بارشیں ہوتی ہیں تو یہاں کے باسی بھی خوشی سے جھوم اٹھتے ہیں، وہ طرح طرح کے گیت گا کے جشن مناتے ہیں۔ یہاں کی ہندو آبادی کے زیادہ تر مذہبی تھوار بارشوں کی موسم کے بعد ہی آتی ہیں، جیسا کہ رکشا بندھن، تھڈری، جنم اشٹمی بگھوان کرشنا، کانھوڑا۔ کیونکہ جب بارش کے بعد یہاں کی ریت ہری چادر اوڑھ لیتی ہے تو چار سو خوشی کی منظر دکھائی دیتے ہیں۔ ایک طرف تو ہریالی کی وجہ سے مویشی جانور جیسا کے گائے بکریوں کو گھاس مل جاتا ہے، اور دوسرے طرف تپتی ریت جب ٹھنڈی ہوجاتی ہے تو، کھیتی باڑی کے لائق بن جاتی ہے۔ ندی نالوں اور چھوٹی تالابوں میں پانی جمع کر کے یہاں کے لوگ اناج جیسا کہ باجرہ، جوار اور کچھ سبزیاں بھی اگاتے ہیں۔ تھر کی خاص پیدوار کھمبی (Mushroom) بھی بڑی مقدار میں ہوتی ہے، جو باہر سے آئے لوگ بڑے شوق سے خریدتے اور کھاتے ہیں۔

یہاں ساون کے موسم میں مور اپنے روایتی پنکھ پھیلا کے بڑا ہی دلچسپ ناچ کرتا ہے، اور کہتے کے جب مور خوش ہوتا ہے تو ہی ایسے ناچتا ہے۔ اور باقی وہاں کے پرندے اور دوسرے جانور بھی بارش کی موسم میں بہت خوش ہوتے ہیں، جس کا ذکر شاہ عبدالطیف نے اپنے شاہ جو رسالو کے سر سارنگ میں بخوبی بیان کیا ہے۔ جیسے کہ یہ ایک صحرائی علاقہ ہے تو اس کی خوشحالی کا دارومدار بارشوں پہ ہے، اگر بارش ہوئی تو عید کا سماں، ورنہ تو ان کی درد کھانیاں ایک غمزدہ نوحہ بن جاتی ہے۔ جیسا کی رواں سال تھر میں جن لوگوں کے نظریں آسماں کے کالے بادلوں پہ تھی، وہ بادل تو نہ گرجے اور نہ ہی برسے، اور یوں ہی بنا برسے خالی ہاتھ لوٹ گئے۔ اور بوندوں کے منتظر تھر والے، جن کا جینا مرنا بارش پہ منحصر ہے، وہ دیکھتے دیکھتے تھک گئے، پر آسماں سے ابر کی بوندیں نہ برسیں۔ جیسے ہی ساون کی موسم ختم ہوئی تو تھر میں قحط پڑگیا۔ نہ جانوروں کے لیے کھانے کو گھاس، نہ ہی انسانوں کے لیے کوئی ذریعہ معاش۔

ایک طرف جانورں کی بھوک کی وجہ سے مرنے پر، وہاں کے لوگ جانوروں سمیت نقل مکانی کر کے سندھ کے بیراجی علاقوں میرپورخاص، ٹھٹہ، بدین، ٹنڈومحمدخان میں جانے کو مجبور ہیں، تو دوسرے طرف وہاں پہ انسانی بچے غذائے قلت، بیماریوں میں اضافہ کی وجہ سے ہر روز مر رہے ہیں۔ اس سال بھی ابر کرم نہ برسنے پر تھر کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے، نہ وہاں غذا ہے نہ پانی ہے، اور نہ ہی کوئی علاج کی بہتر سہولتیں۔ جس تھرپارکر میں کوئلہ منصوبے کے غرض سے اسلام کوٹ پہ ایک ہوائی اڈا شہید مائی بختاور کے نام سے تعمیر کیا گیا تھا، وہاں اب تک بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں ہے۔

تھر کے کالے سونے پہ حق جتانے والے یہ کیا جانے کہ، یہ کوئلہ بھی تو شاید تھر باسیوں کا دکھڑا سن سن کے سیاہ رنگ کا ہوگیا ہے۔ جہاں اقتدار کے نشے میں ڈوبے اسمبلی ارکان کو اتنے بڑی پراجیکٹ کی فکر ہے، اور اس پہ کروڑوں کی مالیت صرف کر رہے ہیں، وہاں ان کے آنکھوں کو یہ دکھائی ہی نہیں دیتا کہ تھر کے باسی کوئی ہوائی سفر کا شوق نہیں رکھتے، جو اتنے بڑے خرچ سے ہوائی اڈا بنایا گیا تھا، یہ بھوک اور بیماریوں کے مارے لوگ مانگتے ہیں تو صرف پانی، بہتر علاج اور خوراک۔ ان قحط زدہ لوگوں کو کیا غرض کے ان کے علاقے میں ہوائی اڈا ہے یا نہیں، پر ان کو بنیادی سہولتیں چاہییے، جو اب تک مل نہیں پائی۔

یہاں کہ لوگ جو مذہبی ہم آہنگی کا اور انسانی محبت کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں، پتا نہیں کیوں ان کی مشکلات اور ان کے بچوں کی اموات کسی کو نظر کیوں نہیں آتی؟ یہ بھی تو اپنے حصے کا ووٹ ڈال کے سندھ اور قومی اسمبلی میں ارکان اسی لیے بیھجتے ہیں کہ، ان کی کوئی امداد ہو سکے، ان کے دکھوں کا کوئی ازالہ کر سکے۔ جب ان کے یہاں ْقحط پڑے، تو اس مشکل گھڑی میں کوئی پوچھنے والا ہو، پر نہیں، ایسا ہوتا ہی نہیں ہے۔ ووٹ لے کی یہاں کے ارکان پروازوں پہ اونچی اڑان بھر کہ، کراچی اور اسلام آباد میں اپنے پر آسائش گھروں میں مزے لے رہے ہوتے ہیں، اور یہاں یہ بیچارے روز کوئی نہ کوئی سوگ مناتے ہیں، کبھی ان کی کوئی گائے مر جاتے ہے تو، کبھی کوئے جگر کا ٹکڑا ہسپتال میں دم توڑ دیتا ہے۔ پر ان کے دکھ کا احساس تو کسی کو نہیں؟ ایک تو ْقدرت کی طرف سے مصیبت آتی ہے، باقی رہے سہی کسر یہاں کے حکمران پوری کر دیتے ہیں۔

انگریز دور کے قانون کے مطابق جس سال بھی جولائی تک بارشیں نہ ہو تو آگست میں، تھرپارکر کو قحط زدہ علاقہ قرار دے کہ ان کی امداد کرنا ہوتی تھی، اور ہنگامی بنیادوں پہ ان کو کھانے پینے کی اشیا پہنچانے کے ساتھ ہر ممکن مدد کرنا ہوتی تھی۔ پر انگریزوں کے ساتھ ان کا یہ بنایا ہوا تھر کے بہتری کے لیے قانون بھی ان کے ساتھ بوریا بستر باندھ کے برطانیہ روانہ ہوگیا۔ اب تو صرف اعلان ہوتے ہیں، پر نہ اموات کا سلسلہ رک پاتا ہے، نہ ہی بیماریوں پہ قابو پیا جا سکا ہے۔ سندھ حکومت نے تھرپارکر علاقہ کو قحط زدہ علاقہ قرار دے کہ پیکج کا اعلان کیا تو ہے، پر جس طرح سے یہاں ماضی میں امدادیں ملتی رہی ہیں، وہ کسی سے ڈکھی چھپی نہیں۔ پچھلے دو سالوں میں بھی کئی سو معصوم بچے موت کے شکنجے میں چلے گئے، پر ان کو اس شکنجے سے چھڑانے والا، اور موت کے منہ سے نکال کہ زندگی عطا کرنے والا، نہ ہی کوئی فرشتہ صفت انسان نظر آیا، نہ ہی یہ نیک کام ہماری حکومتوں سے ہو سکا۔

نئے پاکستان کے خالق وزیراعظم عمران خان تو شاید تھرپارکر کو پرانے پاکستان کا حصہ سمجھتے ہیں، اسی لیے تو انھوں نے مفت امدادی گندم افغانیوں کو تو بھجوا دی، پر ان کو ایک لمحہ کو بھی یہ خیال نہ آیا کہ، سندھ میں موجود کوئی صحرا تھرپارکر بھی ہے، جہاں بارش نہ ہونے کی وجہ سے غذائی قلت آن پڑی ہے۔ تھر سے تعالق رکھنے والے ارباب غلام رحیم جب پرویز مشرف دور میں سندھ کے وزیراعلی بنے تھے تو، اس نے تھر میں پکے راستوں کا جال بچھوایا، جس کو اس وقت میں بہت ہی سراہا گیا، لیکن اس وقت بھی یہ بات ہر زبان پہ تھی کہ پکے راستوں کے ساتھ دوسرے مسائل بھی حکمرانوں کی توجہ چاہتے ہیں۔ تھر کی خواتین کئی میل دور پیدل سفر کر کے، ایک سر پہ اور ایک کمر پہ گھڑا رکھ کے کنووں سے پانی بھر کے لاتے ہیں، لیکن دکھ کی بات تو یہ ہے کہ یہ کنویں بھی قحط کے دنوں میں سوکھ جاتے ہیں۔

نائی کوٹ کا تاریخی قلعہ اور مٹھی شہر کے بیچھوں بیچھ موجود گڈی بھٹ، جہاں سے سارا شہر ایک جھلک سے دیکھا جا سکتا ہے، ان بہترین مناظر اور ماضی کے قصے پیش کرتے جگہوں کو بھی تھوڑی توجہ مل جاتی تو، یہ بڑے سیاحتی مرکز بن سکتے تھے، تاہم ابھی بھی بہت لوگ ساون کے مند میں تھر کے فطرتی حسن کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔ پر دور سے آنے والے سیاحوں کو ہمیشہ یہ شکایت رہتی ہے کہ، یہاں کھانے پینے کی اشیاء کی کمی ہے اور رہائش کے لیے ہوٹل نہیں ہیں۔ مٹھی شہر میں تو ایک بڑی مارکیٹ بھی ہے، جہاں ہاتھ کی کڑھائی کی چادریں، اور کپڑے موجود ہوتے ہیں۔ یہاں کی عورتیں گج، رلیاں، اور بہت سے چیزیں ہاتھوں سے بڑی ہی خوبصورت بناتی ہیں۔ اگر ان کو سندھ کے بڑے شہروں حیدرآباد اور کراچی میں لا کے بیچا جائے، تو یہ ہنر بھی بڑا کاروبار بن سکتا ہے، جس سے بہت سے مرد اور خواتین روزگار کما سکتے ہیں۔

صوبائی حکومت کی جانب سے صرف نادرا کا شناختی کارڈ دیکھ کر فی گھر کو پچاس کلو گندم دی جا رہی ہے۔ نہ کھانے پینے کی اشیاء، نہ ہی دوسری بنیادی کھانے کی چیزیں، بس صرف گندم کی بوریاں بنام امداد دے کہ تھر باسیوں کا مزاک ہی تو اڑایا جا رہا ہے۔ وہ یہ خیرات اور امدادیں نہیں چاہتے، ان کی مانگ تو یہ ہے کہ ایک خصوصی پیکیج دے کہ ان کی مدد کی جائے۔ ان کے مویشی مال کا بر وقت علاج کر کے انھے مرنے سے بچایا جائے۔ تھر میں ہسپتال اور بنیادی طبی سہولیات کے اور مرکز کھولے جائے، جہاں پہ بچوں اور بڑوں کا بر وقت علاج ہو سکے۔ عمران خان جو کہ نئے پاکستان کا خالق بننا چاہتا ہے، اس پہ بھی فرض ہے کہ تھر کے لیے خاص اقدام اٹھائے، آخر اس نے بھی سندھ سے بہت سیٹیں جیتی ہیں، تو سندھ کو صرف پیپلزپارٹی کی میراث سمجھ کے اس سے منہ نہ موڑا جائے۔ ابھی بھی روز تھر میں بچے مرتے ہیں، اور روز کسی نہ کسی گھر میں گود خالی ہونے کے غم میں گریاں کیا جاتا ہے، خدارا اب کوئی تو تھر کی ماؤں کا نوحہ سنے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).