پاکستان انصاف کی فراہمی میں افغانستان سے بھی پیچھے ہے


ورلڈ جسٹس پراجیکٹ ایک آزاد اور کثیر شعبہ جاتی ادارہ ہے جو عالمی سطح پر قانون کی حکمرانی اور سر بلندی کے لئے کا م کرتاہے۔ اس ادارے کا ایک کام، قانون کی حکمرانی اور کارکردگی پر سالانہ عالمی رپورٹ مرتب کرنا بھی ہے۔ اس رپورٹ میں دنیا بھر کے ایک سو سے زائد ممالک کے لوگوں اور ماہرین سے 8 مختلف عوامل پر مبنی سوالنامے اور سروے پر تحقیقی نقطہ نظر سے رائے لی جاتی ہے جو قانون کی حکمرانی کے لئے اہم سمجھے جاتے ہیں۔ اور پھر ان ممالک کی درجہ بندی ان 8 عوامل پر آنیوالی آراء کی روشنی میں کر دی جاتی ہے۔ ا ن عوامل میں 2 کا تعلق سول اور کرمنل جسٹس سے ہے جو کسی ملک میں انصاف کی فراہمی سے متعلقہ اس ملک کی کارکردگی کے بارے میں بتاتے ہیں۔

سول جسٹس کی کارکردگی کو جانچنے کے لئے اس شعبے میں فراہمی انصاف میں درپیش مشکلات، جیسے، لوگوں کی انصاف تک رسائی اوراسکی لاگت یا قیمت، نظام انصاف میں کرپشن کا ہونا، عدالتوں میں امتیازی سلوک کا روا رکھا جانا، حکومت کا عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہونا، دیر سے فیصلوں کا ہونا، تنازعوں کے حل کا متبادل نظام نہ ہونا اور فیصلوں پرعملدرآمد نہ کرا سکنا جیسے ذیلی عوامل شامل ہوتے ہیں۔ اسی طرح کرمنل جسٹس کو جانچنے کے لئے جن ذیلی عناصر پر معلومات اکھٹی کی جاتی ہیں ان میں، موثر تفتیش کا نظام نہ ہونا، فیصلوں کا جلد اور موثر نہ ہونا، عدالتی فیصلوں کا جرائم میں کمی کا با عث نہ ہونا، غیر جانبدار انہ اور کرپشن سے پاک عدالتی نظام کا نہ ہونا، عدالتوں کا حکومتی اثر سے پاک نہ ہونا اور ملزموں کو قانونی کارروائی کا پورا حق یا موقع کا میسرنہ ہونا، وغیرہ شامل ہیں۔

اس ادارے نے سال 2017۔ 18 کی رپورٹ برائے، قانون کی حکمرانی اور سربلندی، امسال جون میں شائع کی اور 113ممالک کا ایک موازنہ پیش کیا۔ اس رپورٹ کے مطابق سول جسٹس کی فراہمی اور اس سے متعلقہ سہولیات اور نظام میں سب سے بہترین حالت ہا لینڈ کی ہے جو ادارے کے مرتب کردہ سکو ر کے مطابق پہلے نمبر پر ہے۔ ڈنمارک، جرمنی، ناروے اور سنگاپور اس فہرست میں بالترتیب دوسرے، تیسرے، چوتھے اور پانچویں نمبر پر ہیں۔ سب سے مخدوش حالت والے ممالک میں آخری درجے پر کمبوڈیا ہے۔ جبکہ اس کے بعد وینزویلا، بولیویا، گوئٹے مالا، میانمار، کیمرون اور پاکستان ہیں۔ یعنی وطن عزیز سول جسٹس کی فراہمی اور متعلقہ سہولیات دینے میں 6 بد ترین ملکوں سے بہتر ہے یا یوں کہیے کہ 107 بہترین ممالک سے بدتر ہے۔

علاقائی طور پرکیے گئے موازنے میں پاکستان میانمار سے بہتر جبکہ افغانستان اور دیگر ملکوں سے بھی پیچھے ہے۔ اسی طرح سے کریمنل جسٹس کی فراہمی اور سہولیات سے متعلقہ رینکنگ میں فن لینڈپہلے نمبر پر جبکہ ناروے، ڈنمارک، سویڈن، سنگاپور، بالترتیب دوسرے، تیسرے، چوتھے اور پانچویں نمبر پر ہیں۔ سب سے بری حالت والے ممالک میں آخری درجے پر وینزویلاہے۔ جبکہ اس کے بعد بولیویا، ہنڈورس، کمبوڈیا اورکیمرون بالترتیب نمبر پر ہیں۔ پاکستان اس فہرست میں 33 نمبر پر ہے اور علاقائی طور پر افغانستان، میانمار اور بنگلہ دیش سے آگے اور سری لنکا، نیپال اور بھارت سے پیچھے ہے۔

منیر نیازی مرحوم کہا کرتے تھے۔ منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے۔ کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ، آہستہ۔ مندرجہ بالا کارکردگی دیکھ کر تو یوں لگتا ہے کہ جیسے سفر نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں ورنہ 71 سال میں کچھ تو فاصلہ کٹتا، یوں لگتا ہے جیسے جہاں سے چلے تھے اسی مقام کے اردگرد ہی گھوم رہے ہیں۔ آئے روز ملک عزیز کے کسی ادارے یا معاشرے کے کسی پہلو پر کو ئی نہ کوئی رپورٹ نام نہا د ملکی ترقی اور اداروں کی کارکردگی کے دعووں کا بھانڈا جیسے بیچ بازار پھوڑ دیتی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ بین الاقوامی ادارے اس ملک کے پیچھے پڑ گئے ہیں؟ چلئے دل کی تسلی کے لئے اپنے اداروں کی کسی رپورٹ کو دیکھتے ہیں۔ لا ء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق فروری 2018 کے آخر تک ملک کی سب سے اعلی عدلیہ یعنی سپریم کورٹ میں 38500 مقدمات، پانچوں ہائیکورٹس میں 293947 مقدمات اور ضلعی اور تحصیل کی سطح پر قائم عدالتوں میں 15 لاکھ سے زائد مقدمات شنوائی اور فیصلوں کے منتظر ہیں۔

تو صاحبو، حالت تو وہی ہے جو دنیا ہمارے بارے میں کہ رہی ہے۔ اور حقیقت بھی کہا ں اس سے مختلف ہے۔ کیا ہم نے نہیں دیکھا کہ ہماری معزز عدالتوں میں سول نوعیت کے مقدمات دو سے چا ر عشروں تک بڑے آرام سے چلتے رہتے ہیں اور بعض مقدمات کی پیرو ی سائلین کی اگلی نسل کو وراثت میں ملتی ہے۔ فوجداری مقدمات میں انصاف کے معیا ر کا یہ عالم ہے کہ قتل کے مقدمات میں کئی نامزد ملزمان عدالتوں سے اسوقت بری ہوئے جب وہ ناکردہ گناہ کی پاداش میں سزا کے برابر کی قید پہلے ہی کاٹ چکے ہوتے ہیں۔ کتنی با ر ایسا ہوا اس ملک کے شہری اپنی زندگی کے قیمتی سال، محض مقدمات کا اتار چڑھاؤ دیکھتے، پیشیوں کا انتظار کرتے اور ایک عدالت سے دوسری عدالت میں دھکے کھاتے کھاتے، ایک قیدی کی حیثیت سے گزار چکے ہوتے ہیں۔ اپنے گھر، بہن بھائی، بیوی اور بچوں سے دور ی کا عذاب بھی جھیلتے ہیں کہ شاید اگلی پیشی پر فیصلہ ہو جائے اور ان کی آزمائش ختم ہوجائے۔ مگر، یہ عدالت اور انصاف کا گھمبیر چکر انھیں اس میں سے نکلنے ہی نہیں دیتا۔ اور پھر جب زندگی کی کئی بہاریں جا چکی ہوتی ہیں تو کہیں کو ئی فیصلہ ہوتا ہے کہ دس سال پہلے ملزم قیصر پر جو الزام قتل تھا مدعی اس کو ثابت نہ کرسکا لہذہ اسے با عزت بری کیا جاتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ دس سال جیل میں کاٹنے والے کو بری کر کے عدالت نے کونسا انصاف کیا؟ وہ تو بے گناہ تھا، بات تو تب تھی کی عدالت اسے اس کی عمر رفتہ کے وہ تمام پل لوٹاتی جو اس نے جیل میں گذارے۔ قانون اندھا ہوتا ہے اس لئے وہ دیکھنے سے قاصر ہے کہ جسے آج بری کر رہے ہیں اس کے خاندان پر اور اس پر کیا گزری ہوگی؟ ہم جانتے ہیں کہ معا شرہ کفر کے ہوتے ہوئے باقی رہ سکتا ہے، مگر نا انصافی کے ہونے سے تباہ ہوجاتا ہے۔ اور وہ مشہور زمانہ قول بھی تو ہمارے علم میں ہے کہ انصاف کی فراہمی میں تاخیر انصاف کی تردید ہے۔ توخاطر جمع رکھیں۔ ہمارے معاشرے میں تباہی کے اجزائے ترکیبی با کثرت پائے جاتے ہیں۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ اس نظام کو جانچنے کے لئے کسی قسم کی عالمی یا قومی رپورٹ کی چنداں ضرورت نہیں، آئے دن معزز عدالتوں کے ٖفیصلوں سے یا واضح ہوتا رہتا ہے، کہ کہیں کچھ غلط، بہت غلط ہورہا ہے۔

صاف سی بات ہے کہ اگر انصاف کا یہ نظام، عوام الناس کو مطلوبہ نتائج فراہم نہیں کر پارہا تو اس کی وجوہات جاننے کی ضرورت ہے۔ یہ دیکھا جانا چاہیے کہ کیا ملک میں موجود عدالتوں اور معزز ججوں کی تعداد اس ملک کی آبادی سے ہم آہنگ ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ججوںیا عدالتوں کے مقابلے میں مقدمات کی تعداد بہت زیادہ ہے اور سائلین مقدمات کی شنوائی کے لئے ترس رہے ہوں اور ججز اپنی جگہ کام کی زیادتی سے نالاں ہوں؟ وہ مقدمات جو شو مئی قسمت سنے جاتے ہیں حد سے زیادہ عدالتی وقت لے جاتے ہوں؟ کیا وکلاء اور ان کی تنظیمیں ایک منصوبے کے تحت سائلین کو اپنی مستقل آمدنی کا ذریعہ بنا کر رکھنے کی کامیاب سعی تو نہیں کر رہے؟ کیا فوجداری مقدمات کی تفتیش کا طریقہ کار اور متعلقہ ادارے بشمول پولیس ان مقدمات کو گنجلک بنا دیتی ہیں، جس سے عدالت کا نہ صرف یہ کہ وقت ضائع ہوتا ہے بلکہ ملزمان کو اس کی قیمت کتنی ہی شکلوں میں ادا کرنی پڑتی ہے۔

کیا غریب اور امیر کے لئے عدالت کی انصاف دینے کی سعی ایک سی ہے یا اس میں کسی قدر امتیاز ہے، اگر ایسا ہے تو پھر انصاف صرف امراء کی دسترس میں ہوگا۔ کیا ریاست ایسے غریب آدمی کو وکیل فراہم کرتی ہے جو عدالت سے رجوع کرنے کے لئے مطلوبہ رقم اور زرائع نہیں رکھتا۔ کیا انصاف فراہم کرنے کے لئے مطلوبہ قوانین موجود ہیں اور جہاں سقم موجود ہیں ان کے لئے قانون سازی کی کو ئی حکمت عملی اور ترجیح حکومت نے کبھی مقرر کی ہے؟ کیا مقدمات کے فیصلے کرنے کے لئے کوئی مقر وقت ہے جس کے اندر مقدمات کا فیصلہ ہر صورت ہو جائے؟ کیا عدلیہ اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہے یا پھر وہ فیصلے مالی، سیاسی اور خوف کے اثر کے تحت کرتی ہے؟

عدالتیں اکیلے انصاف کی فراہمی کو یقینی نہیں بنا سکتیں، دوسرے ادارے جیسے پولیں، بیوروکریسی اور قانون ساز اسمبلی ان کی مدد ایسے کرسکتی ہے کہ اپنے فرائض کی انجام دہی پوری تندہی سے کرے۔ ان اداروں کا تعاون عدالت کے لئے کتنا کارگر ہوسکتا ہے اس کا اندازہ محض اس امر سے لگا یا جا سکتا ہے کہ عدالتوں میں سول مقدمات کی نوعیت اکثران مسائل اور تناز عوں پر مبنی ہوتی ہے۔ جن کا حل انتظامی سطح پر موجود ادارے، وزارتیں اور ٹریبیونل بخوبی کرسکتے ہیں، مگر اقربا پروری، کرپشن اور قوت فیصلہ کی عدم موجودگی ان اداروں کے کام کرنے کی راہ میں حائل رہتی ہے، نتیجے کے طور پر عدالت کا کام بڑھتا ہے اور بیوروکریسی کا کام بھی عدالتییں کرتی ہیں۔

یہ درست ہے کہ معاشرے میں موجود ہر شخص تک انصاف کی فراہمی وطن عزیز کے لئے ایک خواب ہے، مگریہ ناممکن ہرگز نہیں، مدینہ کی جس ریاست کے خدوخال آج کل اس ملک کی ممکنہ خوشحالی اور معاشرتی ہم آہنگی کے لئے ہمہ وقت زیر بحث ہیں، اس بہترین ترین ریاست میں 10، 000لوگوں کے لئے ایک جج ہوتا تھا۔ جبکہ ملک عزیز میں یہ تناسب ایک اوسط کے مطابق 50۔ 70 ہزار افراد فی جج ہے۔ دونوں ریاستوں کے درمیان یوں تو صدیوں کا فاصلہ ہے۔ مگر معیار انصا ف کا جو پیمانہ کتنی ہی صدیوں کے اس پار مقر ر ہوا آج بھی اسی قدر متعلقہ اور مثالی ہے کہ پاکستان ایک عظیم فلاحی ریاست کی عملی شکل بن سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).