الحمرا کے افسانے


آٹھویں جماعت پاس کرکے شفیق الرحمن بہاول پور سے بہاولنگر چلے گئے۔ چھٹیوں میں ایک بار وہ بہاول پور آئے توخالد اختر نے دوست کو ایک کتاب دی۔ وہ لکھتے ہیں ”میرے والد صاحب کی کتابوں میں واشنگٹن ارونگ کی انگریزی کتاب ”الحمرا کی داستانیں“ کی ایک جلد نکل آئی۔ اسے میں نے شفیق کو دے دیا اور وہ چھٹیوں کے بعد اسے اپنے ساتھ بہاول نگر لے گیا۔ اس نے اس میں سے دو تین کہانیوں کے آزاد ترجمے کئے۔ میرا خیال ہے وہ”عصمت“میں چھپے۔ وہ بڑے خوبصورت ترجمے تھے۔ شوخ اورشگفتہ اور بے تکلف۔ “

آگے چل کر بتایا ”الحمرا کی کہانیاں“ نے جنھیں اس نے اسکول کے زمانے میں پڑھا تھا، اسے بے حد متاثر کیا ہے اور وہ ابھی تک اس کے جادوکے اثر سے (خوش قسمتی سے) نہیں نکل پایا۔ مجھے یقین ہے کہ اگر کوئی اچھی خواہشیں پوری کرنے والی پری اسے اس کے لڑکپن کے زمانے کی چند گھڑیاں واپس دینے پر تیار ہو جائے تو ان گھڑیوں کوچنے گا جن میں وہ الحمرا کے رومانوں کی پراسرار دنیا میں کھویا ہوتا تھا۔ ایک لکھنے والے پر اس کے بچپن اور لڑکپن کی پڑھی ہوئی کتابوں کے اثر کا اندازہ کرنا بڑا مشکل ہے، مگراس میں کوئی کلام نہیں کہ ان کا اثر گہرا اور دیرپا ہوتا ہے۔ شفیق کی سنجیدہ کہانیوں میں رومانیت اور حسن ”الحمرا“کی دین ہے۔ “

شفیق الرحمن اوراس کتاب کے تعلق کی کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی۔ ان کی بے مثال تحریر ”برساتی“ میں بھی ”الحمرا“کا ذکر ہے ”ایک دھند سی چھا گئی، چشمے کا شوردھیما ہو گیا، دھوپ پھیکی پڑ گئی، وہ سب نقوش ذہن میں ابھرنے لگے۔ میں اور میرا دوست رودباد انگلستان عبور کر رہے تھے۔ ہم ہسپانیہ جائیں گے۔ میں اب وہ شرارتی اوربے چین لڑکا تھا جس نے اسکول سے بھاگ کر ایک باغ میں واشنگٹن ارونگ کی کتاب ”الحمرا کی کہانیاں“ پڑھی تھی، جسے اندلس نے مسحورکر دیا جس کے خوابوں میں وہ سہانی فضائیں بس گئیں۔ “

شفیق الرحمٰن، نامورادیب مستنصرحسین تارڑ کے محبوب مصنف ہیں، ”برساتی“ انھیں اس قدر پسند ہے کہ کہتے ہیں، وہ اس میں سے نکلے ہیں۔ یعنی اس تخلیق نے ہی انھیں سفرنامہ نگار بننے کی طرف مائل کیا۔ پہلی بارانھوں نے واشنگٹن ارونگ کی کتاب کے بارے میں ”برساتی“ ہی میں پڑھا، اور جب برسوں بعد اندلس کا سفرنامہ لکھنے کا مرحلہ آیا تو پھر اس کی تلاش شروع ہوئی۔

ان کے بقول””اندلس میں اجنبی“ کے لیے تحقیقی مواد جمع کرنے کے دوران مجھے پنجاب پبلک لائبریری کے تہہ خانے میں ارونگ کی اس کتاب کا ایک قدیم نسخہ دستیاب ہوا جس کے ورق اتنے خستہ تھے کہ ذرا سی غفلت سے بھرنے لگتے تھے۔۔۔ میں محترم شفیق الرحمن کو ہمیشہ نہ صرف اپنے ذاتی بلکہ تخلیقی کاموں میں شریک کر لیا کرتا تھا توانھوں نے مجھے ”الحمرا کی کہانیاں“ کا ایک نایاب مصور نسخہ تحفے میں بھیج دیا جو میری لائبریری میں کہیں نہ کہیں محفوظ ہوگا۔ “

مستنصرحسین تارڑ وہ خوش نصیب ہیں جنھوں نے واشنگٹن ارونگ کا گھربھی دیکھ رکھا ہے۔ اس کی خبر ہم کو ان کے سفرنامے ”نیویارک کے سو رنگ“سے ملتی ہے۔ ”میں ٹیری ٹاون کے خوش نظر خاموش سے قصبے میں دریائے ہڈسن کے کنارے امریکا کے پہلے بین الاقوامی شہرت حاصل کرنے والے مصنف ”ٹیلز آف الحمرا“کے خالق واشنگٹن ارونگ کے قدیم گھر سنی سائڈ کے برآمدے میں ایک آرام کرسی پر براجمان، میامی والا براؤن ہیٹ پہنے، ایک نیکرمیں ملبوس سامنے پھیلے وسیع ہڈسن کے پانیوں میں نظریں جمائے ایک عجیب سی طمانیت اورہیجان سے دوچارتھا کہ میں نے کبھی تصورنہیں کیا تھاکہ یہ بھی ممکنات میں سے ہے کہ میں ایک ڈھلتی دوپہرمیں کبھی ”الحمرا کی کہانیاں“ لکھنے والے کے گھرمیں اسی کرسی پر بیٹھ کر دریائے ہڈسن کا نظارہ کروں گا جس کرسی پر وہ براجمان ہو کر آخری عمرمیں پہروں پانیوں کو تکتا رہتا تھا۔ “

ہم نے اوپرمحمد خالد اخترکے قلم سے شفیق الرحمن کے جس خاکے کا ذکر کیا ہے، جب وہ چھپا تو لکھنو میں مقیم مایہ نازافسانہ نگار نیرمسعود (افسوس اب مرحوم، و – مسعود) کی نظروں سے بھی گزرا۔ برسوں بعد محمد خالد اخترکے نام خط میں انھوں نے لکھا ”بہت پہلے ”نقوش“ کے شخصیات نمبر میں شفیق الرحمن پر آپ کے مضمون میں یہ پڑھ کربڑی خوشی ہوئی تھی کہ آپ دونوں دارالاشاعت والی الحمرا کے عاشقوں میں ہیں۔ میں تو بڑے اطمینان سے کہہ سکتا ہوں کہ بچپن سے لے کر آج تک جو کچھ بھی پڑھا ہے، اس میں اس الحمرا سے زیادہ کسی کتاب نے مجھ کو مسحور نہیں کیا۔ “

دارالاشاعت پنجاب کی کتابوں کا برصغیر بھر میں چرچا رہا۔ نیرمسعود ان کتب کے سحر سے کبھی نہ نکل سکے، بچپن میں ان کتابوں تک پہنچ کا ذریعہ معروف افسانہ نگار الطاف فاطمہ کا گھر تھا، جس کے ساتھ ان کی دیوارسے دیوارملی تھی۔ تقسیم کے بعد وہ اس خزینہ سے جن حالات میں محروم ہوئے، اس بابت محمد خالد اخترکو نیر مسعود نے خط میں لکھا ” بچوں کی کتابیں مجھے پڑوس میں بہن الطاف فاطمہ صاحبہ کے یہاں پڑھنے کوملتی تھیں۔ شیشے لگی ہوئی ایک چھوٹی سی الماری میں  دارالاشاعت پنجاب کی کتابیں اوربچوں کی دوسری کتابیں سلیقے سے سجی رہتی تھیں اورکبھی کبھی میرا پورا دن ان کتابوں کی سیر میں نکل جاتا تھا۔ تقسیم کے بعد یہ خاندان پاکستان چلا گیا، جس کے کچھ دن بعد اس گھرکا سامان نیلام ہوا۔ نیلام کی صبح یہ سامان باہرنکال کررکھا گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میزوں، کرسیوں اور پلنگوں کے ساتھ کتابوں کے خزانے سے بھری ہوئی یہ محبوب الماری بھی رکھی ہوئی ہے۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments