دولت کی فتنہ پردازیاں


رسول اللہ (ﷺ) نے خدا سے دعا کی تھی:۔
” یا اللہ مجھے غریبوں کی صف میں رکھنا، اور اس دنیا کو چھوڑنے کے بعد بھی غریبوں میں ہی جگہ دینا“۔
رسول اللہ (ﷺ) کی اس دعا کی تقلید کرنے کے لئے شاید ہی کوئی شخص تیار ہو سکے۔ کیونکہ ہر شخص اس کوشش میں ہے، کہ جس جائز یا ناجائز طریقہ سے ممکن ہو، یہ دولت حاصل کرے۔ حالانکہ دولت انسان کے لئے باعث اطمینان نہیں۔ کیونکہ اگر دولت قلب کے لئے باعث سکون و مسرت ہوتی، تو راک فیلر، نظام دکن، برلے اور ڈالمئے مطمئن ہوتے۔ دولت کی فتنہ پردارزیوں اور تباہ کاریوں کے سلسلہ میں ایک انتہائی درد ناک اور تازہ واقعہ سن لیں، جو ہمیشہ ہی میرے لئے ناقابل فراموش ثابت ہوا۔

دنیا کے نامور ترین شاعر سر رابند ر باتھ ٹیگور خاندانی اعتبار سے بھی۔ ہندوستان میں بہت بڑی پویشن رکھتے تھے۔ آج سے ایک سو تیس برس پہلے آپ کے دادا مسٹر دوارکا ناتھ ٹیگور ہندوستانی روئسا میں غالباً واحد شخصیت تھے، جو ملکہ و کٹوریہ کی ملاقات کے لئے اپنے تیس ملازموں کے ساتھ لندن گئے۔ آپ پہلے ہندوستانی تھے، جن کے گھر اس زمانہ کے وائسرائے آئے۔ یعنی اس سے پہلے کسی ہندوستانی کو بھی وائسرائے کے میزبان ہونے کا فخر نصیب نہ ہوا تھا۔ اور آپ کی فیاضیوں کی حالت یہ تھی، کہ جب آپ کا انتقال ہوا، تو آپ کے ذمہ ایک کروڑ روپیہ قرضہ تھا۔

مسٹر دوارکا ناتھ ٹیگور کے صاجنرادہ مسٹر دیبندر ناتھ ٹیگور ایک درویش صفت بزرگ تھے، جنہوں نے ایک سادہ زندگی بسر کرتے ہوئے نہ صرف اپنے والد کا یہ ایک کروڑ روپیہ قرضہ ادا کیا، بلکہ اپنے باپ کی وصیت کے مطابق ایک لاکھ روپیہ خیرات میں بھی دیا۔ بنگال میں مسٹر دیبندر ٹیگور کو مہاں وشی کہا جاتا۔ ان مسٹر دیبندر ناتھ ٹیگور کے گھر ڈاکڑ سر رابندر ناتھ ٹیگور نے جنم لیا، جو مصور، موسیقار، ایکڑ، ڈرامہ نویس اور مصنف تھے۔ تمام ایشیا میں یہی واحد شخصیت تھے، جن کی کتاب گیتا نجلی، نے کئی لاکھ روپیہ کا نوبل پرائز حاصل کیا۔

ڈاکڑ سر رابندر ناتھ ٹیگور کی بین الاقوامی اعتبار سے کیا پوزیشن تھی، اس کے متعلق میں صرف ایک واقعہ ہی بیان کرتا ہوں مرحوم مہاراجہ نابھ، جب کہ آپ ولی عہد تھے، انگلستان گئے، اور وہاں کئی برس رہے۔ انہوں نے ایک بار راقم الحروف کو اپنے انگلستان کے حالات بیان کرتے ہوئے بتایا تھا، کہ آپ جب انگلستان میں تھے (یہ واقعہ غالباً 1910ء کا ہے ) تو اس وقت انگلستان کے لوگ سوائے ڈاکڑ سر رابند ر ٹیگور کے کسی بھی دوسرے ہندوستانی لیڈر کے نام سے واقف نہ تھے، اور اس کے کئی برس بعد وہاں کے لوگ مہاتما گاندھی اور پنڈٹ جواہر لال نہرو کے نام سے واقف ہوئے۔

اوپر کے یہ حالات تو سر رابندر ناتھ ٹیگور اور آپ کے خاندان کے ہیں، اب اس کے بعد کے حالات سنئے:۔
سر رابندر ناتھ ٹیگور کے صرف ایک ہی بیٹے مسٹر راتھندر ناتھ ٹیگور تھے، جن کا حال ہی میں 3 جون 1961ء کو راجپورہ (ڈیرہ دون) میں تہتر برس کی عمر میں انتقال ہوا۔ راتھندر ناتھ ٹیگور اپنے باپ کے اکلوتے بیٹے تھی۔ آپ اپنے والد مرحوم کی زندگی میں شانتی نکیتن یونیورسٹی سے ہنسلک رہے۔ وہاں آپ غالباً وائس چانسلر یا چانسلر تھے۔ راتھندر ناتھ ٹیگور جب شانتی نکیتن میں تھے، تو آپ وہاں ایک خاتون کے عشق میں مبتلا ہو گئے۔ یہ خاتون وہاں کسی ملازم کی بیوی تھیں۔ اس عشق کا جب وہاں کے دوسرے لوگوں کو علم ہوا، تو آپ خاتون کو لے راجپورہ آگئے۔ راجپورہ پہنچنے کے بعد آپ نے یہاں ایک کوٹھی کرایہ پر لی۔ یہ وہی کوٹھی ہے، جس میں آجکل ایک صاحب ڈاکڑ ورما رہتے ہیں۔

اس کوٹھی میں کچھ عرصہ رہنے کے بعد آپ نے ذاتی کوٹھی تعمیر کی، جس پر ساٹھ ہزار روپیہ کے قریب لاگت آئی، اور آپ کی اس کوٹھی کا نام کاٹھ بنگلہ ہے۔ اس کوٹھی کے نام پر ہی بس سٹینڈ کا نام ہے۔ راتھندر ناتھ ٹیگور خاندانی اعتبار سے رئیس تھے۔ اس کے علاوہ آپ کو دو ہزار روپیہ ماہوار تو شانتی نکیتن سے آتا، اور تین ہزار روپیہ ماہوار کے قریب آپ کو اپنے باپ کی کتابوں کی رائیلٹی کے طور پر ملتا۔ آپ راجپورہ میں تقریباً آٹھ برس سے مقیم تھے۔ اس آٹھ برس میں آپ نہ تو کسی کے ہاں جاتے، اور نہ کسی کو مد عو کرتے۔ آپ اپنی معشوقہ کے ساتھ تنہائی کی زندگی بسر کرتے۔ اور یہ واقعہ دلچسپ ہے کہ قریب کی کوٹھیوں میں میں بھی بہت کم لوگ ایسے ہوں گے، جنہوں نے کبھی آپ کو دیکھا ہو۔ کیونکہ اگر سیر کے لئے موٹر میں جاتے، تو تاریکی میں، تا کہ کسی کا سامنا نہ ہو۔

راقم الحروف جس کوٹھی میں آجکل مقیم ہے، یہ کوٹھی کاٹھ بنگلہ سے صرف چند قدم کے فاصلہ پر ہے۔ میری خواہش تھی، کہ کبھی آپ کا نیاز حاصل ہو، مگر ایسا نہ ہو سکا۔ کیونکہ مجھے بتایا گیا، کہ آپ کسی شخص سے بھی ملنا پسند نہیں کرتے۔ راتھندر ناتھ ٹیگور کا 3 جون کی صبح کو ساڑھے نو بجے کے قریب انتقال ہوا۔ انتقال سے پہلے آپ صرف دو دن بیمار رہے۔ انتقال سے دو گھنٹہ پہلے آپ نے کاغذ طلب کیا، تاکہ کچھ لکھیں۔ مگر کچھ نہ لکھ سکے، اور نہ کچھ کہہ سکے۔ انتقال کے بعد آپ کی معشوقہ کے حکم سے ملازموں نے پتھروں کو لے جانے والی لاری کرایہ پر لی۔ آپ کی لاش ایک معمولی چار پائی پر آپ کے بستر کا ایک گدیلہ بچھایا گیا۔ لاش ایک دھوتی میں لپیٹی گئی، اور لاش پر آپ کے بستر کی ایک چادر ڈال دی گئی۔ لاش ڈیرہ دون کے شمشان کو روانہ ہوئی۔ لاش کے ساتھ بیس کے قریب بنگالی تھے، جو راجپورہ میں رہتے ہیں، جن کو انتقال کی اطلاح دی گئی۔

راتھندر ناتھ جی کے انتقال کے بعد تار کے ذریعہ شانتی نکیتن بھی اطلاح دی گئی۔ شانتی نکیتن سے ساڑھے تین بجے ٹیلیفون آیا، کہ لاش کو لینے کے لئے ہوائی جہاز دہلی سے آ رہا ہے۔ لاش کو جلایا نہ جائے، اور لاش کلکتہ بھیجی جائے۔ یہاں سے جواب دیا گیا، کہ لاش مرگھٹ بھیجی جا چکی ہے۔ ٹیلیفون پر کہا گیا، کہ مرگھٹ میں لاش کو نہ جلانے کے لئے ہدایت کی جائے۔ یہاں سے جواب دیا گیا، کہ کوئی ایسا آدمی یہاں موجود نہیں، جو مرگھٹ جائے۔ کیونکہ مرگھٹ یہاں سے چھ میل کے فاصلہ پر ہے۔ شانتی نکیتن والوں کو جب اطلاح ملی، تو انہوں نے پنڈت جواہر لعل نہرو کو ٹیلیفون پر اطلاح دی، اور کہا، کہ لاش کو لانے کے لئے دہلی سے ہوائی جہاز 4 جون کی صبح کو سہارنپور پہنچا۔ مگر اس سے پہلے لاش جلائی جا چکی تھی۔ کیونکہ یہاں یہ کوشش تھی، کہ جتنی جلدی ممکن ہو لاش کو سپرد آتش کر دیا جائے۔

3 اور 4 جون کی درمیا نی شب کو کلکتہ پولیس کی ہدایت کے مطابق ڈسڑکٹ مجسٹریٹ اور سپرنٹنڈنٹ پولیس ڈیرہ کو تالا لگا کر مہریں لگا دیں گئیں۔ تین روز کے بعد شانتی نیکتن سے کچھ لوگ معہ بیوہ راتھندر ناتھ ڈیرہ دون پہنچے، تاکہ مرحوم کی ہڈیاں ہی شانتی نکیتن لے جائیں، اور اب شاید بیوہ راتھندر ناتھ اور مرحوم کی داشتہ کے درمیان مقدمہ بازی بھی ہو۔ کیونکہ کچھ نہیں کہا جا سکتا، کہ بنکوں میں کتنا روپیہ موجود ہے، اور کوٹھی کاٹھ بنگلہ کس کے نام ہے۔

راتھندر ناتھ ٹیگور کے کوئی اولاد نہیں۔ لاش کو جلد سپرد آتش کرنا ایک معمہ ہے جس کی تہہ میں غالباً دولت کی فتنہ پر دازیاں اور تباہ کاریوں ہیں۔ کاش مرحوم راتھندر ناتھ ٹیگور مالدار نہ ہوتے۔ رسول اللہ (ﷺ) کی اپنے متعلق خواہش کے مطابق یہ بھی غریبوں کی صف میں ہوتے، تو ان کی لاش کلکتہ یا شانتی نکیتن جاتی، جہاں کہ جنازہ میں شاید لاکھوں کی تعداد میں لوگ شامل ہوتے، اور بڑے پڑدادا کا پڑیوتا، بڑے دادا کا پوتا اور بڑے باپ کا بیٹا پتھروں کو لے جانے والی لاری میں ڈیرہ دون کے مرگھٹ میں نہ لے جایا جاتا۔
جن کے جلوے نہ سما سکتے تھے ایوانوں میں
ان کی آج خاک اڑی پھرتی ہے ویرانوں میں

راتھندر ناتھ ٹیگور نے عشق و محبت کی راہ میں شانتی نکیتن کو ہمیشہ کے لئے چھوڑنے اور غریب الوطنی اختیار کرنے میں غلطی کی یا نہیں، اس کا فیصلہ مرحوم ہی کر سکتے تھے۔ بہر حال عشق و محبت کے لئے آپ کی قربانی سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کاش کہ آپ کے مرنے کے بعد وہ بھی آپ کے عشق کی داد دیتے، جن کے لئے آپ نے اپنا مستقبل تباہ کر لیا، اور دنیا یہ شعر گنگنانے پر مجبور نہ ہوتی:۔
پڑھی نماز جنازہ ہماری غیروں نے
مرے تھے جن کے لئے وہ رہے وضو کرتے

دیوان سنگھ مفتوں

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

دیوان سنگھ مفتوں

سردار دیوان سنگھ مفتوں، ایڈیٹر ہفتہ وار ”ریاست“ دہلی۔ کسی زمانے میں راجاؤں، مہاراجوں اور نوابوں کا دشمن، ان کے راز فاش کرنے والا مداری، صحافت میں ایک نئے خام مگر بہت زور دار انداز تحریر کا مالک، دوستوں کا دوست بلکہ خادم اور دشمنوں کا ظالم ترین دشمن۔ سعادت حسن منٹو کے الفاظ۔

dewan-singh-maftoon has 26 posts and counting.See all posts by dewan-singh-maftoon